ایک نظم ایک کہانی

تھیمز کے کنارے شام

شام جب دریا کنارے اترنے لگتی ہے تو پہلے اپنا روپہلا پلو اسکے پانیوں میں ڈبو کر لہروں کے نیچے کی گہرائی دیکھتی ہے۔ تھیمز کے کنارے اس شام نے بھی ابھی اپنا پلو بھگویا ہی تھا کہ میں بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا، اور آہستگی سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے علیحدہ کیا اور دریا کی طرف منہ کر کے لہروں میں اترتی شام کو دیکھنے لگا۔
اسکی نظروں کی تپش لندن کی برفیلی ہوا کو کاٹ کر میری جیکٹ میں چھید کر رہی تھیں۔ سوال ایک ہی تھا جس کا کوئی جواب میرے پاس نہیں تھا۔
کیا دو کنارے کبھی مل سکتے ہیں؟ ایک یونہی سا خیال میرے ذہن میں در آیا، میں نے ایک زرا گردن موڑ کر کنکھیوں سے اسے دیکھا۔ وہ اپنے لانگ بوٹ کی نوک سے زمین کھود رہی تھی، ٹپ ٹپ کچھ قطرے بوٹ کے ساتھ گرے ہوئے تھے۔
مغربی لڑکی بھی وقت رخصت روتی ہے، دیکھ کر مشرق زادے کو حیرت ہوئی۔ میں نے جانے کے لیے قدم بڑھائے تو سوکھی گھاس پر شام کی روشنی میں کسی چمکدار چیز پر میری نظر پڑی۔ میں نے بے ارادہ جھک کر اٹھا لیا، کسی کے کان کی بالی تھی۔
دفعتاً اس نے بالی میرے ہاتھ سے لے لی، اور واپس وہیں پھینک دی، میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تو ایک بھیگی ہوئی دھیمی سی آواز آئی: وہ کسی کا لمحہ ہے، اس کو وہیں رہنے دو۔
میں دو قدم اور آگے بڑھا اور مڑ کر دیکھا،
تو وہ اپنے کان کا بندہ نکال کر دریا کنارے گھاس پر پھینک رہی تھی۔
یہ لڑکیاں کتنی عجیب ہوتی ہیں، میں نے سوچا، مشرق ہو یا مغرب، ان کی مٹی ایک سی رہتی ہے۔

محمود فیاضؔ

تھیمز کے کنارے شام

تھیمز کا کنارا تھا
شام اوڑھ کر رِدا بے شمار رنگوں کی
پانیوں میں گُھلتی تھی
شام اور پانی کے ہشت رنگ پلّو کو
میں کھڑا کنارے پہ
خاموشی سے تکتا تھا۔
میرے ہاتھ پہ ابھی
اس کے نرم ہاتھوں کی مانوس تمازت تھی
میری پشت چھلنی تھی
اس کی نم آنکھوں کے پُر تپش سوالوں سے۔
برف سی ہوائیں بھی
بے بسی سے تکتی تھی۔
سوچتا تھامیں یونہی
کیا کنارے دریا کے
مِل کے بھی مِل سکتے ہیں؟
پھر پلٹ کے دیکھا جو
اُس کی نم آنکھوں کو
اک سوال سا یونہی
دل میں جیسے در آیا۔
لڑکیاں کیا مغرب کی
اس طرح بھی ہوتیں ہیں؟
اُن کی بھی نگاہیں کیا
یوں سوال کرتی ہیں؟
کیا بچھڑنے پہ وہ بھی
آنسوؤں سے بھرتی ہیں؟
یوں گھِرا سوالوں میں
جب قدم بڑھایا تو
پاؤں سے کچھ ٹکرایا
میں نے جھک کے دیکھا تو
کان کا وہ بالا تھا۔
میں نے وہ اٹھایا جب
وہ میرے قریب آئی
اور چھین کر وہی بالی
پھر سے اُسی جگہ رکھ دی۔
پھر کہا مجھے اُس نے
یہ بھی ایک لمحہ ہے
پیار کرنے والوں کا۔
چند قدم چلا میں اور
پھر پلٹ کے دیکھا جو
حیرتوں کا دریا تھا
جو مجھے سموتا تھا
تھیمز کے کنارے پر
اک لمحہ محبت کا
اس نے بھی رکھ ڈالا تھا
میں اس ایک لمحے کو
دیکھتا تھا چاہت سے
سوچتا تھا شدّت سے
رَب نے ان کی مٹی کو
اک ہی رنگ میں ڈھالا ہے
رنگ بھی محبت کا۔
لڑکیاں کہیں بھی ہوں
مشرقی یا مغرب کی
لڑکیاں ہی رہتی ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

ثمینہ رشید

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply