اجنبی چہروں کی دھول/ڈاکٹر حفیظ الحسن

ترکی کے شہر استنبول میں جمعے کی نماز کے بعد وہ سلطان احمت مسجد کے مرکزی دروازے سے سیڑھیاں اُترتے باہر نکلا۔ سامنے ٹرام چل رہی تھی۔ یہ ٹرام استبنول کے ایمینونو بِرج سے گزر کر آگے جاتی، ٹرام معمار سِنان یونیورسٹی کے سامنے آرکی۔ وہ نیچے اُترا اور وہاں سے پیدل تکسیم سکوائیر کی طرف چل دیا۔

یہ ایک معمول کا دن تھا۔ اپریل کا مہینہ، باسفورس کے سمندر کی ہوائیں شہر کو لُبھا رہی  تھیں۔ تکسیم سکوئیر سے کچھ فاصلے پر کھلا میدان تھا۔ جہاں طرح طرح کے بک سٹالز لگے تھے۔ آج کتابوں کا میلہ سجا تھا۔ وہ ان سٹالز کے قریب پہنچا۔ زیادہ تر کتب ترکش زبان میں تھیں۔ کچھ ادب کی، کچھ سیاست کی، کچھ سائنس کی، اور  کچھ فلسفے کی۔

چلتے چلتے وہ ایک سٹال پر رّک گیا۔ یہاں کتابوں کے علاوہ تصویریں پڑی تھی۔ پرانی بلیک اینڈ وائٹ تصویریں ہر طرف بکھری ہوئیں ۔ یہ تصویریں اجنبی لوگوں کی تھیں۔ انکی قیمت ایک ترکش لیرا تھی۔ انہیں خریدنے کا مقصد   غالباًً کتاب پڑھنے کے دوران صفحوں میں نشانی کے طور پر رکھنا یا پھر گھر میں کسی فریم میں سجاوٹ کے لیے جوڑنا۔

اُس نے سوچا:

کیا یہ بات عجیب نہیں کہ آپکے گھر میں کسی ایسے شخص کی تصویر ہو جس سے آپ کبھی ملے ہی نہ ہوں۔ جو مکمل طور پر آپکے لیے اجنبی ہو۔ ایسا اجنبی کہ آپ اّسکا نام تک نہ جانتے ہوں۔ آپکو یہ تک معلوم نہ ہو کہ تصویر میں موجود کونسا شخص زندہ ہے، کون مر گیا۔ کس پر زندگی کتنی مہرباں رہی، اور کس کو جینے کی آرزو ہی مار گئی۔

تصویروں میں کئی چہرے تھے، ان چہروں میں کئی رنگ تھے۔ تہہ در تہہ۔ ۔وقت ان چہروں پر ٹھہرا ہوا تھا۔ کہیں کوئی ماں کسی بچے کو سنبھالے کیمرے کے سامنے مسکرا رہی تھی، کہیں کوئی نو بیاہتا جوڑا نئی زندگی کی اّمیدیں اور خوف لیے کیمرے کے بٹن کے کلک ہونے تک چہرے پر ایک مسکراہٹ لیے موجود تھا۔ کہیں کوئی ساحلِ سمندر پر دنیا کے جھمیلوں سے بھاگ کر کچھ لمحے سکون کے جینے آیا تھا – کہیں کوئی فوجی طویل عرصے تک گھر سے دور اپنی ڈیوٹی کر کے بوڑھی ماں کے پاس لوٹ رہا تھا۔ کہیں کوئی دوشیزہ اپنے محبوب کے خیالوں میں کھوئی کیمرے کی ریل میں محفوظ ہو چکی تھی۔ ان میں سے بہت سے لوگ شاید اب مر چکے ہوں۔ جو پیچھے رہ گیا وہ روشنی کے وہ ذرًے تھے جو اُس لمحہ موجود میں اُنکے چہروں سے ٹکرا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کیمرے کی ریل میں محفوظ ہو گئے۔ مگر ان محفوظ لمحوں میں جو تصویروں میں قید تھے، وہ محسوس کر سکتا تھا اُنکی خوشیاں، اُنکے غم، اُنکی اُمیدیں، اُنکے رنگ۔

اُس نے سوچ کے آسمانوں کو چھوتے، غور سے تصاویر کو دیکھا۔ اُسے ان چہروں میں وہ خواب نظر آنے لگے جو اّسکے اردگر پھیلے ہوئے تھے۔ یہ لوگ بھی موجودہ انسانوں کی طرح نارمل ہونگے، انکے بھی اپنے کچھ چواب ہونگے جن کے حصول کے لیے اِنہوں نے عمر بھر کا سفر کاٹا ہو گا۔ کیا انکے خواب پورے ہوئے ہونگے یا یہ انکی حسرت لیے دنیا چھوڑ چکے ہونگے؟ کون جانتا ہو گا؟ اور کیا یہ جاننا ضروری تھا؟ اور کیا یہ مکمل جانا جا سکتا تھا؟ وہ یہ نہیں جانتا تھا۔ اور کیا یہ جاننا اہم تھا؟

نہیں یہ اہم نہیں ہے۔ اُس نے سر جھٹکا۔ جو اہم ہے وہ یہ کہ ان تصویروں میں بسے ان اجنبی لوگوں کے ساتھ اُسکا ایک رشتہ تھا۔ کیونکہ زندگی ان پر بھی گزری ہو گی، انہوں نے بھی کم و بیش وہی زندگی گزاری ہو گی جو آج وہ جی رہا تھا۔ انہوں نے بھی اس سیارے پر وقت کے چند لمحے بتائے ہونگے جو آج وہ ان تصاویر کو دیکھتے ِبتا رہا تھا۔ یہ رشتہ کس قدر بامعنی تھا۔ اُسے لگا کہ ان تصویروں میں وہ چہرے اب اجنبی نہیں، اّسکے اپنے ہیں۔ شناسائی کا سفر مکمل ہو چکا تھا۔ ادراک کی منزل آ چکی تھی۔ چہروں سے اجنبیت کی دھول چھٹ چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ دھول چہروں پر نہیں، میری آنکھوں پر تھی۔ اُسے اچانک سے احساس ہوا۔ یہ خیال آتے ہی اُسکے وجود کی تھکان مِٹ گئی۔ وہ زیرِ لب مسکرایا اور آگے بڑھ گیا۔ ایک لیرا کی خریدی شناسا تصویر اُسکے ہاتھ میں تھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply