بہت ان کے نقشِ قدم یاد آئے(حصّہ اوّل)/علامہ اعجاز فرخ

12/ دسمبر 2022 کو مجھے دہلی جانا تھا۔ صبح دس بجے کی پرواز تھی۔ٹیلیفون پر صبح پانچ بجے کا الارم لگا دیا تھا لیکن رات میں پوری طرح سو نہیں پایا۔ کچھ بے کلی سی تھی۔ جاگا تو محسوس ہوا مجھے سانس لینے میں دِقت محسوس ہو رہی ہے۔ بیٹے کو آواز دی۔ وہ گھبرایا ہوا آیا۔ کچھ ہی دیر میں لگا کہ میں سانس نہیں لے پاؤں گا۔ قریب ہی ایک کلینک لے جایا گیا۔ آکسیجن لگا دی گئی۔ بلڈ پریشر 220/115 تھا۔ مجھے 12 دسمبر کو دہلی میں خطاب کرنا تھا۔ 13 دسمبر 2022ء کو لکھنؤ میں دو تقریریں تھیں۔ ایک محترمہ نزہت حسن کی کتاب ”سبد ِ گل“ کی رسم رونمائی پر اور دوسری میر انیس کے مرثیوں میں گزشتہ لکھنؤ کے تہذیبی عناصر پر۔ سفر منسوخ کر دیا گیا۔ بچے اطراف کھڑے اتھل پتھل ہوتی ہوئی بے ربطِ سانسوں کو دیکھ رہے تھے۔ میں انتشار میں تھا کہ جرس خموش ہو اور منزل پر پہنچ پاؤں۔

آج 13/ جنوری 2023ء ہے۔ ایک مہینے سے زیادہ گزر گیا۔ نہ تار نفس ٹوٹتا ہے، نہ دھڑکنوں کی تیز رفتاری میں فرق آیا۔ سائنس دانوں اور ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ دماغ کے جو خلیے سن و سال کی وجہ سے ماند پڑ جاتے ہیں اور بکھرنے لگتے ہیں۔ وہ انسان کے آخری لمحات سے پہلے پھر نہ صرف یکجا ہونے لگتے ہیں بلکہ جن چہروں کو ماضی کی گرد نے دھندلا دیا تھا وہ بھی تازہ، شگفتہ یادوں میں اُبھر آتے ہیں۔ انسان انہیں دیکھتا ہے، ان سے ہمکلام ہوتا ہے، اس کیفیت کو دنیا نے کئی نام دیئے ہیں۔ احساس کو احساس ہی رہنے دیا جائے۔ اسے نام دینا لطف بیداد میں بال و پر نوچ کر آزاد کرنا ہے۔

آج سانسیں کچھ استوار سی لگیں۔ تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا، بیٹا! مجھے میری میز تک پہنچادو۔ اس کے چہرے پر حیرت تھی۔ سارے بچے مجھے اور میز کو گھیرے ہوئے تھے۔ بہو نے میری پسندیدہ چائے ٹوئیننگ کا کپ رکھ دیا۔ خوشبو مجھے کھینچ رہی تھی۔ میری پوتی نے تین چار سفید بے داغ کاغذ دراز سے نکالے اور میرے شیفرز قلم کے ساتھ میرے سامنے رکھ دیا۔وہ صورت، سراپا، عادات و اطوار میں اپنی دادی پر گئی تھی۔ کہنے لگی”دادا، لکھیے۔ لکھیے۔ دادا! لفظ آپ کے انتظار میں ہیں۔ ہماری ہی طرح اُترے ہوئے چہرے لیے کب سے آپ کو تک رہے ہیں۔ حیران، پریشان، دلگیر، دل گرفتہ، آپ تو کہتے رہے آپ کی اقلیم میں الفاظ کی بستیاں آباد ہیں۔ شام ڈھلے ان کے گھروں میں چولہوں کا دھواں، تنور کے اطراف کے قصے، کہانیاں، بند کواڑوں کے پیچھے کی سرگوشیاں۔ چہرہ چہرہ داستانیں۔ ان کہی کہانیاں، لکھ دو دادا، دو چار صفحے، چند سطریں۔“یہ کہتے کہتے وہ میرے گلے لگ کر رو پڑی۔ روتے روتے سسکیوں میں کہے جا رہی تھی۔ دادا۔ لکھو دادا۔ لکھو۔ میرے ہونٹوں پر آسودہ تبسم کی لکیر سی پھیل گئی۔

کہیں پڑھا تھا، اپنے آخری ایام میں محمود غزنوی سخت علیل تھا۔ اس نے اپنا خزانہ دیکھنے کی خواہش کی۔ ایک بہت بڑے میدان میں خزانہ سجا دیا گیا۔ محمود کو سہارا دے کر لایا گیا تو اس خزانے کو دیکھ کر اس کے آنسو بہہ نکلے۔ آنسو کی اپنی شرح ہے، تبسم کی اپنی معنی آفرینی ۔ ان کا تعلق احساس، وقت، زمان اور گردشِ ایام سے ہے۔

یہ تحریر کسی طے شدہ موضوع پر نہیں ہے۔ میری پوتی کی ایک معصوم محبت اور خواہش کے زیرِ اثر ہے جو قبول خاطر ہوئی تو خیر ورنہ ایک آخری تحریر سہی رہ جائے گی۔ یوں بھی ہم کس ہنر میں یکتا تھے ۔ بس اتنا ہے کہ نیند بہت گہری تھی۔ نیند کہیے کہ اسے گردشِ ایام کے مارے کی تھکن۔ نیند کہیے کہ اسے سانس کے چلنے کی چبھن۔ خواب میں ایسے ہوا تھا محسوس، جیسے ایوانِ تصور کے دریچے پہ کھڑا کوئی دستک سی دیئے جاتا ہے۔ دل نے یہ سوچ کے کروٹ بدلی۔ اجنبی ہوگا صدا دے کے چلا جائے گا۔ پر نہ آواز رُکی اور نہ دستک ہی رکی۔ اور پھر تیز ہوائیں جو چلیں، کھڑکیاں کھل گئیں، جو کھل نہ سکیں، ٹوٹ گئیں، کسی کھڑکی سے چمکتا ہوا جگنو آیا۔ اک کرن چوم رہی تھی میری پیشانی کو۔ ہائے حیرانی ء دل۔ ماضی کی کتاب کا ایک ورق کھل گیا۔

میں 1943ء میں پیدا ہوا۔ اس سال مارچ کے مہینے میں ماہ و سال کی گنتی 80 برس ہو جائے گی۔ ہندوستان طوقِ غلامی میں اسیر تھا۔ میں اسی شہر میں پیدا ہوا۔ یہیں بچپن گزرا۔ جوانی گزری۔ جو آکے نہ جائے وہ پیری دیکھی۔ شب و روز کو بدلتے دیکھا۔ وقت کی کروٹیں دیکھیں۔ محل مسمار ہوئے۔ حویلیاں کھنڈر۔ زمین شاید پہلو بدل رہی تھی۔ لاکھ کے گھر خاک ہوئے۔ شہہ نشیں بوریا نشین ہوئے۔ پھر ایک نئی کروٹ نے اس زمین کو منقلب کر دیا۔ نام اب بھی اس شہر کا وہی ہے۔ حیدرآباد۔ ۔اس شہر کے لوگ سست رفتار ہیں۔ چال ڈھال میں بھی، زندگی میں خوابیدہ خوابیدہ گویا ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے۔ وہی صحبتِ یاراں، وہی شب بیداریاں، امروز سے بے نیاز، فردا سے بے پرواہ۔ قناعت پسند، روکھی سوکھی میں مگن. نہ لب پہ شکوہ نہ حرفِ شکایت۔ کبھی طلب سے عار تھا۔ اپنے رب کے سوا کسی اور کے آگے دست طلب نہ ہوا۔ شرم دامن گیر تھی اس زمانے میں کریم بھی بے طلب نواز دیا کرتا تھا۔ پہلے دامن کو وسیع کرتا پھر دامن بھر دیتا۔ پانے والے بھی ایسے کہ ضرورت بھر رکھا، باقی ضرورت مندوں کو پہنچا دیا اور خوشیاں خرید لیں۔ آج بندگان خدا رب کو چھوڑ بندوں سے طلب گار ہیں۔ در در، گلی گلی، کوچہ کوچہ خوار ہیں۔ کسی شہر میں گھر گھر مٹی کے تیل کے چراغ جلتے ہیں لیکن چہرے روشن تھے۔ روشنی انسانوں کے اندر تھی۔ جہاں ہوتے وہیں سے روشنی بکھیرتے۔ آج شہر چکاچوند ہے، انسان کی ذات میں اندھیرا ہے۔ پہلے چہرے ہوا کرتے تھے بے لوث، بے ریا، معصوم، آج چہروں پر صرف نقاب ہیں۔ نقاب اندر نقاب۔خاندان بھر میں میری خودسری مشہور تھی۔ بچپن میں بھی، لڑکپن میں بھی۔ جوانی ابھی دور تھی۔

گیارہ بارہ برس عمر تھی۔ میں افسانہ، قصہ، کہانی کی زلف کا اسیر ہو گیا۔ اردو شاعری کی خوشبو نے مجھے حصار بند کر لیا۔ تیرھویں سال میں ناول بینی جو میرے گلے کا ہار ہوئی تو میری آنکھوں میں خواب اور رنگ اتر آئے۔ اور یوں اتر آئے کہ ہر طرف رنگ و نور کا سیل رواں تھا۔ جیب و گریباں تک تو شاید بات نہیں پہنچی تھی۔ مگر نہ دامنوں کی خبر تھی نہ آستینوں کی۔

میری ماں بچپن میں مجھ سے کہتی تھی: پڑھو لکھو بنو گے نواب‘۔۔۔کھیلو گے کودو گے تو ہوگے خراب‘۔ میں کھیل کود میں تو نہیں رہا مگر خراب ہو گیا۔ خراب ہونا اور ہے، خراباتی ہونا اور۔ مجھے برباد کرنے میں دو شخصیتوں کا بڑا دخل ہے۔ ایک مشہور ناول نگار ابن سعید جو آج اردو کے مشہور استاد پروفیسر سید مجاور حسین رضوی ہیں۔ ان کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع ہے۔ دوسرے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی۔ ان دونوں کے پاس حسن و عشق کی واردات، اس دل آویز سلیقہ سے ہوتی ہے کہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کب صیاد نے اپنے دامن میں گرفتار کیا۔ اس پر ستم یہ کہ قفس میں اسیربھی نہیں کرتے اور رہائی  کی کوئی  صورت بھی نہیں رہ جاتی۔

یہ 1956ء کا تذکرہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ 1948ء میں حیدرآباد پر تباہی آئی۔ ان کا نقطہ نظر ہے۔حیدرآباد کی بربادی کا آغاز تو 1956ء میں ہوا۔ جب ریاست کو لسانی بنیادوں پر تین علیحدہ ریاستوں میں ضم کر دیا گیا۔ اب حیدرآباد کوئی ریاست نہیں تھی۔ صرف ایک شہر تھا۔ اورنگ زیب نے گولکنڈہ کا خزانہ لوٹا تھا لیکن تہذیب کے دامن پر داغ نہ آیا۔ 1956ء میں صدیوں کی تہذیب، رواداری، وقار، وضع داری، مروت سب کی سرعام توہین جبری ہوئی۔ ملازمین کے تبادلے کر دیئے گئے۔ اس انقلاب نے سکھ چین سب چھین لیا۔ ہمارا پرانا سفال پوش مکان تو کب کا زمین دوز ہو چکا تھا۔ میرے والد کا تبادلہ گنٹور ہو گیا۔ ان کی سرویس بُک کا پتہ نہ تھا۔ تین سال میں یہ گذری کہ زبان فاقوں کے ذائقے سے اور لباس پیوند آشنا ہو گئے۔ میں نے چھوٹے موٹے کام کئے۔ مزدوری بھی کی۔ ہم نے روزانہ دو نوالوں پر دن رات گزار دیئے۔ لیکن میں نے تعلیم نہیں چھوڑی۔ دن میں کتابیں مانگ کر اور رات کو ناول مانگ کر پڑھتا تھا۔ دن میں انگریزی، سائنس، ریاضی، الجبرا، جیومیٹری۔ رات کو واردات حسن و عشق، شاعری، غزل، نظم، ساحر کی پرچھائیاں۔ جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچل۔ چٹائی سوتے میں پیٹھ پر نشان ڈال دیتی تھی۔ لیکن خواب ہزار رنگ دکھاتی تھی۔ میٹرک کامیاب کر کے میں نے پری یونیورسٹی کورس میں داخلہ لیا۔ بہت مشکل اور مشقت سے کالج کی فیس ادا کی۔ 1961 میں اخبار میں ایرفورس کے امتحانات میں کرنول چلا گیا۔ دو دن چنے پھانکے۔ تیسرے دن پھانکنے کو خاک رہ گئی تھی۔ مگر پروانہ تقرری کے ساتھ ریلوے کا پاس اور 120 روپیہ سفر خرچ مل گیا۔ گھر واپس آیا تو دیکھا بھوک میرے گھر سے فرار ہو رہی تھی۔ اور خواب میرے گلے میں بانہیں ڈالے مجھے چوم رہے تھے۔ ان ہی خوابوں کے ہجوم میں ایک خواب اکیلا کھڑا تھا۔ جھکی جھکی سی پلکیں۔ آنکھوں کے کنارے شبنمی سے  لب خاموش جیسے کچھ کہنا چاہتے ہوں مگر چپ ہو گئے ہوں۔ میرے اندر جیسے کسی سسکی نے کہا۔ ”اپنا خیال رکھنا 1962 میں میری ٹریننگ مکمل ہو گئی۔ چین نے ہندوستان پر حملہ کر دیا تھا۔ پنڈت نہرو کا نعرہ ”ہندی چینی بھائی بھائی“ بے اثر ثابت ہوا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ ہندوستان کی آزادی کو صرف 15 سال گزرے تھے۔ فوج جدید ہتھیاروں سے لیس نہیں ہوئی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستانی معیشت کو اس قابل نہیں چھوڑا تھا۔ کشمیر مسئلہ نے فوج کو مغربی سرحدوں پر مصروف کر رکھا تھا سو آج 75 سال بعد بھی یہ مسئلہ لاینحل ہے۔ ویسے چین کی فوج بھی ہندوستانی فوج سے برتر نہیں تھی۔ لیکن ان کی عددی طاقت زیادہ تھی۔ ہندوستان کے لیے یہ جنگ سبق آموز رہی۔ 1965 تک ہندوستانی فوج نے نامساعد حالات سے نمٹنے کے لیے خود کو نہ صرف تیار کر لیا تھا بلکہ اس کی عددی طاقت اور اسلحہ میں بھی تیزی سے تبدیلی آ چکی تھی۔ سرحدیں چوکس اور محفوظ ہو گئی تھیں۔ اس زمانے میں کسی عام آدمی کا پنڈت نہرو سے ملنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ صبح 7 بجے پنڈت نہرو کے کھلے لان پر عوام جمع ہو جاتے۔ پنڈت جی اپنی گھوڑا سواری اور جانوروں سے ہو کر صبح 7 بجے برآمد ہو جاتے اور ہر شخص بلا روک ٹوک ان سے مل سکتا، اپنی ضرورت بیان کر سکتا۔ وہ درخواستیں وصول کرتے، ساتھ ہی ساتھ اپنے سکریٹری کو ہدایات بھی دیتے جاتے۔ اردو بولتے تھے لیکن اسے اردو کہنے سے گریز کر کے اسے ہندوستانی کہتے تھے۔

پٹھان کوٹ آخری ریلوے اسٹیشن تھا۔ دراصل یہ دریائے توی کے کنارے ایک ٹرانزٹ فوجی کیمپ تھا۔ لیہہ، لداخ، سری نگر، اودھم پور، ہر سرحد پر آنے جانے والے فوجی یہاں عارضی قیام کرتے۔ پھر اپنی اپنی منزل کے لیے روانہ ہو جاتے۔ ایئر فورس اسٹیشن بالکل نیا قائم ہوا تھا۔ میری پوسٹنگ پٹھان کوٹ ہو گئی۔ زمین کے فراخ سینے پر طویل رَن وے، ایک طرف فوجیوں کو منتقل کرنے والا اور سامان سربراہ کرنے والا، دیوہیکل ہوائی بیڑہ، دوسری طرف فائٹر جیٹ اسکواڈرن، ہر وقت ہر لمحہ چوبند۔ زندگی میں بڑی حرارت تھی۔ ماحول کی، اٹھتی ہوئی جوانی کی، امنگوں کی، مہم جوئی کی۔ برف پوش موسم کی سردی بدن کی حرارت سے دو بدو، دو چار لیکن بدن اپنے آپ میں لاوا سمیٹے، سمندروں کی اچھال سینے میں دبائے ہوئے، یوں موسم سے ٹکراتا کہ موسم کا غرور پاش پاش کر چھوڑتا۔ اب اسّی سال کا ہو چلا ہوں۔ انتقام مزاج برف مجھے کمزور و ناتواں جان کر اب بھی ٹکراتی ہے لیکن اپنی بے بسی پر بسورکر صرف میرے بالوں سے الجھ کر رہ جاتی ہے۔

ٹریننگ کے عرصے میں کچھ عجیب یوں ہو گیا کہ شعر و ادب سے میری دلچسپی اور بڑھ گئی۔ کچھ تو آزادی میسر تھی، کچھ عمر کا تقاضابھی تھا۔ وہ دور صرف خط و کتابت کا دور تھا۔ قلمی دوستوں کے باقاعدہ کلب تھے۔ ادیبوں اور شعراء کی تخلیقات کے ساتھ ان کے نام اور پتے بھی شائع ہوتے تھے۔ میں ان شعراء اور ادیبوں کو خطوط لکھا کرتا تھا۔ ایئر فورس مونوگرام کے ساتھ ہلکا نیلا لیٹر پیڈ، ہمرنگ لفافہ، شستہ تحریر، مستزاد یہ کہ فنکار کی تعریف، جواب کے سارے سامان فراہم تھے۔ فنکار اور خاص طور پر قلمکار کو صحیح تعریف مل جائے یہی اس کے فن کی قیمت ہوتی ہے۔ فکر تونسوی، رام لعل، فرقت کاکوروی ، علی باقر،رضا جبار،شفیقہ فرحت، گلشن نندہ، دت بھارتی، جگن ناتھ آزاد، ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، مجروح سلطان پوری، فراق گورکھپوری، آغا حیدر حسن، ان کے خطوط مجھے ملتے تو ویرانہ بھی گلشن گلشن دکھائی دیتا۔ عجیب ہو گئی تھی روشِ زندگی۔ پیشہ کچھ اور، ذوق کچھ اور۔ ایک طرف جنگ کی ہولناکیاں، دوسری طرف پھر چھڑی رات بات پھولوں کی۔ گل و آہن کی باہم چھیڑ چھاڑ ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔

1964میں اپنی سالانہ چھٹی پر گھر آیا۔ گھر میں پچھلی رونق لوٹ آئی تھی۔ میرے فوجی رسوخ کی وجہ سے والد کا تبادلہ بھی حیدرآباد ہو گیا تھا۔ اگر کچھ نہیں بدلا تھا تو وہ حیدرآباد تھا۔ وہی البیلی شام، مست خرام، وہی فرصت کے شب و روز، صحبت یاراں، شب بیداریاں۔ فکر امروز و فردا سے بے پرواہی۔کوچہ یا رکی باتیں، دم ِ دیدار کے قصے۔ چھٹی کیا تھی، بس بادِ صبا چھیڑ گئی۔ دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز۔ پھر ترا وقت ِ سفر یاد آیا۔

ٹرین ناگپور پہنچی۔ شفیقہ فرحت کو تار دے دیا تھا۔ میں دروازے پر کھڑا ہو گیا تھا کہ وہ مجھے دیکھ سکیں۔ ایک قلی سر پر سامان اٹھائے میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔ پوچھا: ”سر! یہ ملٹری کا فرسٹ کلاس ہے ناں؟“۔ میں نے کہا”ہاں“۔
اس کے پیچھے تین افراد تھے۔ ایک خاتون، ایک لڑکی اور ایک لڑکا۔ لڑکی پر نظر پڑی تو مبہوت سا دیکھتا رہا۔ لگا جیسے پلیٹ فارم پر سونے چاندی کی خیرات بٹ رہی ہو۔ ایسے لگتا تھا کہ اس کے وجود سے روشنی سی پھوٹی پڑ رہی ہے ۔آفتاب کی ہلکی سنہری کرنیں اس سے چھن کر بکھر رہی ہیں، یا چاند کی روشنی اس کا ہالہ کئے ہوئے ہے۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ میں نے قلی کو راستہ دے دیا۔ قلی نے کوچ میں سامان رکھ کر کہا۔
”لو بی بی جی! سامان دیکھ لو۔ ایک نمبر پر سر جی ہیں۔ یہ دو، تین اور چار آپ کی برتھ ہیں۔“

ریل کے مسافر ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہوئے اپنے سفر کو دلچسپ بنا لیتے ہیں۔ لڑکی میرے روبرو کھڑکی کے پاس بیٹھ کر آئن ریانڈ کی کتاب دی اٹلس شرگڈ پڑھ رہی تھی۔ جدھر سے ریل گزر رہی تھی وہاں سنترے کے باغات تھے۔ ہوا سنتروں کی خوشبو سے  مہک رہی تھی۔ میں خاموشی سے اسے کتاب پڑھتے دیکھنے میں محو تھا۔ دراصل میری محویت اس کتاب میں تھی جو خود کتاب پڑھ رہی تھی۔ خاتون کی آواز سے میں چونک پڑا۔
”آپ کہاں جا رہے ہیں بیٹا!۔“
میں نے کہا”گاڑی تو دہلی جا رہی ہے۔ مگر میں اس کے آگے پٹھان کوٹ جا رہا ہوں۔“
”لہجے سے تو پنجابی نہیں لگتے۔ شاید کسی کام سے جا رہے ہو۔“
میں نے کہا ”جی ہاں۔ ایئر فورس میں ہوں۔ چھٹی سے واپس جا رہا ہوں۔“
”چلو ہماری تمہاری منزل ایک ہے۔ ان کے پاپا گیریسن انجینئر ہیں۔ جانتے ہوگے انہیں۔“
میں نے کہا”خوب اچھی طرح۔ ٹاور کے پیچھے ہی ان کا مکان ہے۔ اکثر میس میں ملاقات ہو جاتی ہے۔“
دروازے پر دستک ہوئی۔ بیرے نے کہا”سر! لنچ تیار ہے۔ آپ حکم دیں تو یہیں سرویس دے دوں۔ یا آپ ریستوراں میں ملاحظہ فرمائیں گے۔“
”ریستوران ہی میں کھا لوں گا۔ میری میز محفوظ کر دینا۔“
میرے کانوں میں چاندی کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ ”ممی! میں بھی ریستوران ہی میں کھا لوں گی۔ وہاں بڑے بڑے شیشوں کے پار دوڑتے ہوئے پیڑوں کا منظر بہت دلکش ہوتا ہے۔“ بیرا جو حکم کہتا ہوا لوٹ گیا۔
خاتون نے کہا”اور یہ بڑے بڑے توشہ دان جو اٹھا لائی ہو، ان کا کیا ہوگا۔“
”ممی! رات کو سب مل کر کھالیں گے۔ صبح تو دلی میں اترنا ہے۔“

میں اٹھا تو وہ بھی چل پڑی۔ میرے آگے چل رہی تھی۔ رفتار کا خم اور بانکپن دیکھ کر میرے دل نے بے ساختہ کہا۔”قلوپطرہ“۔ پھر خود ہی تردید کی کہ تشبیہ نامکمل ہے۔ اس نے ایک ادائے ناز سے بے اختیار مڑ کر دیکھا۔ لبوں پر خفیف کا تبسم تھا جیسے کلی کم کم کھلا چاہتی ہو۔ بے ساختہ دل نے کہا ”مونالیزا” پھر خود ہی تردید کی، تشبیہ پھیکی ہے۔ اس ادائے ناز پر خیال آیا کہ حسن جب محوِ خرام ہو تو اپنا خرامِ ناز خود دیکھا چاہے ہےاور یہ بھی دیکھا چاہے ہے کہ کوئی اسے دیکھتا بھی ہو۔ کسی کی آنکھوں میں اشتیاق دید نہ ہو تو جلوہ حسن کیا اور جلوہ گاہ ناز کیسی۔ میز کے قریب پہنچ کر قیامت تھم گئی۔ نشستوں پر دونوں ایک دوسرے کے روبرو تھے۔ میں چپ تھا۔ حسن مکمل روبرو ہو تو مقابل کو چپ لگ جاتی ہے۔ بیرے نے دونوں کو ایک نظر دیکھا پھر قدرے خم ہو کر مینو اس کے آگے رکھ دیا۔

کہا”فش کٹلٹ اس ریستوران کی خصوصی ڈش ہے۔ سوپ کے ساتھ سائڈ ڈش پیش کروں یا مادام جو پسند فرمائیں۔“ بیرا تجربہ کار تھا۔ شاید جانتا تھا کہ حکم کس کا چلتا ہے۔
اس نے کہا ”ٹھیک ہے۔ لیکن مین ڈش ویجٹیرین ہی ہو، اس کے بعد گرم کافی۔“ کھانا لذیذ بھی تھا گرم بھی۔ ہم آہستہ آہستہ کھا رہے تھے۔ شاید یہ خواہش تھی کہ دوپہر شام کے گلے لگنے تک وقت یوں ہی تھما رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کافی ختم ہو چکی تو بیرے نے بل کا فولڈر میرے سامنے رکھ دیا۔ اس یادگار لنچ کے لیے میں نے فراخ دلی سے ٹپ کے ساتھ نوٹ فولڈر میں رکھ دیئے تو اس نے سلام کر کے اٹھاتے ہوئے کہا”آپ دونوں ہمیشہ خوش رہیں۔ خدا جوڑی سلامت رکھے۔“ وہ جھینپ گئی۔ میں مسکرا اٹھا۔ واپس ہوتے ہوئے پر وقار قدموں سے میں آگے آگے تھا وہ میرے پیچھے پیچھے تھی۔ خوشبو اور گیت، گیت اور خوشبو ایک دوسرے سےلپٹ رہے تھے۔
پٹھان کوٹ تک سفر بڑی تیزی سے طے ہو گیا۔ گیریسن انجینئر انہیں لینے آیا تھا۔ میرا تعارف ہوا تو بڑے تپاک سے ملا۔
کہا: ”گھر آ جایا کرو۔ گھر کی یاد نہیں ستائے گی۔“
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply