نور تب پانچویں میں پڑھتی تھی ۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ۔سکول سے واپس آکر، کھانا کھاکر اور دوپہر میں کچھ دیر آرام کرکے ۔گھر کے پاس مدرسہ میں پارہ پڑھنےجاتی ۔مدرسے کے باہر برف کے گولے،آلو چنے،← مزید پڑھیے
ہاں چھیاسی مرتبہ آیا ہے ، صدقے اور خیراتوں کی بابت ذکر ، لیکن کون ان سب آیتوں کو یاد رکھتا ہے جہاں میں؟ میں نے پوچھا تھا مبارک ماہ ہے ر مضان کا ، تم جانتے ہو شہر کے← مزید پڑھیے
سچ تو یہ تھا کہ ایک کہانی کی تخلیق کیلئے میں اپنے بھیجے کا تیل نکالنے میں کسی کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر کھوپے چڑھائے چوبی ہل کے ساتھ جُتی دن رات چکر پر چکر کاٹے چلی جا← مزید پڑھیے
شہر کے باہر ایک شاہراہ پر واقع بوسیدہ عمارت کے تیسرے فلور پر ایک چھوٹا سا کمرہ ، جس کا ایک واحد دروازہ باہر لاؤنج میں کھلتا تھا۔ کمرے میں دروازے کے بالکل سامنے والی دیوار پر ایک کھڑکی تھی← مزید پڑھیے
جو نور مقدم تھی ،وہ اب بےنور اور غیر مقدم ہو چکی ہائے اک اور زندگی یہاں ہے سے تھی میں مدغم ہو چکی اک اور وحشی مرد نے یہاں خون کی ہولی کھیلی ہے ملت کی اک اور بیٹی← مزید پڑھیے
دل و جگر میں پُر افشاں جو ایک موجہ ء خوں ہے ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے ستیہ پال آنند حضور، اس شعر کی تصویر یہ بنتی ہے ذہنوں میں کہ متموج ہے اک← مزید پڑھیے
Nobel laureate John Glasworthy`s SALTA PRO NOBIS written in 1923 during the interwar period is that much related to the recent Afghan conflict and its effects on society. ”مشری مورہ! وہ بہت غمگین ہے۔ اپنے ہاتھوں کے کاسہ میں منہ← مزید پڑھیے
اب بھی جب میں بھا گتا ہوں دور خود سے، اپنے ماضی سے تو لگتا ہے کہ جیسے ساتھ میرے چل رہے ہوں چرچراتے، بوڑھے تا نگوں میں جُتے مردود گھوڑے سست، مریل چال سے چلتے ہوئے مدقوق رکشے پھٹپھٹاتے،← مزید پڑھیے
اصل چار سو میٹر کی دوڑ دو سو میٹر کے بعد شروع ہوتی ہے، بل کھاتے ٹریک پراب طاقت لگائی جاتی ہے، اِدھر آخری دو سو میٹر آئے اور رفتار کی تیزی نظر آنے لگ جاتی ہے، مگر یہ خیال← مزید پڑھیے
وقت رُکا تھا، تھما ہوا، شاید ہوا چل رہی تھی یا شاید رُکی تھی، شاید دھوپ تھی یا شاید بادل سورج کے سامنے تھا، اُسے کچھ علم نہ تھا۔ اُس کے ماتھے پر پسینہ تھا، دونوں بھوؤں کو تر کرتا۔← مزید پڑھیے
تیری رفتار ِ قلم ، جُنبش ِ بالِ جبریل ترا انداز ِ سخن شانہ ء زلف ِ ابہاؐم مقطع فخریہ یا شعر فقط اپنے لیے؟ جس سے ہو اپنی ، (فقط اپنی ) بڑائی مقصود خود ہی ہو اعلی تریں،← مزید پڑھیے
جھیل ہے پانی ہے پتے تیرتے ہیں عکس مٹ مَیلے ہیں پتوں کے کہ جو پانی میں جھُک کر اپنے چہرے دیکھتے ہیں دور مشر ق میں شفق پھولی ہوئی ہے اور اس کا جھلملاتا عکس مَٹ مَیلا نہیں ہے۔← مزید پڑھیے
مکان کی بوسیدگی کی گواہی اسکی رنگ و روغن سے عاری دیواریں ہی نہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار فرش بھی دے رہا تھا۔مزید برآں دیواروں کی دراڑیں یہاں موجود زندگی کے چہرے کی جھریاں نظر آتی تھیں۔مکان میں بے سروسامانی← مزید پڑھیے
آنند نے جب سچ اور جھوٹ کے بارے میں ان سے پوچھا، تو بولے تتھا گت سچ کی تختی پیشانی پر لٹکا کر تم کیا کر لو گے؟ جھوٹ کا تیر چلانے والے دور سے سچ کی تختی کو پہچان← مزید پڑھیے
سورج جب چمکنے لگتا ہے تو بڑی روشنی ہوتی ہے۔ دن چڑھ آتا ہے ، دھوپ پھیلتی ہے ، حدت ہوتی ہے، تپش ہوتی ہے، لیکن یہ پھیلی ہوئی گرمی جلاتی نہیں آگ نہیں لگاتی ۔ اور جب یہ روشنی← مزید پڑھیے
ایک مکالماتی نظم، جو قاری اساس تنقید کی تھیوری کو بآسانی سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ : (یہ نظم پہلے انگریزی میں تحریر کی گئی) قاری (1) مصنف ہی اگر مر کھپ چکا ہوپانچ صدیاں پیشتر تو *← مزید پڑھیے
(اپنی ایک ہندی نظم کا سیدھا اور سادہ اردو روپ) آٹھ سالہ طفل مجھ کو دم بخود سا دیکھتا ہے ’’واقعی؟ سچ مُچ ؟‘‘ وہ مجھ سے پوچھتا ہے ’’واقعی جب بھی کبھی تم طیش میں آتے ہو تو صبر← مزید پڑھیے
“تم دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہو ” اُس نے میری بات سنی , تھوڑا شرمائی, پھر گویا ہوئی۔۔ واقعی, سچ کہتے ہو ؟ میں نے کبھی غور نہیں کیا ہے “۔ “تمھارے میاں نے بھی تمھیں نہیں بتایا← مزید پڑھیے
میں چاہتا ہوں کہ ایک دن اپنےننھے بیٹے کے ننھے سائز کے بُوٹ پہنوں اور اس کی آنکھوں سے خود کو دیکھوں طوالتِ قد میں کتنا اونچا دکھائی دیتا ہوں؟ اس کا احساس اس کو اچھا ہے یا برا ہے؟← مزید پڑھیے
امید و ناامیدی کے بیچ کا وقت ایسا ہوتا ہے جسے گندھی ہوئی کچی مٹی چاک پر ،جسے نہیں معلوم وہ کل کو چاک پر چڑھ کر کیا روپ دھارے گی۔ ایسے لمحات جب خمیر لگ چکنے کے بعد دودھ← مزید پڑھیے