سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم(قسط1)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سچ تو یہ تھا کہ ایک کہانی کی تخلیق کیلئے میں اپنے بھیجے کا تیل نکالنے میں کسی کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر کھوپے چڑھائے چوبی ہل کے ساتھ جُتی دن رات چکر پر چکر کاٹے چلی جا رہی تھی۔
بات تواتنی سی تھی کہ سفرِروس کے دوران رُوس کی صحافتی زندگی کے ایک بے باک پر مقتول کردار نے مجھے جپھّی ڈال لی تھی۔ یوں تو وہ ایک لفظ بھی نہیں بولی تھی پر پتہ نہیں کیوں اُس کا متین سا،سچائی کی لو سے دمکتا چہرہ میری آنکھوں میں رچ گیا۔دل میں بس گیا۔میرے سنگ سنگ رہنے لگا۔ایک دن میں نے اپنے آپ سے کہاتھا۔
”بھئی اب اُردو پڑھنے والوں سے اُس کا ملانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔“
پھر کہانی بُنی جانے لگی۔
جب میں نے اُسکے بالوں کو سنوار کر اُن میں پھول چٹریاں سجالیں۔سک مسّی لالی سے ہونٹوں، سُرمے کاجل سے آنکھوں،ماتمی پوشاک اورحُزن و یاس میں ڈوبے گیتوں سے اُسے رخصت کربیٹھی تو احساس ہوا کہ اب کیا کروں؟
اُچھل پیڑے یوں بھی ٹکنے نہیں دیتے۔ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں بھاگی پھروں۔خجل ہوتی رہوں۔

اب خود سے پوچھتی ہوں۔کہاں چلنا ہے؟ کہیں بھی سوائے ٹامیوں اور سامیوں کے دیس کے۔باقی سب جگہیں قبول ہیں۔پر مصیبت ساتھی کی۔ہمیشہ ساتھ چلنے والی نے مہم جوئی دکھا دی تھی۔نازُک سی نئی نویلی گاڑی کا دیو جیسے ٹرک سے پیچا لڑا دیا۔اُس نے وہ پٹخنیاں دیں کہ یقیناً چھٹی کا دودھ یاد آگیا ہوگا۔وہیں اُسے یہ بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ بچی کیسے؟ کسی بڑی نیکی نے جیسے دروازہ کھٹ سے کھول کر اُسے فٹ پاتھ پر لُڑھکا دیا۔

دھان پان سی مہر النساء کو گاڑی کے سُرمہ بننے کے ملال کے ساتھ ساتھ خود پر اوپر والے کی نظر عنایت کا بھی پورا احساس تھا۔شکر گزاری کے سجدوں کی مدت کم از کم سال بھر تو ٹھہری۔
”بھئی سر نہیں اٹھانا مجھے تو۔ “
اب ایسے میں مَیں کیا کرتی؟ایک دن شیریں مسعود کا ایس ایم ایس پر ایران جانے کا پیغام ملا۔
”ایران“میں نے پکوڑا سی ناک سکیڑی اورلمبی سانس بھری۔
“ہائے کہیں عراق چلی جاؤں نا۔ایک کہانی جنگ کے زمانے سے بلا رہی ہے جائے بغیر اُسے پیرہن کیسے پہناؤں؟یوں بھی میرے خوابوں کے بغداد کا ظالموں نے حشر کردیا ہے دیکھنا چاہتی ہوں۔

یونہی کہیں بچوں کے سامنے ذکر کر بیٹھی۔انہوں نے تو وہ لتّے لئے کہ بولتی کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔بڑے والے نے ماں کی ایسی بے سُری خواہشوں کا ذکر بہن سے کر دیا۔اُس نے پل نہیں لگایا بڑی ہیجلی بو بو نے فون کھڑ کا  دیا۔
”بس بس باز رہیں ایسی مہم جوئیوں سے۔ہماری تو جان آپ میں ہی پھنسی رہے گی۔“
تپ چڑھی۔
”لو اِن کی محتاج ہوں نا میں۔ میرے نان نفقے کا بوجھ اُٹھاتے ہیں نا یہ۔رُعب تو دیکھو۔ساری زندگی ان کے پیچھے گال دی ابھی بھی رجّے نہیں۔پر چھوٹے والے نے تو حد ہی کر دی۔اُس کی تو منطق ہی عجیب تھی۔
”جیسی ٹٹ پنجھی(شکستہ،غریب سی) خود ہیں ویسے ہی مُلکوں میں جاتی ہیں۔کبھی سری لنکا جا وڑیں گی، کبھی رنگون۔ارے ا مریکہ انگلینڈ جاتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کیا؟چلو کِسی یار دوست کے سامنے بندہ ڈینگ ہی مار لیتا ہے۔ بے نیازی اور خاندانی رجّے پجّے ہونے کا تاثردیتاہے۔
”یار امّاں تو آجکل ذرا امریکہ گئی ہوئی ہیں۔واپسی پر انہیں انگلینڈ بھی رُکنا ہے۔بہت مِس کر رہا ہوں۔“
بھانڈوں اور مراثیوں سے اندازمیں بات کرتے کرتے اِک ذرا وہ رُکا اور پھر بولا۔
”چلو امریکہ انگلینڈ سے الرجک ہیں تو آسٹریلیا چلی جائیں۔عائشہ باجی نے ہزار بار کہا ہے۔شو بازی کیلئے وہ بھی کچھ اتنا بُرا نہیں۔“

وہ اگر چھوٹا سا ہوتا تو میں نے کھینچ کر جُوتا اُس کے جباڑے پر مارنا تھاجیسے میں اُس کے بچپن میں اکثر مارا کرتی تھی۔مگر ا سوقت وہ پانچ فٹ دس انچ کا لوہاری دروازے کے ماجھے ساجھے جیسے تن و توش رکھنے والوں جیسا بنا ہوا تھا۔
میں نے”حرام زادہ“ منہ بھر کر کہا تھا۔
ایسا کرنے اور کہنے میں اُس کی فضولیات پر میرے غصے اور کھولاؤ دونوں کی یقیناً تسکین تھی۔
”میں تو وہ کروں گی جو میرا من چاہے گا۔“
اِن ہی بھُول بھلّیوں میں کچھ یاد آیا تھا جو ذہن سے اوجھل ہوا پڑا تھا۔

مصر پر ایک کتاب لکھی تھی۔”مصر میرا خواب”۔کتاب لکھ کر اُس کی رونمائی کروانا بھی اب بیٹی کو بیاہنے کی طرح ایک مجبوری بن گئی ہے۔سوچا کہ بھئی مصر پر لکھاہے تو مصر والوں کو بھی خبر کرو۔یہ کیا کہ سوتے ہوئے بچے کا منہ چوُم رہی ہوں، نہ ماں کو خبر نہ پیو کو پتہ۔تھوڑی سی ہلِ جُل کرو۔

سفیر صاحب کو لاہور بُلانے نے کا سدّابھیجا۔جواب آیا۔بڑے مشکور ہیں ہم کہ آپ نے ہمارے دیس پر لکھا۔اب حق تو ہمارا بنتا ہے۔ پچاس لوگوں کی بارات لے کر جولائی کے پہلے ہفتے ہمارے گھر اسلام آباد تشریف لے آئیں۔اب اس البیلی داستان کی روئیداد کی تفصیل کا کیا ذکر کہ من آنم و من دانم۔بہر حال سفارت خانے کی اِس نوازش کابہت شکریہ کہ بہتیری عزت دے ڈالی جسکا ہمیں گمان تک نہ تھا۔

یہیں سفارت خانے میں تقریب کے اختتام پر ایک اُونچے لمبے نوجوان نے اپنا تعارف ابوشینب الہیثم سفیر فلسطین کی حیثیت سے کرواتے ہوئے کہا۔
”ہمارے ملک فلسطین پر لکھیے۔“
”لو میاں۔ہمارے تو نتھنے پُھولے۔جی باغ باغ ہوا۔سالوں پُرانی خواہش کی تکمیل کے آثار نمودار ہوئے۔
فلسطین پر بھلا کِس کافر کا جی لکھنے کو نہ چاہے گا اور فلسطین کی سرزمین پر اُترنے کی تمنا کون نہ کرے گا؟
پر ایک مصیبت تھی۔میں اس وقت سفرنامہ رُوس کے کھلارے میں تن من سمیت ڈوبی پڑی تھی۔ایسا بڑا میدان کہ جس نے میرے کَس بل نکال دئیے تھے۔
درمیان میں یہ ایک ا ور نازک، گہرا اور گھمبیر سا پنگا۔

گھر آ کر سوچا کہ پہلے ایک سے تو نپٹوں۔کہیں دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا والی بات ہو جائے۔دو کشتیوں کا سواربالعموم غڑاپ سے پانیوں میں لڑھک جا تا ہے۔بچتا بچاتا کہیں نہیں سیدھا ڈوبتا ہے۔کوئی بخت ور اور قسمت والا ہو تو دوسری بات۔
اور میں جتنی بخت ور اور قسمت کی دھنی ہوں۔ بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔

پروجیکٹ سے فراغت ملی تو فون کھڑکایا۔ کہ حضور والا بندی فلسطین جانے کی آرزو مند ہے۔ ہز ایکسیلنسی کے ہاں پھُوں پھاں والی کوئی بات نہ تھی۔جواب میں بچوں والی تہذیب و شائستگی نمایاں تھی۔پاسپورٹ،درخواست فوری بھیجنے کو کہا گیا۔چلو بھیج کر انتظار میں بیٹھ گئی۔
شوق و اضطراب بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔رابطہ کیا۔لہجے کی بیتابی و شتابی پر صبر اور حوصلے کی تلقین کی گئی۔ کارگزاری کی رپورٹ بلاشبہ بڑی مسرور کن تھی۔ اس بے چاری نمانی سی عورت کا ذکر صدر فلسطین جناب محمود عباس سے ہوا تھا۔انہوں نے کہا۔اھلاََ و سہلاََ، جم جم آئیں سو بسم اللہ، سر متھے سر آنکھوں پر۔ پاکستان اور پاکستانی ہمیں بہت پیارے۔وہاں کی وزارت اطلاعات کی چیف سیکریٹری بھی ہماری آمد کی تہہ دل سے منتظر اور اسرائیل خانہ خراب کے ہاں بھی تذکرہ ہو گیا تھا۔

ہمیشہ کہیں بھی گئے رُلنے والی بات ہی ہوتی تھی، کوئی تھوکتا بھی نہیں تھا۔اب جو کچھ وی آئی پی بننے کے آثار نمودار ہونے شروع ہوئے تو ایڑی ہی زمین پر نہ لگتی تھی۔فلسطین کیلئے پروین عاطف کی جان بھی لبوں پر تھی۔تھوڑی سی شاکی بھی تھیں کہ سب کچھ اکیلے اکیلے ہی۔ پر ابھی تو میں خود بھی بیچ میں لٹکتی مٹکتی پھر رہی تھی تو کسی اور کیلئے کیا فرمائش ڈالتی؟

یہ جاڑوں کے دن تھے۔گلابی گلابی جاڑوں والے نہیں بلکہ دُھندوں، کہروں اور ہڈیوں کے اندر گودا تک جام کرنے والے دن۔ جب وہ میری خلیری بہن ڈاکٹر رضیہ حمید امریکہ سے ٹپکی۔1971 کے  اوائل میں کیمسٹری میں پی۔ایچ -ڈی کے لئے وظیفہ پر امریکہ جانے والی ایسی وہاں گئی کہ واپسی کا تو راستہ ہی بُھول گئی۔وہیں اپنے پاکستانی کلاس فیلو سے شادی اور دو بچے پیدا کر کے اُسی معاشرے میں گُھل مل کر ہمارے لیے بس ایک داستان کی صورت میں یاد رہ گئی تھی۔
کہیں بیس سال بعد جوگی والا پھیرا ڈالاتوآدھی زندگی امریکہ جیسے مُلک میں گالنے والی کو دیکھ کر دانتوں تلے اُنگلی داب لی۔کمبخت نری سا دھو،مہنت،بے چین و مضطرب،غریبوں اور ماڑے موٹے انسانوں کے لئے کُچھ کرنے کی خواہشمند۔

پھر سُننے میں آیا۔اُس نے نوکری پر لات مار دی۔امریکہ کیPeace core میں شامل ہو کر دُنیا کے دُور اُفتادہ ملکوں میں تعلیم دینے کے مشن پر روانہ ہوگئی۔ کبھی لاطینی امریکہ اور کبھی افریقہ کے پس ماندہ ملکوں میں اُس کی سرگرمیوں کے بارے پتہ چلتا۔بیچ میں اکثر پاکستان کا چکر بھی لگ جاتا۔ساتھ میں اُس کے اپنے جیسے کچھ اور ماہی منڈے ٹائپ عورتیں اور مرد بھی ہوتے۔

اکتوبر2005کے زلزلے میں آزاد کشمیر کے علاقوں میں جا بیٹھی۔اُن دنوں میں بھی اُس کے ساتھ مظفر آباد کی دُور افتادہ اور دشوار گزار وادیوں میں گئی۔
جب وہ گھانا، موزمبیق، تنزانیہ اور ممباسا کے قصّے سناتی تو میرے سینے پر رشک و حسد کے سانپوں کی یلغار ہو ہو جاتی۔جی چاہتا ابھی اور اِسی وقت اٹھوں کھڑاویں نہیں جوگرز پہنوں۔جوگیا کُرتا نہیں،پینٹ کُرتا تن پر ڈالوں۔ٹین کا نہیں، چمڑے کا چھو ٹا سا بیگ ہاتھ میں لوں اور “ربّامیں شوقن تیرا جگ ویکھن دی” الاپتی انجانے دیسوں کی طرف نکل جاؤں۔ پر کہاں؟

تنزانیہ کیلئے ٹرائیاں ماریں۔پر وہ تو کہیں ڈو دوما Dodoma میں بیٹھی تھی۔افریقی سارے زمانے کے ہڈ حرام اور سُستی کی پنڈیں۔دوبار وہ میرے ویزے کیلئے دارلسلام بھی آئی۔پر ایک کے بعد ایک ایسی ایسی پخیں فون پر سُنیں کہ میں نے کڑھ کر اُسے کوسا۔
”ارے ایک تہائی جنم تو میرا اُس کا ایک چھت تلے اکٹھا گزرا۔ہوشیاری چالاکی تو اُس کمبخت کے پاس نہیں پھٹکی۔نہ بل نہ پھیر۔مقدر کی بخت ور تھی۔ علم نصیب میں لکھا تھا۔ پڑھ گئی اور امریکہ پہنچ گئی۔چالیس سال سے وہاں ہے۔کچھ کرنے جوگی ہوتی تو آدھا محنت کش ٹبر امریکن شہری اور کروڑ پتی تو ضرور ہوتا۔
”بیٹھ آرام سے۔تیرے نصیب میں یہ دیس دیس گھومنا نہیں لکھا۔“

جاڑوں کے یخ بستہ دنوں میں وہ پاکستان آئی۔اُس نے مجھے بتایا کہ اس بار اس کے پروگرام میں تین ماہ کیلئے اسرائیل و فلسطین کا قیام بھی ہے۔
میں چلاّئی۔
”ارے وہاں تو میں بھی جا رہی ہوں۔مجھے اپنے ساتھ ہی نتّھی کر لو نا۔“
دو دنوں بعد میں نے اُسے گاڑی میں بٹھایا اور اسلام آباد کے سیکٹر10 میں ابوالہیثم کے سفارت خانے پر ہلّہ بول دیا۔
میرے اضطراب،میری بے چینیوں، میرے اُچک کر جہاز میں بیٹھنے کے بے تابانہ و بے پایاں اظہارپر نوجوان سفارت کارکا اندازبڑا مدبّرانہ سا تھا۔
کاجو کی پلیٹ بذات خود وہ میرے سامنے کرتے ہوئے بولا۔
”یہ لیجیے۔“
چاکلیٹ ہاتھوں میں زبردستی تھمائی اور مُصر ہوا اِسے کھائیے۔
میں نے ممتا کی ساری محبت لہجے میں گھولتے ہوئے کہا تھا۔
”الہیثم مجھے پہنچاؤ وہاں۔“
”سمجھنے کی کوشش کریں۔“اُس نے میرے جوش و جذبے پر سرد پانی انڈیلا۔”یہ امریکی شہری ہیں۔اسرائیل انہیں روک نہیں سکتا۔آپ کا تو پاسپورٹ اعلان کرتا ہے کہ اسرائیل جائے ممنوعہ ہے۔“
ٹھنڈی ٹھار ہو گئی تھی۔
”کوشش ہو رہی ہے۔گھبرائیے نہیں۔“

ایک دن جب میں جنگ اخبار کی ریفرنس لائبریری میں بیٹھی “سری لنکا ” کی فائل دیکھ رہی تھی۔ماحول کی خاموشی اور سناٹے کو فلسطینی سفارت خانے سے آنے والی آواز نے توڑا۔ابو شینب بول رہے تھے۔
”اسرائیل نے آپکو اوکے کر دیا ہے۔پر ساتھ ہی چند شرائط بھی عائد کر دی ہیں۔سُن لیجیے۔“

میں دھڑکتے دل کے ساتھ سُنتی تھی۔کڑی شرائط میں سب سے اہم فلسطین کے مسئلے پر نہ لکھنے کا وعدہ تھا۔یروشلم میں داخلے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔چند اور بھی ایسی ہی بے تکی باتیں تھیں۔فون بند ہوگیا تھا۔اب خود سے پوچھنا ضروری تھا تو میں نے وہاں کرنے کیا جانا ہے اگر لکھنا نہیں۔ پھر چند لمحوں کی چُپ کے بعد میرا اندر جیسے پھڑک اٹھا تھا۔
”ہے نا لعنتی یہ اسرائیل بھی۔“

اب یہ بھی کہیں ممکن تھا کہ فلسطین پر جس انداز سے بھی لکھا جائے اسرائیل کا ذکر نہ آئے۔اس کے وجود کا کینسر اور اُس کے بغیر ہی۔یعنی افسانہ آئیں بائیں شائیں سے بھرجائے اور اصل قصے سے رہ جائے یا شاعر کے خوبصورت لفظوں میں کہ وہ بات جس کا سارے فسانے میں ذکر نہ تھاوالی بات ہو۔

گھر واپس آکر میں نے خود پر لعن طعن اور پھٹکار کا پٹارہ کھولا جس میں اس سے پہلے بھی بیسوؤں بار میں اُسے غوطے دیتی رہی ہوں۔

عمان میں اپنے قیام کے دوران جب ہوٹل والوں نے اسرائیل کے لئے چند گھنٹوں کا ٹرانزٹ ویزا دینے کا پوچھا تو مجھے ڈر کیوں لگااور فیس کا سُن کر مجھے دندل سی کیوں پڑی؟کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وقت اور چانس آپ پر خوش قسمتی کا دروازہ کھول دے۔اورتُف ہے کہ کھیسے میں پیسے ہوتے سوتے بھی آپ یہ دروازہ بند کرلیں۔کوئی چارپانچ سال بعد مصر اپنی سیر کے دوران صحرائے سینا(Sinai)کے ریگ زاروں سے گزرتے ہوئے خلیج عقوبہ (Gulf of Aqaba)کے ساحلی شہر ایلات اور اسرائیلی شہر رفہ(Rafah)سے ظالم اسرائیل کو شروع ہوتے دیکھنا بڑا تلخ تجربہ تھا۔یہ سرحدی علاقہ افقی صورت میں چلتا چلتا بحیرہ روم کے مشرقی ساحلوں پر واقع غزہ سے جاملتا ہے جو ایک چھوٹی سی مستطیل پٹی ہے۔جہاں وہ بدقسمت اور مظلوم قوم جس کا نام فلسطینی ہے محصور ہوئی پڑی ہے۔مصر کے ساتھ جڑے اس چھوٹے سے حصے میں جیالوں نے سرنگیں بنا ڈالی ہیں۔ایک ظالم اسرائیل،دوسری ظالم مصری فوجی حکومتیں جو غزہ کے مجاہدوں اور مصر کے اخوان المسلمین سے خائف۔اوپر سے دلیر اور جیالے فلسطینی مجاہدجنہوں نے سو جتنوں اور حربوں سے یہ غیرقانونی راستے بار بار تباہ کیے جانے کے باوجود پھر بنانے ہیں۔اِن سے گزرنا ہے۔چھاپے پڑنے پر پکڑے بھی جانا ہے۔سزائیں بھی کاٹنی ہیں اور باز پھر بھی نہیں آنا۔

میں نے بھی جی جان سے اُس سرنگ کے راستے فلسطین جانے کا سوچا۔خرچہ کچھ زیادہ نہ تھا۔لالچی طبعیت نے اب ساری توانائی اس میں جھونک کر اس مقصد کو حاصل کرنے کی اپنی سی کوشش کرنی چاہی۔گویہ آدم خور شیر کے کچھار میں سر دینے والی بات تھی۔پر اس وقت خواہش کے منہ زور اور تندو تیز ریلے کے سامنے بڑی مجبوری محسوس کررہی تھی۔
پربُرا ہوا یا اچھا۔میری ساتھی نے ایڑھی نہ لگنے دی۔زمانے بھر کی ڈرپوک اور دبّو سی۔

اُسے کون سی کتاب لکھنی تھی جو وہ اس جھمیلے میں پڑتی۔یوں بھی چسکے مارے میرے ساتھ آگئی تھی۔میرا کیا تھا؟کھا کھٹ بیٹھی تھی۔نانی دادی جو بالعموم کاٹھ کباڑکا سامان بن کر کھڈے لائن لگی ہوتی ہے۔اندر بھی ہوجاتی تو خیر صلّا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply