ڈس کوالیفائیڈ ٹیم(1)۔۔عاطف ملک

وقت رُکا تھا، تھما ہوا، شاید ہوا چل رہی تھی یا شاید رُکی تھی، شاید دھوپ تھی یا شاید بادل سورج کے سامنے تھا، اُسے کچھ علم نہ تھا۔ اُس کے ماتھے پر پسینہ تھا، دونوں بھوؤں کو تر کرتا۔ اُس کا حلق خشک تھا، ابھی کچھ منٹ قبل ہی تو اُس نے پانی سے لب تر کیے تھے، یہ خیال کرتے کہ پانی زیادہ نہ پیے۔ یہ پانی پیاس بجھانے کے لیے نہ تھا، اُس لمحے پیاس بجھ بھی نہ سکتی تھی۔ اُس کے پیٹ میں درد تھا، دور سے کہیں اٹھتا، ہلکا مگرتمام پیٹ میں پھیلتا، مسلسل اپنا احساس دلاتا۔ یہ ہمیشہ ہوتا تھا، ایک اضطراب، اُسے علم تھا کہ اِس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔

آس پاس شور تھا۔۔شور ۔ قریب و دور کے درمیان شور، بہت سے لڑکے اونچی اونچی آوازوں میں نعرے لگا رہے تھے، کچھ اس سے مخاطب تھے، اُس کا نام لے رہے تھے۔ مگر اُسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ معلق تھا، زمیں اور آسماں کے درمیاں کہیں معلق۔ کانوں میں شور، کچھ بے معنی اور کچھ معنی رکھتا، اور آنکھیں مرکوز تھیں، سامنے، عین سامنے۔

وہ جھکا تھا، زمین پر، ساکت، زمین سے پیوست ایک مجسمہ، دایاں گھٹنا  زمین پرٹکا ہوا اور دائیں پیر کا پنجہ زمیں کو سختی سے نوکدارجوتوں، سپائیکس میں پیچھے کو دھکیلتا۔ اُس کے جوتے کا تلوہ زمیں سے عمودی تھا، اپنی شکل دکھاتا۔ بایاں پیر دائیں گھٹنےسے تھوڑا آگے زمین پر پورا رکھا ہوا، نوکدار جوتا مکمل نشاں چھوڑتا زمیں سے جڑا، پورے تعلق کے ساتھ جڑا تھا، اور اس بائیں پیر کے اردگرد دونوں ہاتھ انگلیوں کی پوروں سے زمیں کو دھکیلتے ہوئے جسم کا وزن اٹھائے تھے۔ وقت تھما سا تھا، اور وہ اس لمحے میں جی رہا تھا۔ اس وقت آواز گونجی، ریڈی، ایک ہاتھ بلند ہوا، یہ دوڑ شروع ہونے کے اعلان کے فائر کا لمحہ تھا۔

یہ تبدیلی کا لمحہ تھا، نامحسوس انداز میں تناسخ، ایک نئی تشکیل، ایک نیا وجود، ایک نیا قالب ابھر رہا تھا۔ دایاں گھٹنا زمیں سے الگ ہو کر معمولی اونچا ہوگیا، بائیں پیرکی ایڑی  اٹھ گئی اور وزن پنجے پرچلا گیا۔ جسم کا وزن دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر تھا۔ دونوں پیروں کے پنجے اورانگلیاں زمیں میں پیوست تھیں، تمام جسم کا وزن اٹھائے، کسی زمیں کو تیارکرتے کاشتکار کے ہل کی مانند زمین میں گڑی تھیں۔ سر اُٹھا ہوا، اپنے عمومی مقام سے اُٹھا ہوا، ایک نیا وجود سامنے تھا۔ اٹھے سر پرآنکھیں سامنے مرکوز تھیں، نگاہیں سامنےدو سفید لائنوں میں بتائی گئی راہ کے درمیان میں جمی ہوئیں، سامنے عین سامنے، منہ کھلا ہوا، سانس گہرے، آس پاس مچے شو ر سے کہیں الگ سانس کی آواز، بالکل علیحدہ، سانس کی آواز تھی کہ پھیلتی جاتی تھی، گراونڈ سے نکل کرعالم پر چھاتی ہوئی۔ یہ ایک جست بھرنے کو تیار جسم تھا، کڑی کمان سے نکلنے کو تیار تیر۔ اور اُس کی نظر کن انکھیوں سے مقابلے کے دوسرے دوڑنے والوں پر بھی تھی۔

اُس کے پیٹ میں درد تھا، اُس کے ماتھے پر پسینہ تھا، اس کا حلق خشک تھا، اس کا منہ کھلا تھا، اس کی سانس گہری تھی۔ اسکی آنکھیں سامنے مرکوز تھیں، سامنے عین سامنے۔ وقت رکا تھا، تھما ہوا، ہوا شاید چل رہی تھی یا شاید رکی تھی، شاید دھوپ تھی یا شاید بادل سورج کے سامنے تھا، اُسے کچھ علم نہ تھا۔

یہ لمحہ الگ لمحہ تھا ، کسی ٹوٹتے جسم نشئی کا آخر کار حاصل کردہ بھرے سگریٹ کا کش لگانے سے قبل کا لمحہ، وصل سے قبل اضطراب کا بےچین لمحہ، روح کا جسم کی قید سے آزاد ہونے کا لمحہ— وہ لمحہ آزادی کے لمحے کا انتظار کرتا تھا، فائر کا انتظار کرتا لمحہ۔

سپیکر پر مختلف مقابلوں کے بارے میں تسلسل سے اعلانات ہورہے تھے۔ چار سو میٹر فائنل دوڑ کے لیے پہلی کال، کچھ وقفے کے بعد دوسری کال اور آخر میں تیسری اور فائنل کال کا اعلان ہوا تھا۔ دوڑ کے لیے شریک اتھلیٹس میدان میں اترچکے تھے۔ چار سو میٹر کی دوڑ شروع ہونے والی تھی، یہ اتھلیٹ وہ تھے جنہوں نے پچھلے دن اپنی اپنی متعلقہ دوڑیں جیتی تھیں۔ چار سو میٹر کی ایک دوڑ میں زیادہ سے زیادہ آٹھ اتھلیٹ شریک ہو سکتے ہیں کہ میدان میں آٹھ ٹریک سفید چونے کی لائینوں سے بنے تھے جن پر ان اتھلیٹس کو اپنے اپنے مقررہ راستوں پر بھاگنا تھا۔ ان راہوں کا تعین دوڑ سے قبل ایک قرعہ اندازی سے ہوتا۔ چار سو میٹر پورے گراونڈ کا ایک مکمل چکر ہے۔ پہلے سو میٹرمیں ٹریک مڑرہا ہوتا ہے، اگلے سو میٹر سیدھا، اگلا سو میٹردوبارہ خم دار اور آخری سو میٹر پھرسیدھا ہوتا ہے۔ اس بنا پر وہ اتھلیٹ جسے سب سے باہر کا ٹریک ملتا، اسے زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا جبکہ سب سے اندرونی ٹریک والے کو سب سے کم فاصلہ طے کرنا ہوتا۔ اسی وجہ سے اتھلیٹس کو چار سو میٹر کی دوڑ میں برابر نہیں کھڑا کیا جاتا۔ سب سے باہر کے ٹریک میں دوڑتا اتھلیٹ سب سے آگے، اس کے ساتھ والے ٹریک والا اُس سے پیچھے اور اسی طرح باقیوں کی دوڑ کا نقطہِ آغاز اپنے اپنے ٹریک میں بتدریج پیچھے ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس دوڑ کے آغاز میں دوڑنے والوں کو اگر آپ ایک طرف سے دیکھیں تو وہ ترچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ سب سے باہر کے دائرے میں کھڑا ہونے والا اتھلیٹ سب سے آگے ہوتا، جبکہ سب سے اندر والا سب سے پیچھے دوڑ شروع کرتا ہے۔ سب سے اندر والے کو فائدہ ہوتا کیونکہ وہ مقابلے کے تمام بھاگنے والوں پر شروع سے ہی نظر رکھ پاتا ہے۔ پیچھے ہونے کی وجہ سے وہ قدرتی طور پر مقابلے میں زور بھی زیادہ لگاتا ہے۔ اس کے علاوہ جونہی وہ چکرکا موڑگھومتا  ہے تو دائرہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے یک دم آگے آجاتا ، سو اس بنا پر اندرکی لائنوں میں بھاگنا فائدہ مند جانا جاتا ہے۔

جب اتھلیٹیس زیادہ ہوں تو فائنل مقابلے سے پہلے چناؤ  کی دوڑیں ہوتی ہیں جنہیں ہیٹس کہا جاتا ہے۔ ان دوڑوں میں جیتنے والوں کا چنا ؤ اگلی دوڑ کے لیے ہوجاتا ہے، سو اس بنا پر فائنل دوڑ میں دوڑنے والے بہتر ہوتے ہیں۔ اتھلیٹ گراونڈ میں وارم اپ کر رہے تھے، ہلکی رفتار میں ایک جانب سے دوسری طرف بھاگتے، اپنی کمر پر دونوں بازو جمائے ایک طرف سے دوسری طرف موڑتے، کھڑے ہوکر اپنے گھٹنوں کو باری باری دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سینے کی طرف دباتے، زور ڈالتے۔ اُن میں سے کچھ کسی اور مقابلے میں حصہ لیکر آئے تھے جیسے لانگ جمپ، ہائی جمپ وغیرہ اور اگلے مقابلے کے انتظارمیں تھے ۔ وہ سفید نیکر اور رنگ برنگی بغیربازوں کی بنیانیں پہنے تھے۔ بنیا نوں کا رنگ ان کی ٹیم کا بتاتا تھا، سبز قائد ہاوس، سرخ اقبال ہاوس، نیلا لیاقت ہاوس اور زرد جوہرہاوس کا رنگ تھا۔

وہ جوان لڑکے تھے، عموماً پتلے دبلے، پھرتیلے، مضبوط ٹانگوں والے لڑکے۔ اُنکے جسم پسینے سے چمک رہے تھے، چہرے جسمانی مشقت سے سرخ تھے، اور جذبہ ان کے جوڑ جوڑ سے ٹپک رہا تھا۔ مقابلے کا جوش اُنکے چہروں سے ظاہر تھا، شدت جو سورج کی شعاعوں کی طرح تماشائیوں میں بھی حرارت بھررہی تھی۔ نتیجے سے قطعِ نظر زندگی ایک مقابلہ ہی ہے۔ منزل بے معنی ہے، پھیکی اور بے رنگ ہے اگر سفر نہ ہو۔ سفرہی سب کچھ ہے، دھول اڑاتا، بے یقینی کے ہمراہ، مضمحل کرتا، تھکاتا، قربانی مانگتا، اپنی تکمیل کے لیے جذبہ مانگتا۔ منزل تو سفر کی بخشیش ہے، دان، خیرات۔ منزل سفر تک ہی معنی رکھتی ہے، پہنچ جائیں تو بے وقعت ہو جاتی ہے۔ وہ کھلونا جسے چند دن کھیل کر بچہ اپنے بسترکے نیچے پھینک دیتا ہے اور اگلےکھلونے کی خواہش دل میں بسا لیتا ہے۔

وہ اس دوڑ میں بہت جذبات سے شریک تھا؛ جذبہ، غصہ، غم سب ملے ہوئے تھے۔ یہ مقابلہ اُس کے لیے عام مقابلوں سے کہیں بڑھ کر تھا۔ دوڑ شروع ہونے سے قبل وہ ایک اور اتھلیٹ سے ملا جو کہ اس کے ساتھ اس فائنل دوڑ کے مقابلے میں شریک تھا۔ غیر محسوس طریقے سے دونوں نے ہاتھ ملایا، تماشائیوں کی نظروں کے سامنے، روزمرہ کا ایک مصافحہ، مگر جب وہ واپس مڑا تھا تواُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ایک معنی خیز مسکراہٹ۔ یہ دوڑوں کے مقابلے سیدھے نہیں ہوتے، اس میں بہت چیزیں ہوتی ہیں، یہ سائنس اور آرٹ دونوں کا امتزاج ہے، یہ زور اور دماغ کا ساتھ ہے۔ اتھلیٹ فنکار بھی ہوتے ہیں، اپنے سانس، اپنے زور سے شاہکار بناتے۔

اس مقابلے کا تعلق ایک کل پیش آئے واقعہ سے تھا بلکہ اس کا تعلق اس سے پیچھے کے مقابلوں سے بھی تھا۔ جوانی ویسے ہی واقعات چاہتی ہے، کوئی ہلچل، کوئی زور آزمائی، کوئی چپقلش، کوئی قصہ، بے بنیاد، کسی وجہ کے بغیر قصہ جو زندگی میں ایک سنسنی لے آئے۔ سالانہ اتھلیٹیکس کے مقابلے اُن کے لیے بہت اہم تھے۔ اس میں سب کچھ تھا، جذبہ، مقابلہ، زورآزمائی، چپقلش، پسینہ، تھکن، ہارنے والے کا مذاق، جیتنے والے کا فخر، گلے میں لٹکتے میڈل اور سر سے اوپربلند کیا فتح کا کپ۔ ایسا ہیجان اور کس جگہ پراکٹھا ہوتا ہے؟

یہ ایک بورڈنگ کالج تھا۔ ملک کی مختلف جگہوں سے آئے لڑکے یہاں دن رات اکٹھے گذارتے تھے۔ اُن کا ساتھ طویل تھا، کالج کی مسجد میں دن بھر کی نمازیں، میس میں ناشتے اور دوسرے کھانوں پر، کلاسوں میں، شام کو مشترکہ پی ٹی سے لیکرمختلف کھیل کے میدانوں میں، امتحانوں کی اکٹھی تیاری میں، اُن کا ساتھ اکٹھا رہتا تھا۔ وہ ایک خاندان تھا، ایک پھیلا ہوا خاندان، مختلف رنگتوں، مختلف زبانوں، مختلف سوچوں، مختلف معاشرتی سطحوں اور پس منظروں پر پھیلا رنگا رنگ خاندان تھا، اورسالانہ اتھلیٹیکس کے مقابلے اس خاندان کا میلہ تھا۔ وہ قائد ہاؤ س کی اتھلیٹیکس ٹیم کا سب سے تجربہ کار ممبر تھا، یہ اُس کا کالج میں آخری سال تھا اور یہ اس کے آخری مقابلے بھی تھے۔

آج سے چار سال قبل جب وہ اپنے قصبے سے بورڈنگ سکول آیا تھا تو اُسے ٹریک اور فیلڈ مقابلوں کا کچھ علم نہ تھا، بس اُسے یہ علم تھا کہ اماں نے اُسے کبھی چائے نہ دی تھی بلکہ ہمیشہ خالص دودھ دیتے کہا تھا، “بیٹا ، دودھ پیا کر، تیرا جسم مضبوط ہو”۔ وہ ہنستا تھا، دودھ ویسے بھی اُسے پسند تھا، اوراسکی ٹانگیں مضبوط تھیں۔ کالج میں پہلے سال کے مقابلوں میں جب وہ دوڑا تھا تو اس نے اتنی جان لگا دی تھی کہ دوڑ کے ختم ہونے کے بعد زمین پر بیٹھا تھا تو دونوں ٹانگیں بے اختیار کانپ رہی تھیں، اوراُس وقت گرمی کے باوجود کسی نےاُسکے جسم پر کمبل ڈالا اور پھر دو لڑکے اُس کو دبا رہے تھے۔ یہ ایک خاندان تھا، قائد ہاوس کی اتھلیٹیکس ٹیم کا خاندان، اور اب اسے اگلی دوڑ دوڑنی تھی، اپنے اس خاندان کے لیے یہ دوڑ جیتنی تھی۔

یہ مقابلے بڑا زور لیتے تھے؛ خوراک، تیاری، پلاننگ اورمقابلوں کی سمجھ بوجھ سب مل کر جتاتے تھے۔ پچھلے ایک ماہ سے اتھلیٹیکس ٹیم خصوصی خوراک پر تھی۔ رات سونے سے قبل ٹیم میس میں اکٹھی ہوتی۔ خصوصی خوراک؛ دودھ، گرم انڈے، اولٹین، جوس سب کھایا پیا جاتا تھا کہ مقابلے طاقت مانگتے تھے۔ ویٹرچاچے اکرم نے اس بورڈنگ کالج میں پچھلے کئی سالوں میں ایک کے بعد ایک ایسے لڑکوں کی تیاری دیکھی تھی، مقابلے کی تیاری، زندگی کا دائرہ ان لڑکوں کے لیے سمٹ کر اس اتھلییٹکس کے نقطے پر آجاتا تھا۔ پڑھائی، امتحانات، ملکی حالات، سینے میں کہیں دور سراٹھاتی محبتیں سب اپنا مقام اِن دنوں کھو دیتیں۔ چاچا اکرم خود بھی ایک دانشور تھا، کھانے کی میزوں پر ڈشیں لگاتا دانشور، کبڈی کے کھلاڑی سے دانشوری تک کا سفراس نے زندگی کی حقیقتیں جان کرکیا تھا۔ اکرم سالہا سال سے میس میں ویٹر تھا اور اپنی نوکری کے پہلے سال سے اسکی کوشش ہوتی کہ جب یہ مقابلوں کا موقع آئے تو وہ ان اتھلیٹس کے قریب ہو، کبھی روٹی رکھتے، کبھی پانی رکھتے، بہانے سے اُن کے قریب کھڑے ہو کرانکی باتیں سنے۔ انکی باتیں، انکی پلاننگ سب اسے خوشی دیتی تھیں۔ وہ ان لڑکوں کو دیکھتا تو اُسے اپنے گاوں کے کبڈی کے مقابلے یاد آجاتے۔ بجتا ڈھول، دیوانہ وار بجتا اوراس پر ناچتے، دیوانہ وار ناچتے اُس کے دوست، وہ ان لڑکوں کے حال سے اپنا ماضی کشید کرتا تھا۔

اُس اتھلیٹ کو پچھلے سالوں کی دوڑوں کے مقابلوں کے تمام کھلاڑیوں کا علم تھا۔ ہرایک کی رفتار، پوزیشن وہ سب جانتا تھا۔ اِس سال کا مقابلہ سخت تھا۔ کئی ہفتوں سے ٹیم صبح صبح کالج جانے سے قبل اٹھ کر گراونڈ میں ورزش کرتی، دوڑ لگاتی۔ ٹیم پیچھے ہوتی وہ آگے انکی ورزش کرواتا۔ آگے کو دوڑتے، پھر دوڑتے دوڑتے دونوں ہاتھوں سے باری باری زمین کو چھوتے، یک دم رک کرسمت تبدیل کیے بغیر پیچھے کوالٹا دوڑتے، رکتے اور پھر مڑے بغیر دائیں طرف کو قدموں پر اچھلتے چلے جاتے، سائیڈ پر کبھی دائیں، کبھی بائیں اچھلتے چلے جاتے، جسم گرم ہوجاتا، چہرے پسینہ پسینہ ہو جاتے۔ اس کے بعد ہر لڑکا اپنے اپنے ایونٹ کی تیاری میں لگ جاتا۔ یہ محنت کئی ہفتوں سے جاری تھی۔ شام کو زیادہ زور مقابلے کی تیاری کا ہوتا۔ لمبی دوڑوں والےاتھلیٹس گراونڈ کے ارگرد کئی چکر لگارہے ہوتے، تیز دوڑوں والے گراونڈ کے ایک جانب سٹارٹ کی پریکٹیس سے لیکر پوری دوڑ مکمل کررہے ہوتے۔ ٹائمنگ نوٹ کی جاتیں، آپس میں گفتگو ہوتی۔ مخالف اتھلیٹوں کے ٹائمنگ بھی نوٹ کر لیے جاتے۔ اپنی قابلیت اور کمزوریوں کی بات ہوتی، حریف کی استعداد کو ناپا جاتا، منصوبے بنتے۔ غرض زندگی کا دائرہ ان دںوں سمٹ کر صرف ان اتھلییٹکس کے مقابلوں کے اردگرد تھا۔

اُس کا ایونٹ چار سو میٹر کی دوڑ تھی۔ چار سو میٹر کی دوڑ تمام دوڑوں کی ملکہ ہے، کوئین آف دی ریسیز کہلاتی ہے۔ اِس میں دوڑنے کی سکت یعنی سٹیمنا اور رفتار دونوں چاہیئے ہوتی ہیں۔ سو میٹر کی دوڑ میں رفتار بنیادی چیز ہے، اِدھر دوڑ شروع ہوئی اُدھر ختم بھی ہوگئی۔ چار سو میٹر کی اپنی تکنیک ہے۔ دوڑ کے آغاز میں ایک مناسب رفتار رکھیں، سو میٹر تک آرام سے بھاگیں۔ اگر کوئی مقابلے کا شریک بگٹٹ بھاگ رہا ہے تو پریشان نہ ہوں، آخرمیں اسکی ہوا نکل جائے گی اور ٹانگیں جواب دے جائیں گی۔ ایک تجربہ کار اتھلیٹ کو اپنے مدمقابل کا اندازہ ہوتا ہے، سو پہلے سو میٹر آرام سے بھاگیں مگر اپنے بہترین مدِ مقابل کو نظر میں رکھیں کہ وہ اتنا فاصلہ نہ بڑھا جائے کہ آخرمیں پکڑا نہ جاسکے۔ پہلے سو میٹر کے بعد اگلے سو میٹر میں رفتار مقابلتاً زیادہ ہونی چاہیئے مگر ابھی بھی پوری جان نہیں لگانی چاہیئے۔ یہ دوڑ کا خوبصورت ترین منظرہوتا ہے، دلکش، نظروں کو لبھاتا، لمبے قدم، ایک تسلسل میں بھاگتے ہوئے، ایک عجب ردھم، نہ اندھادھند تیزی نہ کاہلی، یوں جیسے قدرت کے کسی بے آواز ساز کی لے پر بےاختیار ناچتے دوڑتے قدم ہوں، سر کندھوں پر ہلکا سا جھکا ہوا کہ ٹریک پر نظر، کمرسیدھی، جسم کا وزن پاوں کے پنجوں پر، سپائیکس کی نوکیں مٹی کواکھیڑتی پیچھے کو پھینکتی اور لمبے قدم، ایک ردھم میں، بھاگتے قدم تسلسل میں آتے۔ کیا کسی درویش کا رقص ہوگا، یہ صحرا میں بے پروا آہو کا خرام ہے۔ خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، اور اس وقت رب اتھلیٹیکس فیلڈ میں نظر آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply