دادا جی کا پوتے کے نام خط…عالم بالا سے

وعلیکم سلام پتر!
میں ٹهیک ٹهاک ہوں۔ تم واقعی مجهے کم کم جانتے ہو مگر میں اپنے خون سے بہت اچهی طرح واقف ہوں۔ تم واقعی مجهے نہیں دیکه پائے مگر میں تمہاری ساری حرکتیں دیکه رہا ہوں.. اوئے کهوتے۔۔۔ بهلا یہ کیا بات ہوئی۔ تونے ہمارے پرسنل خط کو لیک کرکے ہزاروں کو رلا دیا۔ تیرا باپ سچ ہی کہتا ہے کہ زمانہ بڑا تیز ہو گیا ہے۔ تم بهی بڑے کہانی کار ہو گئے ہو… خیر سمجهتا ہوں۔ شاید تو بهی مجبور ہے۔ اپنا دکهڑا کسے سنائے…
پتر میں اور تیرا باپ ادهر جنت میں ایک ساتھ ہی رہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہاں کارنر والا پلاٹ ملا ہے۔ ساتھ ہی سے دوزخ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔ یار وہاں سے بہت بهیڑی ہواڑ آتی ہے۔ ہر وقت چیخ و پکار کا عالم رہتا ہے۔ تیرا باپ بهی عجیب ہے ۔۔۔ اسے کئی بار کہا ہے کہ گهر بدلنے کی درخواست جمع کروا دے یا کم ازکم یہ سائیڈ والی کهڑکی ہی بند کروا دے مگر یہ مانتا ہی نہیں۔ کہتا ہے کہ میں نے ان مولوی ملوٹوں کو سڑتے دیکهنا ہے جنہوں نے اپنی ہوس کی خاطر انسانوں کے لیے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔

یار تو ایک خط اپنے اس غصیلے باپ کے نام بهی لکھ اور اسے سمجها کہ دکھ تو سب کا سانجها ہوتا ہے۔ مجھ سے ان کی چیخ و پکار نہیں سنی جاتی۔ اکثر تو میں خود کئی کئی گهنٹے روتا رہتا ہوں۔ یہ بهی جذباتی ہو جاتا ہے اور مجهے زمین پر ان کے ڈهائے ظلموں کی داستان سنانے لگتا ہے۔ یار انعام میں تو لرز جاتا ہوں جب یہ بتاتا ہے کہ اللہ رسولﷺ کے نام پر ان لوگوں نے کیسا اودهم مچا رکها ہے۔

ہاں پتر! یہ سچ ہے کہ مجهے گهوڑوں سے واقعی عشق تها۔ میرے مقابلے کے گهوڑے واقعی پورے ہوشیار پور میں کسی کے پاس نہ تهے۔ یہ بهی سچ ہے کہ انگریز کمشنر مجھ سے گهوڑے لے گیا تها اور مجهے بہتیرا دکھ ہوا تها۔ لیکن پتر یاد رکهنا، یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ جیسا اس نے بویا، ویسا کاٹ لیا، یہ سب مجھ پر یہاں آکر عیاں ہوا ہے۔

پتر! میری خواہش تهی کہ تم پڑهو، بڑے آدمی بنو۔ مجهے خوشی ہے کہ تم پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن گئے ہو۔ تم نے اپنی فرم بهی بنا لی ہے اور کمشنر کے پوتے کو ملازم بهی رکھ لیا ہے، لیکن پتر یہ سب نظر کا دهوکہ ہے، جهوٹی انا کی تسکین کا ذریعہ ہے۔ میری خواہش تهی کہ تم پڑهو اور بڑے آدمی بنو۔ تم واقعی بڑے آدمی بن گئے ہو لیکن پتر تمہیں صرف گوروں کو ہی ملازم نہیں رکهنا بلکہ تمہیں اپنی قوم کو بهی پڑهانا ہے۔ تمہیں سب کو بڑا آدمی بنانا ہے۔ ارے یار مانتا ہوں کہ تم کوشش کر رہے ہو مگر میرے یار روٹهی تقدیر کو منانے کے لیے اس سے ہزار گنا زیادہ جتن کرنا پڑتے ہیں۔

پتر اپنی قوم کو بتاو کہ ڈکٹیٹروں ظالموں پہ فخر کرنا چهوڑ دے۔ انگریزوں کو کوسنے کی بجائے اپنے آپ کو کوسے… انگریزوں نے تو بس ہماری غفلت کا فائدہ اٹهایا ہے۔ بالکل ایسے جیسے ہم اٹهاتے رہے ہیں۔ حساب برابر۔

پتر! غلامی کے داغ ایسے نہیں اترتے۔ غلامی کے داغ تب اتریں گے، جب تم دنیا میں ان کے برابر کهڑے ہوگے۔ جب دنیا تم دونوں کو ایک نظر سے دیکهے گی۔ ایسا تب ہوگا جب تیرا ہر بهائی تیری طرح پڑھ لکھ جائے گا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ کب میرا لخت جگر اس غلامی کے داغ کو اتارے گا۔ مجهے دوسرا خط تب لکهنا جب اس غلامی کے داغ کو اتارنے کا سامان کرچکو۔ مجهے تمہارے خط کا بےچینی سے انتظار رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

عالم بالا سے
تمہارا دادا

Facebook Comments

رانا تنویر عالمگیر
سوال ہونا چاہیے.... تب تک، جب تک لوگ خود کو سوال سے بالاتر سمجهنا نہیں چهوڑ دیتے....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply