• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اگر اب بھی نہ جاگے ۔پیگاسس جاسوسی اسکینڈل(1)۔۔افتخار گیلانی

اگر اب بھی نہ جاگے ۔پیگاسس جاسوسی اسکینڈل(1)۔۔افتخار گیلانی

چند ماہ قبل فرانسیسی میڈیا تنظیم فوربڈن ا سٹوریز کے ایک عہدیدار کی ای میل موصول ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ اسرائیلی کمپنی این ایس او کے سافٹ وئیر پیگاسس سے متعلق ایک سال سے جاری ان کی تحقیق کے مطابق میرا فون بھی نگرانی کی لسٹ میں ہے۔ میں نے اس کو سنجیدگی کے ساتھ نہ لیکر جواب لکھا کہ ’’ کوئی اتنی اہم شخصیت نہیں ہوں، جس کیلئے بھارتی یا اسرائیلی خفیہ اداروں کی نیندیں حرام ہوں اور وہ اس قدر وسائل اور وقت میرے فون کی نگرانی کرنے کیلئے صرف کردیں۔بطور صحافی ہمارا کام جلد یا بدیرپبلک ڈومین میں آہی جاتا ہے ۔‘‘ مگر جب اس کے بعد دہلی میں موجود مقتدر صحافیوں، بشمول انٹرنیٹ اخبار دی وائیر کے ایڈیٹر سدھارتھ ورداراجن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل میں کام کرنے والے ایک دوست نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ دوران تفتیش دنیا بھر میں جو 180صحافی پیگاسس کی لسٹ میں پائے گئے ہیں، ان میں میرا نام بھی شامل ہے، تو کسی حد تک یقین کرنا پڑا۔ بعد میں تصدیق کیلئے فوربڈن اسٹوریز اور ایمنسٹی کی تکنیکی ٹیم نے جب میرے فون کی فورنزک جانچ کی تو معلوم ہواکہ 2017سے ہی اسکو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور 2019تک خاصے مستعدانہ طریقے سے اس میں سے وقتاً فوقتاً فون کالز کے ساتھ ساتھ ڈیٹا بھی حاصل کیا گیا ہے۔ یہ وہی مدت تھی جس کے دوران کشمیر پر دوبئی کی ٹریک ٹو کانفرنس کا تنازعہ کھڑا ہوا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی اور دھمکیوں کے ایک سلسلہ کے بعد 2018میں رفیق اور کشمیر کے معروف صحافی شجاعت بخاری کو قتل کیا گیا اور اس دوران مجھے بھی تختہ مشق بنایا گیاتھا۔ اس کے بعد بھی یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ میں بھی فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جنوبی افریقہ کے صد ر سائرل راما پھوسا ، پاکستانی وزیر اعظم عمران خان، بھارتی اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی، وزیر اعظم نریندر مودی کے کئی وزراء ، لندن کے اخبار فائننشل ٹائمز کے ایڈیٹر رولے خالاف و دیگر ایسے افراد کے زمرے میں شامل ہوں، جن کے موبائل فون کو اتنا اہم سمجھ کر اسکی جاسوسی کی جارہی ہو۔وسائل کے زیاں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں ایک فون پر پیگاسس سافٹ وئیر نصب کرنے کی لاگت اور اسکا لائسنس خرچہ ایک لاکھ 35ہزار ڈالر یعنی ایک کروڑ بھارتی روپے کے لگ بھگ ہے۔2017میں ہی نیشنل سکیورٹی کونسل سیکریٹریٹ کے بجٹ میں ہوشربا اضافہ کرکے 33 کروڑ روپے سے بڑھا کر 333 کروڑ روپے کر دیاگیا تھا اور سائبر سکیورٹی ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے نام سے الگ ادارہ قائم کیا گیا تھا۔ آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ اسی رقم سے اور اسی ادارے کے ذریعے صحافیوں، حقوق انسانی کے کارکنان و سیاستدانوں و افسران کی جاسوسی کرنے کا آغاز کیا گیا تھا۔ پچھلی تین دہائیوں سے دہلی میں صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے اتنا تو اندازہ ہے کہ خفیہ ادارے مشکوک افراد کے ٹیلیفون ٹیپ کرتے رہتے ہیں یا پولیس کو کسی کیس کو حل کرنے کیلئے بھی فون ریکارڈ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ قانونی طور پر اسکے لئے سیکرٹری داخلہ کی اجازت لازمی ہے ۔نگرانی کی مدت دوماہ طے کی گئی ہے ، جسے 6ماہ سے زیادہ نہیں بڑھایا جاسکتا۔ ہیکنگ کی اجازت صرف اسی صورت میں ہے جب قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو۔ موبائل میں نقب زنی کرنے کاحق حاصل کرنے کے لیے بھارتی وزارت داخلہ نے20 دسمبر 2018 کو ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت نوخفیہ ایجنسیوں اور دہلی پولیس کو انٹرنیٹ وموبائل میں جاسوسی کی قانونی اجازت مل گئی تھی۔ سرینگر کے کوہ سلیمان یا شنکر آچاریہ کی چوٹی سے اگر شہر کا جائزہ لیا جائے تو جا بجا ایریل یا اینٹینا ایستادہ نظر آئینگے۔ یہ ایسی شکار گاہیں ہیں جہاں کئی برسوں سے مختلف خفیہ ادارے ہمہ وقت ٹیلی فون یا انٹرنیٹ پر نگاہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اکثر ایک ہی شخص کے فون اور ایک ہی گفتگو کئی درجن بھر ادارے ایک ہی وقت ٹیپ کرتے رہتے ہیں۔ 2011میں فرنٹ لائن جریدہ میں صحافی پروین سوامی نے لکھا تھا کہ آئی بی کو سرینگر میں اعلیٰ تکنیکی آلات مہیا کئے گئے ہیںجن سے وہ تمام تر قسم کے سیلولر و لینڈ لائن فون، ریڈیو فریکونسی اور انٹر نیٹ پر نظر رکھ سکتی ہے۔ برطانوی مصنفین ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ اپنی کتاب دی میڈوز میں سرینگر میں موجود ایک خفیہ محکمہ کے اہلکار کے حوالے سے لکھتے ہیں۔’’ ہمارا طریقہ کار ایسا ہوتا تھا کہ مختلف عسکری اور مذہبی گروپوں کے درمیان کنفیو ژن پیدا ہو تاکہ کوئی ایک گروپ مضبوط نہ ہونے پائے۔ ہمارا گیم اس سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ ہم کسی ایک کے منہ سے کوئی بات کہلواتے تھے، جس سے دوستی ، دشمنی میں تبدیل ہوتی تھی۔ ہم نے جھوٹی اور مصنوعی تنظیمیں قائم کرکے ناقابل بیان جرائم کی پشت پناہی کی۔ ہم نے نوجوان جوڑوں کی تنہائی میں کی گئی باتیں ریکارڈ کیں اور پھر ان کو بلیک میل کیا۔ ہم نے اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا تھا۔ اس فعل کی کوئی سرحدیں نہیں تھیں۔ احساس جرم تب ہوا ، جب ہم اس گیم سے باہر آچکے تھے اور ان کو یاد کرکے اب نفسیاتی گرداب میں پھنس گئے ہیں۔‘‘ بھارت کی داخلی سلامتی اور سب سے طاقتور خفیہ تنظیم انٹیلی جنس بیورو یعنی آئی بی کے ایک سابق سینئر افسر کے مطابق ٹیلیفون کے ذریعے یا ڈیٹا کو ٹریک کرکے معلومات حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا اس کا بعد میں تجزیہ کرنا اور اسکو قابل عمل انٹیلی جنس بنانا۔ خفیہ اطلاعات کے حصول کیلئے حکومت سے رقوم حاصل کرنا بھارت میں خفیہ تنظیموں کا وطیرہ رہا ہے مگر بعد میں ان معلومات کو قابل عمل انٹیلی جنس میں تبدیل کرنے میں وہ اکثر ناکام رہے ہیں۔ بھارت کی خارجہ انٹیلی جنس ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ یعنی راء کے ایک سابق افسر میجر جنرل وی کے سنگھ نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ان کے دور میں ایک بار طے ہوا کہ سنگاپور کے نزدیک سمندر کی تہہ سے گذرتی ہوئی سی ،می، وی یعنی جنوب مشرقی ایشیاء ، مشرق وسطیٰ اور مغربی یورپ کو جوڑنے والی آپٹک فائبر لائن کی نگرانی اور ٹیپ کرنے کی ضرورت ہے۔ چند افسران نے مخالفت کی اور کہا کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے برعکس بھارت کی ضروریات محدود ہیں اور اگر کوئی شخص جرمنی سے جاپان فون کرتا ہے تو راء کیوں اس فون کر ٹریک کرنے پر اپنے وسائل خرچ کرے اور یہ بھی سوال کیا گیا کہ اس مشق کے بعد ہزاروں، لاکھوں گیگا بائٹ حجم کے ڈیٹا کو کون غور سے پڑھنے کے بعد اسکا تجزیہ کریگا؟ مگر سبھی اعتراضات مسترد کرنے کے بعد کئی ارب روپے کے آلات خریدے گئے اور کام شروع کیا گیا۔ چند ہی مہینوں میں دفتر کے ایک ونگ کے کئی کمرے ٹیپ کے اسپو ل اور کاغذات سے بھر گئے۔(جاری)

Advertisements
julia rana solicitors

روزنامہ دنیا

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply