بن بیاہی بیوہ اور معلق بوسہ۔۔سیّد محمد زاہد

Nobel laureate John Glasworthy`s SALTA PRO NOBIS written in 1923 during the interwar period is that much related to the recent Afghan conflict and its effects on society.

”مشری مورہ! وہ بہت غمگین ہے۔

اپنے ہاتھوں کے کاسہ میں منہ چھپائے، سر جھکائے بیٹھی ہے۔ کسی بات پر دھیان ہی نہیں دے رہی، بس خلاؤں میں گھور رہی ہے۔ اس غریب، ناچار کو دیکھ کر دل میں خوف جاگ اٹھتا ہے۔ کل صبح بات ختم ہو جائے گی۔ میری بھر پور کوشش کے باوجود وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ اپنی غلطی پر شرمندہ بھی نہیں۔ میں اسے تلاوت کے لیے قرآن پاک دے آئی ہوں کہ اپنے گناہوں کی توبہ کر لے۔ سب بے سود ہے۔ مجھے تو لگتا ہے اس کا ان باتوں پر ایمان ہی نہیں۔ کہیں وہ کافر تو نہیں؟ مجھے تو وہ روسی ہی لگتی ہے؟

مشری مورہ، ہم اس کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ حسرت و یاس کی اس گھڑی میں اسے خوش کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ میں نے رقاصہ سے اس کی زندگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی، وہ کچھ نہیں بولتی۔ صرف خلا میں گھورے جاتی ہے۔ اسے دیکھ کر لمحہ لمحہ میرے دل کی بے کلی بڑھتی جا رہی ہے۔ کیا موت سے پہلے اس کو پل بھر کی خوشی بھی مہیا نہیں کی جا سکتی؟

زما مورہ! ایسی خوبصورت لڑکی کی موت کے بارے میں سوچتی ہوں تو ہول اٹھتا ہے۔ یہ حسن، یہ بھرپور جوانی، گولیوں کا نشانہ بننے کے لیے ہے! ”

بڑی بہن نے گفتگو ختم کر کے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر سینے پر باندھ لیے۔ وہ بھوری نمناک آنکھوں سے اپنے سامنے موجود جھریوں بھرے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ چاندی گھلے بالوں والی بوڑھی اماں کا متفکر چہرہ پیلا پڑ چکا تھا۔ ضعیف، خمیدہ تن، نحیف و نزار اماں بھاری بھر کم چغہ اوڑھے خاموش کھڑی تھی۔ رقاصہ پر غداری اور بے حیائی کے الزامات تھے۔ اس کا تعلق وسطی ایشیا کے کسی جنگ جو قبیلے یا خانہ بدوش قوم سے تھا۔ طالبان نے پغمان سے پکڑا تھا۔

صدارتی محلات پر حملے میں سینکڑوں لاشوں کے بدلے انہیں یہ نرم و نازک سی لڑکی ملی تھی۔ امریکیوں کی ترجمانی اور محفلوں میں ڈانس کرنے کے جرم میں اسے یہ سزا دی گئی تھی۔ طالبان پہاڑوں کی طرف جاتے جاتے، اس قلعہ نما گھر میں، ان کے حوالے کر گئے تھے۔ ایسی کمزور عورت کو گولی اڑا دیا جائے گا، اس خیال سے سر سے پاؤں تک لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ اس خانہ جنگی نے انسانوں کو وحشی بنا دیا تھا۔

حلیم بھوری آنکھوں سے بڑی بیٹی کو دیکھتے ہوئے ماں کہنے لگی۔ ”میری بچی! میں دیکھتی ہوں، مجھے اس کے پاس لے چلو۔“ لمبی راہداریوں سے گزرتے وہ وہاں پہنچی۔

کوہ قاف کی پری، رقاصہ اپنے بستر پر بیٹھی تھی۔ جلد کی رنگت سفید پڑ چکی تھی لیکن اس کے نیچے بہتے خون میں زعفران کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ گول کتابی چہرے پر بھویں کمان کی طرح اوپر اٹھی ہوئیں تھیں۔ پر کشش لب خاموش سے جھانکتے دانت موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ سیدھی مانگ سے نکلتے ہوئے کالے بالوں نے ماتھے کے کناروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ دونوں بازو سینے کے نیچے لپیٹے تھے گویا نرم و نازک کومل جسم میں سلگتے الاؤ کو بھڑکنے سے روک رہی ہے۔ پنجرے میں بند چیتے کی طرح، بغاوت کے ڈوروں سے دمکتی سرکش شرابی آنکھیں، آنے والی عورتوں کے جسم کو چیرتی، مٹی کی دیواروں کے پار دیکھ رہی تھیں۔

”ہم تمہارے لیے کیا کر سکتے ہیں؟“ بوڑھی اماں نے پوچھا۔

رقاصہ نے لاپرواہی کا اظہار کرتے ہوئے کندھے اچکائے۔ ریشمی پیراہن کے نیچے اس کے کومل بدن کی پھڑپھڑاہٹ واضح نظر آ رہی تھی۔

”زما لور! تم بہت غمگین ہو، مجھے بتایا گیا ہے کہ تم عبادت بھی نہیں کر رہی ہو۔ دعا بھی نہیں مانگ رہی۔ یہ تکلیف دہ رویہ ہے۔“

رقاصہ کے ہونٹوں پر پُرلطف مسکراہٹ بکھر گئی۔ ایسا لطف جو میٹھے پھل میں، سریلی دھن میں یا معشوق کے طویل بوسے میں ہی مل سکتا ہے۔ پھر اس نے عدم آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے سر کو جھٹک دیا۔

”میری بیٹی، یہاں کوئی بھی ایسی بات نہیں کرے گا جو تمہیں دکھ دے۔ سب کو تمہاری تکلیف کا احساس ہے۔ ہر کوئی سمجھتا ہے۔ کیا تم کوئی کتاب پڑھنا چاہو گی؟ تم شراب پسند کرتی ہو تو ہم اس کا بھی بندوبست کر دیں گے۔ کوئی ایسا کام جس سے کچھ دیر کے لیے ہی سہی اس آفت سے تمہارا دھیان بٹ جائے؟“

رقاصہ نے اپنے ہاتھ کھول دیے۔ پھر انہیں گردن کے پیچھے رکھ کر ایک ادا سے سر کو  ہلایا۔ اس عمل میں ایک خوبصورتی تھی، ایک لچک تھی۔ اس سرو قامت موہنی رقاصہ کا پورا بدن خوبصورت تھا۔ انگ انگ سے سندرتا پھوٹتی تھی۔ سندر لیلا دیکھ کر بڑی ماں کے پژمردہ چہرے پر بھی ہلکی سی سرخی بکھر گئی۔

”میری پیاری بیٹی! کیا تو ہمارے لیے رقص کرے گی؟“

رقاصہ نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لیے گویا کوئی بچی نماز میں قیام کے لیے کھڑی ہو۔ یاقوتی ہونٹوں پر دوبارہ پُرلطف مسکراہٹ بکھر گئی، وہی مسکراہٹ جو میٹھی شراب کا مزہ چکھنے کے بعد نظر آتی ہے۔ لیکن اب کی بار وہ عارضی نہیں تھی۔

”ہاں،“ و ہ کہنے لگی، ”ہاں! میں ناچوں گی۔ تمہاری خوشی کے لیے میں ضرور ناچوں گی۔ ڈانس مجھے بھی فرحت بخشے گا۔“

”بہت اچھی بات ہے۔

تمہارے لیے خاص لباس منگوایا جائے گا۔ رات کے کھانے کے بعد بڑے کمرے میں یہ رقص ہوگا۔ رباب بجانے والیوں کو بھی بلا لیں گے۔ ”

”رباب تو لطف کو دوبالا کر دے گا۔ میں ناچوں گی۔ ایک سادہ سی دھن پر۔ مشری مورہ! کیا مجھے سگریٹ مل سکے گی؟“

”یقیناً، میری پیاری بیٹی۔ وہ میں ساتھ ہی لائی ہوں۔“
رقاصہ نے آگے بڑھ کر بوڑھی اماں کا ہاتھ تھام لیا۔

سوکھے کمزور ہاتھوں کی نیلی موٹی رگوں میں جمے ٹھنڈے خون کو جب نرم و گرم ہاتھوں کی گداز حرارت ملی تو بوڑھی اماں کانپ اٹھی۔

اف اللہ! کل یہی ہاتھ یخ بستہ ہوں گے۔
”د خدای پہ مان۔ میری بیٹی، اب ہم چلتے ہیں۔“

سب حیرت زدہ تھے۔ منتظر تھے، اس رات کے، جب مرگ و زندگی کا اک طرفہ امتزاج، سب اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ گھر میں موسیقی کے سُر بکھریں گے۔ ناچ گانا ہوگا، وہ سب جو اس ملک کی روایت رہی ہے۔ وہ سب جو ’نہی عن المنکر‘ کے نام پر اب بند کر دیا گیا تھا۔ آج رباب کے نرم سر، جوان ہتھیلیوں کی تال اور افغانی ڈھولکی کی تھاپ پر عذاب مرگ کی سزاوار ناچے گی۔ ہر طرف سرگوشیاں ہو رہی تھیں، پھر وہ آوازوں میں بدل گئیں۔ ہر سننے والے کان اور کہنے والی زبان پر ایک ہی موضوع تھا کہ اب اس گھر کی مقدس دیواریں وہی ڈانس دیکھیں گئیں جس کی سزا اس رقاصہ کو دی جا رہی ہے۔ آج اس گھرمیں، شہر کے کھنڈرات کے زیر سایہ، ویسی ہی ایک محفل آباد ہوگی۔

کھانا جلدی جلدی کھا لیا گیا۔ دستر خوان سمیٹنے میں بھی دیر نہ لگی۔ ایک ماہر بڑھیا رباب اٹھا لائی، گھر کی سب عورتیں دیواروں کے ساتھ تکیہ لگا کر بیٹھ گئیں۔

پہلے کم سن گل بدن کمرے میں داخل ہوئی۔ گل بدن جو عرصہ ہوا عورتوں سے بھی پردہ کرتی تھی۔ جو اپنے کنج سے باہر کم ہی دیکھی جاتی تھی۔ اس کے پیچھے سنک خرام رقاصہ کمرے کے درمیان بچھے افغانی قالین پر کھڑی ہو گئی۔ ہر چہرہ اس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ صرف بوڑھی اماں کہیں کھوئی ہوئی تھی۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھی سوچ رہی تھی کہ یہ رقص ناپختہ ذہنوں اور جوان دلوں پر کیا قیامت ڈھائے گا؟ اس شاہکار حسن کو آتش بجاں دیکھ کر خام دماغ بھڑک اٹھیں گے۔ ان میں کیا کیا وسوسے جاگیں گے؟

رقاصہ نے سیاہ ریشم کی میکسی پہنی ہوئی تھی، جس کے گھیرے پر نقرئی تاروں کا کام تھا۔ سفید موزے اور موتی جڑے جوتے چاندی کی طرح چمک رہے تھے۔ پتلی کمر کے گرد ستاروں اور موتیوں سے جڑی کامدار سنہری پٹی لپیٹی ہوئی تھی۔ چھاتی کے اوپر کالے رنگ کی کور سے سجی سپید کافوری سلک کی چولی تھی۔ گورے ننگے بازو ہاتھی دانت کے بنے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ حنا رنگ ہاتھ میں سیم و عاج کا بنا پنکھا تھا۔ سیاہ زلفوں میں سرخ پھول جڑا ہوا تھا۔ ہونٹوں کی لالی سے لعل بھی منفعل ہو رہے تھے۔ آنکھوں میں لگی ہلکی سی کاجل کی لکیر ظلمت شب میں اضافہ کر رہی تھی۔ سفید نورانی چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ وہ کمرے کے درمیان نظریں جھکائے کھڑی تھی۔

رباب کی دھن بکھرنا شروع ہوئی تو نشیلی آنکھوں کو حرکت دی اور پنکھا ہلانا شروع کر دیا۔ اس ہلکے سے رقص میں وہ اپنی جگہ سے کم ہی حرکت کر رہی تھی۔ برہنہ باہوں کی چم خم، بدن کی لرزش اور کولہوں کی لچک ایک ہی مقام پر محدود رہیں۔ بس خوشبو کا ایک جھونکا تھا جو پورے کمرے کو مہکا رہا تھا۔ اس کی مضطرب آنکھیں کمرے میں موجود ہر عورت کا طواف کر رہی تھیں۔ کبھی اس چہرے کا اور کبھی اس کا۔ چہرے جن پر ہزاروں قسم کے جذبات ابھر رہے تھے۔ کسی پر شکوک و شبہات ہویدا تھے، کہیں خوشی و مسرت، حیرت و انبساط اور خوف و دہشت۔ کہیں جنون کے ولولے نہاں ہو رہے تھے۔

رباب خاموش ہوا تو وہ بھی رک گئی۔
کمرے میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ ان کو دیکھ کر رقاصہ بھی مسکرا اٹھی۔

بڑھیا نے رباب کے تاروں کو پھر چھیڑا۔ اس مرتبہ سُر تیز تھے۔ کچھ دیر وہ کھڑی رہی۔ جیسے سر سے تال ملا رہی ہو۔ یک دم اس کے بدن میں بجلی سی کوند گئی۔ رات کے برہنہ سینے پر اس کے پاؤں رقصاں تھے۔ نرت نرت پر سینوں میں دھڑکتے دل ردھم کھو رہے تھے۔ نیم وا ہونٹوں نے چہرہ کی رونق کو بڑھاوا دے دیا تھا۔ حسین تتلی کو آزادانہ اڑتے دیکھ کر سب کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اس کا سرمست ناچ دیکھ کر جوش مسرت سے واہ واہ کا شور بلند ہونے لگا۔

بوڑھی اماں بت کی طرح ہونٹ بھینچے خاموش بیٹھی تھی۔ دونوں ہاتھوں کی باریک انگلیاں ایک دوسرے میں گتھی ہوئی تھیں۔ یاد ماضی اس کے دماغ میں آگ بھڑکا رہی تھی۔ گزری ہوئی باتوں کا تصور، بیتے دنوں کی یادیں ذہن کے دریچوں میں ابھر رہی تھیں جیسے کوئی جادوگر جادو کے ڈبے میں فسوں پھونک کر تصویریں بدل رہا ہو۔ کافر دنیا کی یہ البیلی گوری، یہ کومل صورت جس کے ہونٹوں پر ہلکی لالی کی چمک تھی، جس کے زلفوں میں سرخ پھول تھا، جس کی روشن آنکھوں میں کاجل کی سیاہی تھی، بوڑھی اماں کے دل میں جوانی کی مضمحل یادوں کو بھڑکا رہی تھی۔

سالوں پہلے وہ اور اس کا محبوب خاوند پھولوں اور باغات کے شہر پغمان کی گلیوں میں آزادانہ گھوما کرتے تھے۔ شاہ کا پر امن دور، جب شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں افغانی اور غیر ملکی دوشیزائیں ایسے ہی باکمال رقص پیش کیا کرتی تھیں۔ بوڑھی آنکھوں کے سامنے ماضی کے افغانستان کی یادیں رنگ بکھیر گئیں۔ لطیف و منیع عمارات کا یہی شہر پغمان، ایسی عمارات جنہیں خاموش شاعری اور منجمد موسیقی کا لقب دیا جاتا تھا۔ جہاں سر اور تال کی محفلیں سجتی تھیں۔

محبتیں جوان ہوتی تھیں۔ پھر ملک مذہبی جنگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ دور دراز کے ممالک سے مجاہدین نے آ کر ’قتال اور امر با المعروف‘ کا فریضہ سنبھال لیا۔ یہ فریضہ اس کے محبوب خاوند کو کندھے پر کلاشنکوف سجا کر ساتھ لے گیا۔ وہ کہاں دفن ہوا، اسے کوئی خبر نہ ملی۔ قبر کا نشان تو نہ ملا لیکن اس کو نئی پہچان مل گئی۔ اب چار بچیوں کی ماں، شہید کی بیوہ، متبرک ہستی بن چکی تھی۔ دوسری بیواؤں اور یتیم بچیوں کی مربی و سرپرست۔ اس جیسی بوڑھیوں کی مستقل اور جوان بیواؤں کی عارضی، تاوقتی کہ کسی جوان بیوہ یا کنواری کو کوئی بہادر اپنے حرم میں شامل کر کے غازی مجاہد کے بچوں کی پالن ہار بُن لیتا۔

رباب کی آواز تھم گئی تھی۔ افسردہ جذبات ہیجان زدہ ہو گئے تھے۔

بڑھیا کی انگلیاں پھر حرکت میں آئیں۔ میوزک کے شروع ہوتے ہی اس نازنین کا لچکتا مغرور بدن بھی حرکت میں آ گیا۔ بڑھیا نے افغانستان کی مقبول دھن چھیڑی تھی۔ تمام لڑکیاں بھی گنگنانا شروع ہو گئیں۔ ایک نے ڈھولکی اور دوسری نے دائرہ پکڑ لیا۔ تالیاں بجا کر باقی بھی گانے میں شامل ہو گئیں۔ مقبول ترین گانا آہستہ لے میں گایا گیا تھا لیکن اس نے تیز ردھم سے آغاز کیا اور ساتھ ہی تیز ڈانس بھی۔ وہ باکمال رقاصہ پنکھڑی کی طرح سمٹتی اور پھول کی طرح بکھر جاتی۔ خوشبو کی طرح مہکتی اور بجلی کی طرح کوندتی تھی۔ دلہا دلہن کا استقبالیہ گانا سب مل کر گا رہی تھیں۔

آہستہ برو (آہستہ چل)
ماہ من، آہستہ برو
سرو رواں، آہستہ برو

لڑکیوں کا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔ تالیوں کا شور بڑھ گیا۔

دختر خاں، آہستہ برو
خواہم ز خدا ہمیشہ باہم باشیم (میری دعا ہے کہ خدا کرے، تم ہمیشہ، میرے ساتھ رہو)
در سایہ گل نشستہ بی غم باشیم (پھولوں کے سایہ میں، تم بے فکر، میرے ساتھ رہو)
رونق کاشانہ من
آہستہ برو۔
سب گا رہی تھیں اور وہ سرو قامت بے نیازی و سرمستی میں ناچ رہی تھی۔

شور میں آہیں اور سسکیاں بھی شامل تھیں۔ باہم باشیم گاتے ہوئے خاموش بیٹھی چھوٹی بہن گل بدن کے رخساروں پر آنسوؤں کے موتی چمک اٹھے۔ رقاصہ اپنے رقص میں مست ہو کر بھی ہوشیار تھی۔ وہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اہل محفل ہوش و ہواس کھو چکی تھیں۔ پھر جیسے بہتا ہوا دھارا ٹھہر جائے، ابلتا ہوا چشمہ یک بیک رک جائے وہ لہراتی ہوئی ناگن کی طرح بل کھا کر بیٹھ گئی۔

بوڑھی اماں کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا۔ اس لڑکی کو ڈانس کی دعوت دینا دانش مندی نہیں تھی۔ کچی عمر کی لڑکیاں، جوان بیوائیں سب کے دلوں میں وسوسے جاگ اٹھے ہوں گے۔ ناسمجھ نادان دل اس شعلہ جوالہ سے مشتعل ہو گئے ہوں گے۔ لیکن اس رقاصہ کی آخری خواہش پوری کرنا بھی تو ضروری تھا۔ اس کے دل کی تسکین کا سامان مہیا کرنا بھی تو اہم تھا۔ اس ناچ گانے سے وہ بہل گئی تھی۔ وہ رقص کر کے خوش ہو رہی تھی۔

تمام آنکھیں اس کے سحر میں کھو چکی تھیں۔ گل بدن سب سے زیادہ مسحور تھی۔ بڑی اماں کا دھیان اس کی طرف ہی تھا۔ اس کی ہچکیوں میں جوانی ماتم کناں تھی۔ ابھی پچھلے سال ہی اس کی منگنی ہوئی تھی۔ گل بدن، مجسم شباب، اس نے زندگی کی بیس بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ کابل کے اردگرد پھر جنگ چھڑ گئی۔ وہ بھی طالبان کے ساتھ چلا گیا۔ اور پھر۔ گل بدن، سب کنواریوں سے کنواری، بن بیاہی بیوہ اس بڑھیا کے حوالے کر دی گئی۔ ان گنت صدیوں کے جہادیوں کی جہالتی عصبیت اپنے مقابل کے روبرو پچھلے پچاس سال میں پورے انصاف کے ساتھ پروان چڑھی تھی۔ قبائلی رواج کے مطابق اب وہ معلق کنواری بیوہ اس خاندان کی ہو چکی تھی۔ وہ کہیں اور بیاہی نہیں جا سکتی تھی اور ان میں کوئی لڑکا نہیں تھا۔

رقاصہ کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ گل بدن نے نازک ہاتھوں کو مضبوطی سے سینے پر باندھ رکھا تھا۔ اس کو لبھانے کے لیے رقاصہ کے سرخ ہونٹوں پر بار بار عجیب تبسم نمودار ہو رہا تھا۔ اس تبسم کی ماہیت شہد جیسی تھی۔ رقاصہ کی نگاہیں مدھو متی کی طرح گل پر منڈلا رہی تھیں۔ بڑی اماں سوچ رہی تھی یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں نے رقاصہ کے ساتھ نیکی کی ہے یا غلطی سے شیطانی کام کو دعوت؟

رقاصہ اٹھی اور سب عورتوں کے پاس سے گزرتی ہوئی واپس چل پڑی۔ اس کی آنکھوں میں سورج کی چمک تھی۔ ولولہ شباب جوش زن تھا۔ حسن نور افروز کی مالک، پ‬ر غرور انداز میں چلتی ہوئی گل بدن کے پاس آئی۔ آہ! گل بدن۔ رخسار پر پنکھے سے ہلکی سی ضرب لگائی اور واپس چل پڑی۔

بڑی ماں کی انگلیاں بے قراری سے کپکپا رہی تھیں۔

رقاصہ نے اپنے بازو سینے پر باندھ لیے۔ حنائی انگلیوں کو ہونٹوں سے لگایا اور ایک ہوائی بوسہ اس کی طرف اچھال دیا۔ جواں بیوہ گل بدن۔ آگ سی بھڑک اٹھی۔ کہاں؟

رقاصہ بانکی چال چلتی جس طرح آئی تھی اسی طرح اندھیرے راستوں پر واپس چلی گئی۔ عورتوں کی طویل قطار سے آہ کی ایک آواز کمرے کی خاموشی کو چیر گئی اور۔ ہاں۔ کسی نے ایک سبکی بھی لی۔

بوڑھی اماں پکاری۔ ”میری بچیو! جاؤ اب اپنے کمروں میں چلی جاؤ۔“
باقی عورتیں بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے کو خالی کر گئیں۔
گل بدن سرخ رخساروں سے آنسوؤں کا عرق پونچھ رہی تھے۔ وہ روانہ ہوئی تو ماں نے اسے روک لیا۔

”تم آج کی رات نوافل اور تلاوت کے بعد دعا کرنا۔ یا اللہ! اس بیکس بیچاری کی بخشش فرما دے۔“
کچھ دیر خاموش کھڑی رہی پھر اسے پیار کرتے ہوئے بولی،
”جاؤ! اب اپنے کمرے میں اور گڑگڑا کر اللہ کو پکارو۔“

نوجوان بیوہ واپس چل پڑی۔ اس کے انداز میں بھی تمکنت تھی۔ وہ خوبصورت شاہانہ چال چل رہی تھی۔ اس سرو رواں کو دیکھ کر بوڑھی اماں کی ہچکی بندھ گئی۔

اگلی صبح، کہر کی چادر میں لپٹی، غم آلودہ سحر کی خاموشی توڑتے جوان اندر داخل ہوئے اور رقاصہ کو پکڑ کر لے گئے۔ اس کے بعد گولی چلنے کی آواز آئی اور اللہ اکبر کے نعرے گونج اٹھے۔ بوڑھی اماں روتی ہوئی سجدے میں گر گئی۔

دن کی روشنی پھیلی تو گل بدن کہیں بھی نظر نہ آئی۔ دو دن بعد اس کا لکھا ایک خط ملا۔

”مشری مورہ! مجھے معاف کر دینا۔ میں تم کو چھوڑ آئی۔ پاکستان جا رہی ہوں۔ کبھی حالات بہتر ہوئے تو لوٹ آؤں گی۔ ورنہ جنت میں ملاقات ہوگی۔“

خط اس کے کانپتے ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔ وہ ایک آہ کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئی۔
زندگی بعد از موت؟

Advertisements
julia rana solicitors london

تصور میں برستی پرانی یادیں، جادو کے ڈبے میں رقص کناں تصویریں، رقاصہ کا خوبصورت چہرہ، کالی زلفوں میں سرخ پھول، سیاہ آنکھیں، کاجل کی لکیر، سرخ یاقوتی ہونٹ جن کو چھوتی ہوئی حنائی انگلیاں،بن بیاہی بیوہ اور ایک اڑتا ہوا بوسہ، ایک معلق بوسہ۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply