ڈس کوالیفائیڈ ٹیم(2،آخری حصّہ)۔۔عاطف ملک

اصل چار سو میٹر کی دوڑ دو سو میٹر کے بعد شروع ہوتی ہے، بل کھاتے ٹریک پراب طاقت لگائی جاتی ہے، اِدھر آخری دو سو میٹر آئے اور رفتار کی تیزی نظر آنے لگ جاتی ہے، مگر یہ خیال کرکے کہ آخری سو میٹر،جہاں ٹریک سیدھا ہوجاتا ہے اور دوڑ ختم کی ڈوری لگی ہوتی ہے، وہ اصل مقابلے کا وقت ہے۔ جیسے ہی آخری سو میٹر کا فاصلہ آتا ہے، اتھلیٹ کو اپنی تمام طاقت لگا دینی ہے، پوری، مکمل، سب طاقت خرچ کردینی ہوتی ہے۔ مقابلے کا جذبہ، اپنے اندر سے اٹھتی آواز، سب کو جمع کرتے اپنے ختم شدہ جسم کو آخری لائن سے گذارنا ہوتا ہے۔ جسم جواب دے رہا ہوتا ہے، مگراندرسے آتی آواز اُسے بھگاتی ہے۔ اپنی طاقت کا آخری قطرہ بھی یہاں استعمال کر دینا ہے۔ اس موقع پر قدم کہیں رکھا جاتا ہے، پڑتا کہیں اور ہے۔ ٹانگیں جسم کا وزن اٹھانے سے عاجز ہو رہی ہوتی ہیں۔

پہلے دن کے مختلف مقابلوں میں چار سو میٹر کی دوڑ کی ہیٹس تھیں، فائنل مقابلہ اگلے دن ہونا تھا۔ پہلے دن کا آخری ایونٹ چار سو میٹر کی ریلے ریس تھی۔ اس میں چار اتھلیٹس باری باری چار سو میٹر بھاگتے ہیں۔ ہر ٹیم کے کھلاڑی کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا جسے بیٹن کہتے ہیں، ہوتا ہے جو اُس نے اگلے بھاگنے والے کو پکڑانا ہوتا ہے،اس کو حاصل کرنے کے بعد ہی اُس ٹیم کا اگلا اتھلیٹ بھاگ سکتا ہے۔

اپنے مخالف جوہر ہاوس کی ٹیم کے لحاظ سے انہوں نے چار سو میٹر کی ریلے دوڑ کی بھرپور منصوبہ بندی کی تھی۔ اُس دن کی چار سو میٹر کی انفرادی ہیٹس میں اُس کی ٹیم نے دو اتھلیٹس ڈالے تھے۔ وہ خود، ایک تجربہ کار اور مضبوط اتھلیٹ کے طور پر اور ریحان، جس کی ان مقابلوں میں پہلی شرکت تھی، وہ دونوں چار سو میٹر کی انفرادی ہیٹس بھاگ رہے تھے۔ ہاوس کی پریکٹس دوڑوں میں وہ ریحان سے آگے نکل جاتا تھا۔ ریحان کو اُس نے بتایا کہ ہیٹس میں صرف کوالیفائی کرنا ہے، آرام سے دوڑنا ہے، طاقت بچا کر رکھنی ہے، تیسری پوزیشن تک آجائیں کہ اگلے دن کے فائنل مقابلے کے لیے سلیکٹ ہوجائیں، اگلے دن اصل مقابلے کے وقت جان لگائیں گے۔ پہلے دن کا اصل مقابلہ دن کا آخری مقابلہ تھا جو کہ چار سو میٹر کی ریلے ریس تھا۔

جوہر ہاوس کے ساتھ انکا مقابلہ سخت تھا۔ مخالف ٹیم میں اچھے اتھلیٹ تھے، بلکہ شاید اس وقت کا سب سے بہتر اتھلیٹ عادل اس ٹیم میں شامل تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور طاقتور مدِمقابل عرفان بھی تھا۔ چار سو میٹر ریلے کی ٹیم کے دوسرے دو ممبران کا بھی انہیں علم تھا، اچھے تھے مگرانہیں ہرانا مقابلتاً آسان تھا۔ قائد ہاوس کی ٹیم میں وہ خود تھا، مقابلتاً ناتجربہ کار ریحان، تیسرا اتھلیٹ عمران حیدر جو کہ پتلا دبلا اور تیز رفتار تھا۔ عمران بنیادی طور پر سو میٹر کی رکاوٹوں والی دوڑ، ہرڈلز، بھاگتا تھا۔ اُس نے پہلے دن سو میٹر کی ہرڈلز کی دوڑ کو کوالیفائی بھی کرنا تھا۔ انکی ٹیم کا چوتھا اتھلیٹ ارشد بٹ تھا۔ گجرانوالہ کا ارشد بٹ، لمبا تڑنگا جذباتی اتھلیٹ تھا۔ بٹ اُس سے ایک سال پیچھے تھا، دونوں کی یاری تھی۔ کئی مقابلے انہوں نے اکٹھے دوڑے تھے۔ بٹ ایک سر پھرا اتھلیٹ تھا، اُسے دوڑ سے پہلے جذبات میں لے آؤ، چارج کردو، پمپ سے جذبات بھر دو، پھردیکھو اُس کی دوڑ، مرتا مرجائے گا مگر پھر رکے گا نہیں۔ لوگوں نے اُسے الٹیاں کرتے دوڑتے دیکھا۔ طبیعت خراب ہے، الٹیاں کر رہا ہے، مگر رک نہیں رہا، بھاگے چلا جارہا ہے۔ مقابلہ دل کے جذبے سے ہوتا ہے، باقی جسم تو ایک غلام ہے۔

انہوں نے جوہر ہاؤس کی مضبوط ٹیم کے مقابلے کے لیے منصوبہ بنایا۔ بٹ کو کسی انفرادی مقابلے میں نہیں بھگایا جائے گا، وہ تازہ دم رہے گا کیونکہ وہ انکا ترپ کا پتہ تھا۔ دن کے انفرادی مقابلوں میں ریحان، عمران اور اُس نے کوالیفائی کرلیا۔ جیسے ہی وہ دوڑ ختم کر کے آئے، انہیں کمبلوں میں لپیٹ دیا گیا، اور دو تین لڑکے ان کو خوب دبا رہے تھے تاکہ وہ اگلی دوڑ کے لیے تیار ہوجائیں ۔ سب کو علم تھا کہ انہوں نے ریلے ریس بھاگنی ہے اور اُس دن کی چار سو میٹر کی ریلے ریس کا سب کو شدت سے انتظار تھا۔

آخرکار چار سو میٹر کی ریلے ریس کا اعلان ہوا۔ چاروں ہاوسز کی ٹیمیں میدان میں آگئیں، مگرسب کوعلم تھا کہ اصل مقابلہ قائد ہاوس اور جوہرہاوس کے درمیان ہے۔ قائد ہاوس کی طرف سے عمران دوڑ کا آغاز کر رہا تھا۔ وہ تجربہ کار اتھلیٹ تھا۔ کئی دوڑیں دوڑا تھا، پریشر برداشت کرنا جانتا تھا اور اس دوڑ کی تکنیک سے بخوبی واقف تھا۔ تماشائیوں کی نظریں دوڑ کے آغاز کےلیے جھکے اتھلیٹوں پر تھیں۔ اپنی کرسیوں کے کناروں سے اٹھتے ہوئے وہ آگے ہو ہو کر دیکھ رہے تھے، انہیں علم تھا کہ وہ ایک معرکہ دیکھنے جارہے ہیں۔

مقابلے کا آغاز ہوا، فائر ہوتے ہی چاروں ہاوسز کی ٹیمیں بھاگیں۔ قائد ہاوس کی طرف سے سب سے پہلے عمران بھاگا۔ اُس کے ہاتھ میں سبز رنگ کا بیٹن تھا۔ شروع میں مقابلے کی رفتار ہلکی تھی، پہلے سو میٹر چاروں اتھلیٹس تقریباً برابر ہی بھاگ رہے تھے۔ سو میٹر کے بعد عمران آگے نکلنے لگا، جوہر ہاوس کے اتھلیٹ نے اُسے نظر میں رکھا ہوا تھا اور اُس کی رفتار بھی تیز ہوگئی۔ دو سو میٹر کے موڑ پر تماشائی دو اتھلیٹیس کو ایک ساتھ آگے بڑھتے دیکھ رہے تھے، جبکہ دوسرے ہاوسز کے دونوں اتھلیٹ پیچھے رہتے جارہے تھے۔ آخری سو میٹر آئے اور عمران کو علم تھا کہ یہ مقابلے کا اصل وقت ہے۔ دونوں اتھلیٹ برابر تھے، وہ پورا زور لگا رہے تھے، ان کے منہ کھلے تھے اور ان کے سانسوں کی آواز بلند تھی، ان کے سینے جل رہے تھے، دونوں کی رفتار بہت تیز نہ تھی، ٹانگیں رکتی تھیں، جسم ٹوٹتا تھا، تماشائیوں کا شورتھا، بھاگو بھاگو، وہ دونوں رک گئے ہوتے مگر مقابلے کا جذبہ انہیں بھگا رہا تھا۔ جذبہ ہی استعداد سے کہیں بڑھ کر کام کرا دیتا ہے۔ آخری پچاس میٹر رہ گئے اورعمران دو قدم آگے نکل گیا۔ انہیں دو قدموں کی سبقت سے اس نے بیٹن ریحان کےحوالے کیا۔

تما شائی ایک دفعہ پھر اگلے چکر کی طرف متوجہ تھے۔ ریحان کو دو قدموں کی سبقت ملی تھی اور وہ اس سبقت پر بھاگ رہا تھا۔ وہ چار سو میٹر کا ایک نیا اتھلیٹ تھا سو اس وجہ سے قائد ہاوس کے تجربہ کار اتھلیٹوں نے اُسے اس دوڑ کی تکنیک پوری طرح سمجھائی تھی، مگر پھر بھی ڈر تھا کہ مقابلے کا جوش اُس کے ہوش پر حاوی نہ ہوجائے۔ سب کی نظریں اس چکر پر تھیں۔ ریحان سے دو قدم پیچھے جوہر ہاوس کا بھاگتا کھلاڑی تھا، دونوں ایک ہم آہنگی میں بھاگ رہے تھے، دونوں کے قدم ساتھ ساتھ اٹھتے اور بازو ساتھ ساتھ حرکت کر رہے تھے۔ مقابلے کے دوسرے شرکاء پیچھے رہتے جارہے تھے۔ ریحان نوآموز ہونے کے باوجود اچھا دوڑا، اس نے دو قدموں کی سبقت کو محفوظ رکھا اور بیٹن آ کر اُسے دی۔

اگلے دونوں چکر دوڑ کے اہم ترین تھے، اُن پر ہی دوڑ کا فیصلہ ہونا تھا۔ وہ دوڑا تو اس سے دو قدم پیچھے جوہر ہاوس کا عادل تھا۔ اُسے عادل اپنے سر پر محسوس ہو رہا تھا، بالکل ساتھ، اس کے سانسوں کی آواز سنائی دے رہی تھیں، دھونکنی کی طرح، ایک ردھم میں گونجتیں۔ اس نے اپنی نگاہیں سامنے لگی چونے کی سفید لائنوں پر مرکوز رکھی تھیں، وہ اندرونی لائن کے بالکل متصل دوڑ رہا تھا۔ ایک دائرے میں بھاگتے یہ تھوڑے فاصلے کی بچت بھی اس دوڑ میں بہت ہوتی ہے۔ وہ پیچھے مڑ کرنہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ دوڑ کے مقابلوں کا اصول ہے کہ کبھی پیچھے مڑکر نہ دیکھو۔ نظر آگے رکھو، دوڑ میں بے یقینی نقصان نہیں فائدہ ہے۔ گمان کہ مقابلہ سخت ہے، مخالف پہنچ رہا ہے، گمان کہ میں یہ مقابلہ جیت سکتا ہوں، یہ گمان ہی ہے کہ بےجان ہوتی ٹانگوں میں زندگی دوڑا دیتا ہے۔ زندگی کے بارے میں کبھی سوچیں تو علم ہوتا ہے کہ دوڑ کی طرح یہ بھی گمان پرہی چلتی ہے- گرشکست کا گمان حاوی ہو تو کھلاڑی میدان میں اتر بھی آئے تو مقابلے میں نہیں اترا ہوتا۔ دوسری جانب لوگ ایک احساس پر، ایک خیال پر، ایک نظریہ پر، ایک فکر پر، ایک گمان پر ساری عمر تج دیتے ہیں۔ گمان بے جان ہوتے جسم میں زندگی بھرلاتا ہے۔

دوڑ کے دو سو میٹر گذر چکے تھے۔ عادل اور وہ دونوں ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے جبکہ دوڑ کے باقی شریک کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ تماشائی اپنی جگہوں پر بے چین تھے، ان میں سے بعض کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بھی بھاگ کر دوڑ میں شریک ہو جائیں۔ ہارجیت اپنے معنی کھو بیٹھی تھی۔ جدوجہد کی خوبصورتی یہی ہے کہ شفاف ہو تو ہار کر بھی جیت ہے۔ دوڑتے وہ دونوں تین سو میٹر کے خم دار موڑ سے نکلتے سیدھے ہو رہے تھے۔ اُس وقت وہ دونوں سیدھے ہوتے راستے پر برابر تھے۔

اُسے محسوس ہوا کہ عادل اُس تک پہنچ گیا ہے، شاید لمحہِ رواں میں وہ اُس سے آگے نکل جائے۔ اُس ساعت اس نے ایک نعرہ لگایا، ایک نعرہِ بےاختیار، ایک نعرہ جو باہر کے لیے نہ تھا، وہ نعرہ اس کے اندر گونجا اوراس گونج نے اسکی ٹانگوں کو طاقت دی کہ وہ ان دو قدموں کی برتری کو برقرار رکھ سکا۔

اب بیٹن ارشد بٹ کے ہاتھ میں تھی اور وہ دوڑ کا آخری چکر مکمل کررہا تھا۔ اس سے دو قدم پیچھے جوہر ہاوس کا عرفان تھا۔ دونوں تازہ دم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔ تین سو میٹر مکمل ہوئے اور بٹ آگے تھا۔ سو میٹر باقی تھے، اب پچھترمیٹراوراب پچاس میٹر، بٹ اب بھی آگے تھا اوراس سے دو قدم پیچھے عرفان تھا۔ پچیس میٹر اورساتھ ہی دوڑ کا عجب موڑ ایک دم سامنے آگیا۔ بٹ فنش لائن سے پانچ میٹر پیچھے گرگیا تھا۔ آخری پانچ میٹر اور بٹ زمین پر گرا پڑا تھا۔ تماشائیوں کا شورایسا کہ کچھ سنائی نہ دیتا تھا، کھلاڑی ششدر تھے۔ عرفان فنش لائن پار کر گیا تھا۔ جوہر ہاوس دوڑ جیت چکا تھا۔ بٹ اٹھا اورچلتے ہوئے فنش لائن پر عبور کر گیا۔ دوڑ میں تیسرے نمبر پرآتا اتھلیٹ ابھی بھی کہیں دور تھا۔
بٹ نے فنش لائن تو پار کرلی تھی اور ٹیم اس کے گرنے کے باوجود دوسرے نمبر پر تھی، مگراس گرنے اٹھنے، تماشائیوں کے شور اور ہنگامے میں لکڑی کا بیٹن وہیں رہ گیا تھا۔ اسی جگہ پر جہاں وہ گرا تھا ، فنش لائن سے پانچ میٹر پہلے دو چونے کی لکیروں کے درمیان زمین پر اکیلا افسردہ پڑا تھا۔ دوڑ کے ججز نے اس لکڑی کے ٹکڑے کو وہاں پڑا دیکھا اور ٹیم ڈس کوالیفائی کرنے کا اعلان کردیا۔
وہ آگے بڑھا اور بٹ کو گلے سے لگا لیا۔ بٹ رو رہا تھا۔
بٹ ایسا ہو جاتا ہے، کوئی بات نہیں”۔”
کیا اب رووں بھی نہ”۔”
اس نے سوچا، یہ کیوں ہے کہ مرد کو رونے بھی نہیں دیا جاتا۔ رونا کیا کمزوری کی نشانی ہے یا نشانی ہے کہ احساس ابھی زندہ ہے۔ کیا آنسو کمزوری ہیں یا زندگی کا نشاں، آنسو کیا ہیں؟

وہ جو دوڑ جیت رہے تھے، جیتتے جیتتے بالکل ہی بے نام ہوگئے۔ تمام محنت، تمام زور، تمام جدوجہد کے باوجود وہ ہار گئے تھے۔ ویٹر چاچا اکرم جو تماشائیوں کی نشسستوں کے ساتھ کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ ہنس پڑا، یہ زندگی ہے۔ بعض دفعہ سخت محنت، پسینے، جدوجہد کے باوجود بھی منزل نہیں ملتی۔ بالکل سامنے پہنچ جانے کے بعد، ہاتھ کی گرفت میں ہوتے ہوئےبھی، ریت کی طرح ہاتھ کی گرفت میں سے منزل پھسل جاتی ہے۔ دیکھتے دیکھتے، ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی آپ پکڑ نہیں سکتے، سنبھال نہیں سکتے، آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ چاچا اکرم ہنس پڑا، دانشور چاچا اکرم، کھانے کی میزوں پر ڈشیں لگاتا دانشور چاچا اکرم ہنس پڑا۔

اورجب وہ رات کو میس میں کھانا کھا رہا تھا تو چاچا اس کے پاس آیا۔ کہنے لگا، مقابلہ ابھی ختم نہیں ہوا، بلکہ مقابلہ اب شروع ہورہا ہے۔ گرنے کے بعد گر کراٹھنا کھلاڑی کا بتاتا ہے۔ زندگی کی دوڑ لمبی ہے، کئی دفعہ گرو گے، اصل کھلاڑی گر کے پھر اٹھتا ہے، دوبارہ مقابلے کے لیے۔ خوش رہ، یہ لے تیرے لیے دو انڈے علیحدہ ابال کرلایا ہوں ۔
اگلا دن تھا۔ چار سو میٹر کی انفرادی دوڑ کے فائنل کے لیے وہ میدان میں اتر چکا تھا ۔ کل کے واقعہ کی بنا پر وہ اس دوڑ میں بہت جذبات سے شریک تھا؛ جذبہ، غصہ، غم سب آپس میں ملے ہوئے تھے۔ رات وہ سو نہ پایا تھا۔ یہ مقابلہ اُس کے لیے عام مقابلے سے کہیں بڑھ کر تھا۔

دوڑ سے قبل انفرادی لائنوں کے لیے قرعہ اندازی ہوئی، ہر بھاگنے والے نے ایک ایک پرچی نکالی جس پر لکھا نمبر میدان میں اس کے ٹریک کا تعین کرتا تھا۔ وہ ریحان سے ملا جو کہ اس کے ساتھ اس فائنل دوڑ کے مقابلے میں شریک تھا۔ غیر محسوس طریقے سے دونوں نے ہاتھ ملایا، تماشائیوں کی نظروں کے سامنے، روزمرہ کا ایک مصافحہ، جب وہ واپس مڑا تھا تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھا، ایک معنی خیز مسکراہٹ۔ یہ دوڑوں کے مقابلے سیدھے نہیں ہوتے، اس میں بہت چیزیں ہوتی ہیں، یہ سائنس اور آرٹ دونوں کا امتزاج ہے، یہ زور اور دماغ کا ساتھ ہے۔ اتھلیٹ فنکار بھی ہوتے ہیں، اپنے سانس، اپنے زور سے شاہکار بناتے۔
کسی کے علم میں آئے بغیر دونوں نے اپنے ٹریک کے نمبروں کی پرچیاں بدل لی تھیں۔ یہ منصوبہ انہوں نے رات ہی بنا لیا تھا۔ وہ ریحان سے بہتر دوڑتا تھا سو اُسے اندرونی لائنوں پر دوڑنا تھا۔ اوراتفاق یہ ہوا کہ اس کو آٹھویں نمبر کی پرچی ملی تھی، سب سے باہر کا ٹریک جو اس دوڑ میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ریحان کے پاس پہلے نمبر کی پرچی تھی، سب سے اندر کا ٹریک، اور دونوں کے مصافحے میں پرچیاں بدل گئی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اورجب وہ دوڑ کے لیے جھکا تھا تو اسے کن اکھیوں سے تمام مخالف اتھلیٹ نظر آرہے تھے، اس کے دائیں طرف، سب اس سے آگے ایک ترچھی لائن میں بھاگنے کے لیے تیار۔ یہ دوڑ اس کے لیے بہت اہم تھی، گر کے اٹھ کے دوبارہ دوڑنے کی دوڑ، ایک اصل کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیتی دوڑ۔
اُس کے ماتھے پر پسینہ تھا، دونوں بھووں کو تر کرتا۔ اُس کا حلق خشک تھا۔ اس کے پیٹ میں درد تھا، دور کہیں سے اٹھتا، ہلکا مگر تمام پیٹ میں پھیلتا، مسلسل اپنا احساس دلاتا، اس کے کانوں میں شور سنائی دے رہا تھا، تماشائیوں کا بے معنی شور۔
اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔
ختم شد۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply