سفرنامہ روس /ویلکم ٹو ماسکو(حصّہ ہفتم)۔۔سیّد مہدی بخاری

سورج جب چمکنے لگتا ہے تو بڑی روشنی ہوتی ہے۔ دن چڑھ آتا ہے ، دھوپ پھیلتی ہے ، حدت ہوتی ہے، تپش ہوتی ہے، لیکن یہ پھیلی ہوئی گرمی جلاتی نہیں آگ نہیں لگاتی ۔ اور جب یہ روشنی یہ دھوپ ایک نقطے پہ مرکوز ہوتی ہے تو آگ لگتی ہے ، کاغذ جل اٹھتا ہے۔اصل میں سارا راز ایک نقطے پر مرکوز ہونے میں ہے ۔ خواہش ہو ، ارادہ ہو یا دعا ہو ،یہ ساری کی ساری ہماری وِل کی صورتیں ہیں ۔ جب تک ہمارے ارادے کی تپش کسی مرکز پر فوکس نہیں ہوتی وہ جلا نہیں سکے گی ، بھڑک نہیں سکے گی ، بھڑکا نہیں سکے گی۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اگر رات نہ ہوتی تو روشنی وجود میں نہ آتی۔
ہوائی اڈے کی بیسمنٹ میں تیسرا تاریک دن گزر رہا تھا۔ سب پاکستانی رخصت ہو چکے تھے اور میں تنہا بیٹھا سوچ رہا تھا کہ شاید میری دعا،میرے ارادے اور میری کوشش کسی ایک نقطے پر مرکوز ہو کر میرے واسطے روشنی نہیں لا سکی۔ جو جا چکے تھے وہ یوں رخصت ہوئے تھے جیسے میں ان کے لئے مکمل اجنبی تھا۔ قافلہ نکل جائے تو پیچھے چھوڑ جاتا ہے دھول مٹی کا گرد و غبار۔ دھول بیٹھتے بیٹھتے ہی بیٹھتی ہے۔ ابھی ہوا میں دھول بھری ہوئی تھی۔ سانس لینا عذاب ہو رہا تھا۔ راستہ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ ذہن ماوف ہو چکا تھا۔ بدن سے توانائی رخصت ہوا چاہتی تھی۔ مجھے نہیں یاد کہ کتنی دیر میں خالی ذہن کے ساتھ ہال کی اک دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہا۔ چھت سے آتی برقی قمقموں کی پیلی مدھم پڑتی روشنی سایہ بھی پیدا نہیں کر رہی تھی۔
آپ بتایئے، آپ کو ایک ہال میں بنا کوئی الزام لگائے قید کر دیا جائے۔ آپ کو کوئی خبر نہ ہو کہ آپ کو کیوں قید کیا گیا ہے اور آپ کو کب رہائی ملے گی۔ آپ کی قید کے ساتھی آپ کو پیچھے چھوڑ کر جا چکے ہوں۔ ان کو رہائی مل گئی ہو۔ آپ نے تین دنوں میں صرف ایک بدذائقہ برگر کھایا ہو اور اب آپ کے پاس صرف قید تنہائی ہو تو آپ کیا کر سکتے ہیں ؟ انسان صرف لو بلڈ پریشر کے مریض کی مانند آنکھ ایک جگہ ٹکائے ٹک ٹک دیکھتا نیم مردہ پڑا رہتا ہے۔
دھیان تب ٹوٹا جب ایک آواز میرے کان سے ٹکرائی۔ یہ ایک سیاہ فام لڑکا تھا جو میرے سر پر کھڑا تھا۔
“تمہارے پاس سگریٹ ہو گا ؟ مجھے ایک سگریٹ چاہییے بس۔ پلیز”۔ اس نے پلیز کہتے اپنے دونوں ہاتھ معافی کے انداز میں جوڑ دیئے۔ میں نے خود کو سمیٹا، کیمرا بیگ کا بیرونی خانہ کھولا جس میں سگریٹ کی ڈبیاں دھری ہوئی تھیں۔ ڈبی سے ایک سگریٹ نکال کر اسے دے دیا۔ اس نے سگریٹ سلگایا۔
“مین۔ تم ہمیں جوائن کر سکتے ہو۔ تم اپنا سامان لے کر ادھر آ جاو۔ میرا نام ایمانوئل ہے۔ میں زبردست گلوکار ہوں۔ ہاہاہاہاہاہاہاہا بلیو می۔ کہو تو ابھی گانا سناوں ؟ “۔ اس نے کھڑے کھڑے بات مکمل کر کے قہقہہ مارا۔
“نہیں۔ تمہارا شکریہ ایمانوئل۔ تم جاو اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرو۔ میں یہاں ٹھیک ہوں۔ مجھے نیند آ رہی ہے”۔ میں نے اسے بیٹھے بیٹھے جواب دیا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بس یہاں سے رخصت ہو جائے۔ اس وقت میرا کسی کے ساتھ بات کرنے کا دل نہیں تھا۔ میں بس اپنی جگہ پر بیٹھا رہنا چاہتا تھا۔
“اوہ مین۔ جیسے تمہاری مرضی۔ مجھے پتا ہے کہ تمہارے پاس قیمتی کیمروں سے بھرا بیگ ہے اور جیب میں ڈالرز ہیں شاید تم ہمارے پاس آنے سے اس لئے جھجھک رہے ہو”۔
مجھے اس سے ایسی بات کی توقع نہیں تھی۔ یہ بات میرے لئے جھٹکے کا باعث تھی۔ میں تو بس خالی دماغ کے ساتھ اکیلے بیٹھے رہنا چاہتا تھا۔ اندر جو بے چینی بھری تھی اس کو بہلانا چاہتا تھا مگر اس نے ایسی بات کر دی تھی جو خلاف توقع تھی۔ اس کے ذہن میں ایسا خیال کیوں آیا تھا ؟ شاید پرکھوں کو غلامی سے آزادی تو مل چکی تھی مگر خوف و وحشت کے جینز آزاد نسلوں میں منتقل ہو چکے تھے۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے کوئی یورپی یا امریکی میری شناخت اور مذہب جان کر مجھ سے ہچکچانے لگے اور میں اس کی تسلی کی خاطر کہوں ” ہاں میں پاکستانی ہوں اور مسلمان بھی مگر میں دہشت گرد نہیں ہوں جس سے تم جھجھکنے لگو”۔
“ارے نہیں ایمانوئل۔ میں نے ایسا سوچا بھی نہیں۔ میرے سب دوست کچھ دیر پہلے چلے گئے ہیں۔ میرا پاسپورٹ نہیں آیا۔ میں بس کچھ دیر اکیلا رہنا چاہتا تھا۔ اور کوئی بات نہیں”۔ میں نے اسے وضاحت دینا چاہی
“یس مین۔ مجھے معلوم ہے۔ میں دیکھ رہا تھا۔ تمہاری ٹکٹ بھی ہو جائے گی اب جب تک نہیں ہوتی تب تک کیا اکیلے بیٹھو گے؟ کم آن”۔ اس نے دو انگلیوں کو ہونٹوں میں دبا کر سیٹی مار دی۔ یہ حرکت شاید اس نے اپنے تئیں مجھے منانے یا ہنسانے کے لئے کی تھی۔
ایمانوئل کا تعلق سینیگال سے تھا۔ یہ چھ فٹ کا دبلا پتلا پھرتیلا لڑکا تھا۔ رنگت ظاہر ہے سیاہ اور آنکھیں پیلی۔ سر کے بال چھوٹے اور بھربھرے۔ کشادہ ماتھا۔ کلائی تا کہنی دونوں بازوؤں پر ٹیٹوز۔ اس کی دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ کسی جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اول تو کھڑا رہتا ، اگر بیٹھتا تو اس کی پاوں مسلسل ہلتے رہتے۔ وہ اپنے ملک کے باقی دوستوں کے ساتھ مل کر گروپ بنا چکا تھا۔ سینیگال کے متعلق بات شروع ہوئی، کبھی موضوع بدل کر فٹ بال پر چلا جاتا۔ یہ سب فٹ بال کے فین تھے۔ سگریٹ کا دور باتوں میں چلتا رہا۔ میں بس ان سب کی باتیں سنتا تھا۔ طبیعت بوجھل رہی مگر آہستہ آہستہ دل حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنے لگا۔
“مین۔ تم کو پتا ہے ہمارے ہاں بہت بڑے جوہڑ ہیں جن میں اینا کونڈا ہوتے ہیں۔ میرا ایک انکل اینا کونڈا کے پیٹ میں دو گھنٹے رہا۔ وہ اسے تب نگل گیا تھا جب وہ منہ اندھیرے فصل کو دیکھنے گیا تھا۔ خوش قسمتی سے انکل زندہ بچ گیا۔ اژدھا کو گاوں والوں نے چیر کر اسے پیٹ سے نکالا تھا۔ میں تب چھوٹا تھا پر مجھے وہ منظر یاد ہے”۔ ایک سیاہ فام لڑکے نے موبائل نکالا اور مجھے ایک تصویر دکھاتے بولا “یہ ہے میرا انکل۔ اس کی قسمت چیک کرو”۔۔۔
“یہ واقعی معجزہ ہے۔ خوش قسمت انکل ہے”۔ میں نے تعجب کا اظہار کیا
“یہ بھی اینا کونڈا کا پیٹ ہے۔ یہ ہال۔ یہ روسی اینا کونڈا ہے۔ ہم بھی اس پیٹ سے آج یا کل میں نکل جائیں گے۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا” ایمانوئل نے پھر قہقہہ مارا تو سب ہنسنے لگے اور اسی دوران ہال میں آواز گونجی ” بخاری، سید مہدی ؟ “۔ میں نام سن کر چونکا۔ ہال کے وسط میں نیلی وردی میں ملبوس ایک نوجوان افسر کھڑا تھا۔ میں بھاگ کر اس کے پاس پہنچا۔ “یس۔ میں ہوں”۔
یہ ایک ہینڈسم نوجوان افسر تھا۔ وردی پر ٹنگے بیج پر نام لکھا تھا “الیکزی”۔ اس نے پاسپورٹ پر لگی تصویر دیکھی، پھر مجھے دیکھا۔ مسکراتے ہوئے بولا “تمہاری داڑھی بڑھ چکی ہے۔ پاسپورٹ کی تصویر سے بہت مختلف نظر آ رہے ہو”۔
“جی ہاں، تین دن سے یہاں ہوں اور گھر سے چلے پانچواں دن ہے۔ میری واپسی کی ٹکٹ ہو گئی تو بتا دیں کب اور کس فلائٹ سے واپس جا رہا ہوں ؟ “۔
“مسٹر بخاری، ویلکم ٹو ماسکو”۔ اس نے ہنستے ہوئے پاسپورٹ آگے بڑھایا۔ میں نے فوری اس سے پاسپورٹ لیا۔ اس کے دوسرے صفحے پر انٹری کی مہر لگی ہوئی تھی اور ایک الگ سے کارڈ دھرا ہوا تھا۔ یہ امیگریشن کارڈ تھا جو روس ہر آنے والے غیر ملکی کو امیگریشن کے وقت جاری کرتا ہے اور واپسی پر وہ کارڈ امیگریشن کاونٹر پر لے لیا جاتا ہے۔
میں نفسیاتی و جسمانی طور پر تھک چکا تھا۔ میری حالت اچھی نہیں تھی۔ میں صرف و صرف گھر واپس جانا چاہتا تھا۔ روس سے مجھے نفرت ہو چکی تھی۔ میری سوچ کے کسی خانے میں بھی ماسکو جانے کا خیال نہیں تھا۔ میں تو دعا کر رہا تھا کہ یہ جلد از جلد مجھے ڈی پورٹ کر دیں۔ اب جب وہ نوجوان افسر مجھے ویلکم کہتے پاسپورٹ تھما رہا تھا تو میرے اندر کا غصہ بے قابو ہونے لگا۔ مجھے کس جرم میں تین دن رکھا گیا تھا ؟ اور اب کیوں چھوڑا جا رہا ہے ؟ یہ تین دن جو بیتے اس کا جواب کون دے گا ؟ ۔ اس وقت پاسپورٹ تھامے مجھے غصہ آ رہا تھا۔
“نہیں، بالکل نہیں، مجھے واپس پاکستان جانا ہے۔ میں ماسکو نہیں جانا چاہتا۔ مجھے واپسی کی ٹکٹ چاہیئے۔ میں یہاں سے کہیں نہیں جانے والا جب تک مجھے واپسی کی ٹکٹ نہ دے دی جائے”۔ شاید اس وقت میں جذباتی ہو گیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میرا جسم کانپنے لگا تھا اور جواب دیتے آنکھیں بھر آئیں تھیں۔ اس نوجوان نے میرا جواب سنا، میری حالت دیکھی ، اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے تئیں تسلی دینا چاہی۔
“دیکھو، میں تمہارے احساسات سمجھ سکتا ہوں۔ میں خود ایک ملازم ہوں۔ میرے ذمہ یہ کام ہے کہ تم کو اپنے ساتھ ہوائی اڈے سے باہر تک لے چلوں۔ چلو اپنا سامان اٹھاو۔ ہم ابھی چلیں گے”۔
“نہیں، میں یہاں سے نہیں جاوں گا۔ میں واپس اپنے ملک جاوں گا۔ آپ جائیں اور اپنے افسر کو بتا دیں کہ وہ شخص نہیں جانا چاہتا۔ میری واپسی کی ٹکٹ مجھے چاہیئے بس”۔
سیاہ فاموں نے صورتحال کا نوٹس لیا اور وہ اردگرد جمع ہونے لگے کہ آخر ان دونوں کے بیچ کیا بحث چل رہی ہے۔ افسر نے میری کلائی پکڑی۔
“اچھا۔ میرے ساتھ اس ہال سے باہر تک آو۔ ہم وہاں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ پلیز”۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں سمجھ چکا تھا کہ وہ اس بھیڑ سے الگ ہو کر بات کرنا چاہتا ہے۔ میں نے بیگ اٹھایا اور ہال کے دروازے سے نکل گیا۔ دروازے کے باہر سیکیورٹی گارڈز تھے۔ وہاں کافی کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان پر ہم دونوں بیٹھ گئے۔
“مسٹر بخاری، میرا نام الیگزی ہے۔ مجھے پتا ہے تم تین دن سے یہاں ہو۔ مجھے ابھی کہا گیا ہے کہ تم کو ساتھ لے کر باہر تک چلا جاوں۔ دیکھو، تمہارا غصہ شاید ٹھیک ہے۔ تمہاری جگہ میں ہوتا تو شاید ایسا ہی کرتا۔ میں تمہاری بات سمجھ سکتا ہوں۔ اس سٹاف میں کام کرتے روزانہ بہت کچھ دیکھتا ہوں، ان سب غلط حرکتوں کو برداشت کرتا ہوں، چپ کر کے آرڈرز فالو کرتا ہوں۔ اور کیا کر سکتا ہوں ؟ تم بتاو تم کہیں جاب کرتے ہو ؟ کرتے ہو تو تم میری بات سمجھ جاو گے”۔ الیگزی نے سنجیدہ لہجے میں بات کرنا شروع کی۔ اس کے چہرے اور بات سے دکھ جھلک رہا تھا۔
“جی ہاں، آپ کی مجبوری سمجھ سکتا ہوں۔۔آپ اپنی جاب کر رہے ہیں۔ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں بس چیف امیگریشن آفیسر کو بتا دیں کہ وہ بندہ نہیں جا رہا۔ وہ پاکستان جانا چاہتا ہے”۔ میں نے خود پر قابو پاتے دھیمے لہجے میں اسے کہا۔
“دیکھو، گھڑی دیکھو۔ رات ہو رہی ہے۔ میری شفٹ ختم ہو چکی ہے۔ برائے مہربانی تم یہاں سے اٹھو میرے ساتھ چلو۔ میری ذمہ داری ہے تم کو باہر تک چھوڑنا۔ میں تمہارے لئے ہی بیٹھا ہوں۔ میں بھی گھر جاوں۔ تم بھی جا کر آرام کرو۔ ہوٹل جانا ہے تو چھوڑ دیتا ہوں۔ اگر ہوٹل نہیں ہے تو میرے اپارٹمنٹ میں رات آرام کر سکتے ہو۔ یہاں سامنے سیکیورٹی کیمرا لگا ہے یہاں تمہارے ساتھ زیادہ دیر بیٹھ کر بات کرنا میرے لئے ممکن نہیں۔ چلو اٹھو ، یہاں سے باہر نکلیں۔ آو باہر بیٹھ کر سافٹ ڈرنک پیتے ہیں وہاں بات کرتے ہیں۔ پلیز یہاں سے چلو، میرے لئے اور اپنے لئے مشکل پیدا نہ کرو”۔ الیگزی نے ملتجانہ لہجے میں کہا۔
اس کی صورت دیکھ کر اور اس سے بات کر کے میرا غصہ کچھ مانند پڑنے لگا تھا۔ وہ ایک پڑھا لکھا جوان تھا۔ انگریزی اچھی تھی اور مسلسل مجھ سے ریکوئسٹ کر رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس کی بات مان لوں۔ میں فیصلہ کرنے کو چپ ہوا۔
“تمہارے پاسپورٹ پر انٹری سٹمپ لگ چکی ہے امیگریشن کارڈ ایشو ہو چکا ہے اب تم کسی صورت ڈی پورٹ نہیں ہو سکتے۔ اچھا تم نے اپنے گھر جانا ہے ناں ؟ میرے ملک نے اچھا سلوک نہیں کیا تمہیں روس سے نفرت ہو گئی ہے ناں ؟ تم بالکل ٹھیک ہو، یہاں سے ابھی چلتے ہیں۔ باہر جا کر اپنی واپسی کی ٹکٹ تم خود بدل سکتے ہو۔ جو پہلی فلائٹ تم کو ملے واپس چلے جاو۔ چاہے صبح ہی چلے جاو۔ اب اٹھو یہاں سے نکلیں”۔
“اچھا، چلتے ہیں۔ مجھے گڈ بائے کہنے ہال میں جانا ہے۔ میں اندر سے ہو کر آیا”۔ اس نے یہ سن کر خوشی سے اجازت دے دی۔ میں اندر گیا۔ سگریٹ کی دو ڈبیاں بیگ سے نکالیں۔
“ایمانوئل یہ تمہارے لیئے۔ میں جا رہا ہوں۔ شاید زندگی میں دوبارہ نہ ملنا ہو۔ گڈ بائے”۔ وہ پانچ نوجوان ہینڈ شیک کر کے گلے ملے اور مجھے گڈ بائے کہنے لگے۔ وہاں سے نکلا۔ الیگزی اور میں چپ چاپ چلتے امیگریشن کاونٹر سے گزر کر باہر آئے۔ وہاں سے سفری بیگ کے حصول کے لئے سٹوریج سیکشن کا رخ کیا۔ میں نے اپنا بیگ وصول کیا۔ ہوائی اڈے کے اندر بنی ایک کافی شاپ پر الیگزی نے اپنے لئے کوک اور میرے لئے کافی آرڈر کر دی۔
“ایسا سوچنا میرے لئے بہت تکلیف دہ ہے کہ میں کسی ملک سیاحت کے لئے جاوں اور مجھے قید کر دیا جائے۔ مگر تم کو ایک بات کہوں برا نہ منانا۔ یہاں ہمارے ملک میں پاکستان، افریقہ، عراق، شام، اور کچھ دیگر ممالک کے لوگ آ کر واپس نہیں جاتے۔ کچھ تو غائب ہو جاتے ہیں جن کا سراغ نہیں ملتا اور کچھ یہیں غیرقانونی طور پر چھپ چھپ کر بسنے لگتے ہیں۔ چھوٹے موٹے کام کرنے لگتے ہیں۔ سٹریٹ کرائمز میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے تم سمجھ سکتے ہو کہ امیگریشن سخت ہوتی ہے۔ پھر بھی میں تمہاری سائیڈ پر ہوں کیونکہ تین دن کافی زیادہ ہوتے ہیں۔ یا تو ویزا دینے کے بعد انٹری دے دی جائے یا پھر وہیں جلد فیصلہ کر کے واپس بھیج دیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے ممکن نہیں ہوتا۔ تم کو بتاو ہم روسی ناں بہت سست ہیں۔ Lazy Asses”۔ اور یہ کہتے اس نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی پشت پر مارا۔ پھر قہقہہ لگاتے سیٹ پر بیٹھ گیا۔
“تمہارا شکریہ، تم سمجھتے ہو۔ تم نے کونسی ڈگری لی ہے اور کہاں سے لی ہے ؟ تمہاری انگریزی اچھی ہے”۔
“انگریزی، ہاں، میں نے ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ہے۔ اس کے بعد نوکری مل گئی ہے۔ یہاں کام کرتے مجھے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے۔ سچ بتاوں میں اس نوکری سے خوش نہیں۔ سوچ رہا ہوں اسے چھوڑ دوں اور فری لانسنگ پر توجہ دوں۔ میں پروگرامر بھی ہوں۔ جاوا لینگویج میں پروگرامز ڈیزائن کرتا ہوں مگر نوکری کے سبب فری لانس پراجیکٹس کے لئے وقت نہیں ملتا۔ میری نوکری سخت ہے۔ ہم سے بارہ بارہ گھنٹے کی شفٹ لی جاتی ہے جبکہ اصولی طور پر آٹھ گھنٹے ہونے چاہییے۔ اوور ورک کا معاوضہ بھی نہیں ملتا۔ وہی فکس تنخواہ ملتی ہے۔ تم اندازہ لگاو میری تنخواہ کتنی ہو گی ؟ “۔
“اچھا۔ یہ جان کر مجھے حیرت ہوئی۔ تمہاری تنخواہ ہو گی 40 سے 45 ہزار روبلز (80 سے 90 ہزار پاکستانی کے مساوی)۔”۔ میں نے اندازہ لگایا کہ امیگریشن افسر ہے اتنی تنخواہ تو ہو گی۔
“ہاہاہاہا۔ 28 ہزار روبلز (56 ہزار پاکستانی) ۔۔ اور سنو اور دانتوں میں انگلیاں دبا لو۔ اس میں سے لگ بھگ 12 ہزار روبلز ٹیکسز اور دیگر مد میں کٹ جاتا ہے۔ باقی بچتا ہے 16 ہزار روبلز (32 ہزار پاکستانی)۔ اب بولو۔ تم بتاو۔ ایک امیگریشن افسر کیا کرے گا اس تنخواہ میں ؟ “۔ اس نے کوک کا گھونٹ بھرا اور میرے جانب دیکھنے لگا۔
“یہ تو بہت کم تنخواہ ہے۔ میرے ملک میں شاید اس سے زیادہ تنخواہ ہوتی ہے”۔
“وہی تو، وہی تو۔ بتاو امیگریشن افسر کیا کرے گا ؟ تمہارے ملک میں کیا ہوتا ہے ؟ ” اس نے میز پر ہاتھ مارتے پوچھا
“رشوت ؟ “۔
“ہاہاہاہا۔ ہاں بالکل۔ رشوت۔ یہاں انڈر دی ٹیبل یہی ہوتا ہے۔ ہاں مگر یہ یاد رکھنا۔ اتنا کھلا بھی نہیں کہ کوئی اپنے منہ سے تقاضہ کرے اور اتنا آسان بھی نہیں کہ کوئی جا کر سیدھا کہہ دے کہ مجھ سے پیسے لے لو میرا کام کر دو۔ بس ذرا اچھے طریقے سے بات کرنا ہوتی ہے کہ سر!!! میں آپ کو تحفہ دینا چاہوں گا، آپ پلیز میری صورتحال سمجھیں۔۔۔ بس ہو گیا کام۔ ”
“اچھا۔ سمجھتا ہوں۔ تم بھی یونہی کرتے ہو ؟ مائنڈ نہ کرنا میں بس سمجھنا چاہ رہا ہوں۔ اگر یہ بات معلوم ہوتی تو میں پہلے دن ہی امیگریشن افسر کو کہہ دیتا کہ سر میری صورتحال سمجھیں !!! ” میں نے اب قہقہہ لگاتے الیگزی کو کہا۔
“ہاہاہاہا، نہیں میں نے آج تک ایسا کام نہیں کیا۔ میری ماں یہاں ایک ادارے میں ڈائریکٹر ہے۔ اس کی تنخواہ اچھی ہے۔ میں ماں کے ساتھ رہتا ہوں۔ مجھے گھر کا رینٹ نہیں دینا۔ مجھے گروسری نہیں لینی۔ میرے بہت سے اخراجات ماں کی وجہ سے نہیں ہوتے۔ تنخواہ بس میرے ڈرنکس اور آمد و رفت میں خرچ ہوتی ہے۔ اور ہاں بخاری، میں نے شادی نہیں کی نہ کوئی گرل فرینڈ ہے۔ سب سے بڑا خرچہ تو یہ ہوتا ہے ہاہاہاہاہاہاہاہا” ۔ وہ ہنستا ہی گیا۔
“اچھا۔” میں نے ہنستے ہوئے کہا اور چپ ہو گیا۔
“تم ماسکو جاو۔ امیگریشن نے جو کیا میں یقین دلاتا ہوں کہ عوام ایسی نہیں۔ امیگریشن الگ شے ہے اور روسی لوگ بالکل الگ۔ مجھے یقین ہے تم کو روس پسند آئے گا۔ تم کو احساس ہو جائے گا کہ ائیرپورٹ سے باہر کی دنیا خوبصورت ہے۔ مجھے یقین ہے تم وطن واپس جانے کی ضد چھوڑ دو گے۔ ماسکو جاو۔ گورکی پارک جاو۔ کریملن جاو۔ انجوائے کرو۔ ایک راز کی بتاوں ؟ “۔ اس نے سوالیہ انداز میں کہا اور چپ ہو گیا۔ شاید وہ سننا چاہتا تھا کہ میں کہوں ہاں بتاو۔
“ہاں بتاو”۔
“گورکی پارک میں شام کو کام سے فری ہو کر کیا خوبصورت لڑکیاں آتی ہیں۔ گورکی پارک جانا۔ موج کرنا۔” اس نے اپنے تئیں مجھے ہنسانے کو کہا تھا۔
“اچھا۔ جاوں گا۔ ” میں اسے ہنستے ہی دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ بالکل بچوں جیسا ہنستا تھا۔
“تم ہوٹل جاو گے ؟ بکنگ ہے ؟ ” اچانک اس نے پوچھا۔
“ہاں۔ بکنگ ہے”۔
“چلو۔ آرام کرو جا کر۔ مجھے گھر جا کر ایک پروگرام پر کام کرنا ہو گا۔ کلائنٹ سے پہلے ہی تاخیر کے سبب شرمندہ ہو چکا ہوں۔”۔
اس نے مجھے اپنا نمبر دیا جو میں نے موبائل میں محفوظ کر لیا۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ ماسکو میں سورج ڈھل رہا تھا۔ الیگزی گلے مل کر رخصت ہوا اور جاتے جاتے پلٹ کر بولا “ہم جلد ماسکو میں دوبارہ مل رہے ہیں”۔
میں نے ٹرمینل سے باہر نکل کر دیکھا۔ماسکو کا آسمان شفاف تھا۔ ہوا میں تازگی بھری تھی۔ سورج کی روپہلی کرنیں سٹیل کے ڈھانچوں کو تانبے میں ڈھال رہی تھیں۔ اس تازہ ہوا میں لمبی سانس بھرتے میں نے آنکھیں موند لیں۔ قید ختم ہو چکی تھی۔ آنے والے دنوں نے میری میزبانی کرنی تھی۔ مجھے ایسے لوگ ملنے تھے جو تاعمر یاد رہنے والے ہیں۔ یادگار لوگ۔ بے مثال لوگ۔ مسافر کی زندگی کا کل اثاثہ۔ کچھ باتیں، کچھ دوستیاں، کچھ سفر میں بیتے پل۔۔۔ سامنے جھیل بائیکال تھی، ماسکو کریملن تھا، کازان کی کل شریف مسجد تھی، سینٹ پیٹرزبرگ کی گہماگہمی تھی، عبادت گاہیں تھیں، فن کے لازوال نمونے تھے۔ سب سے بڑھ کر ابھی ٹھنڈی ہوا تھی جو جسم کو راحت بخش رہی تھی۔ یہاں سے میرے سفر کا نیا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ ایک ٹیکسی سامنے آن رکی۔ ڈرائیور بھاگا بھاگا آیا۔ اس نے دونوں ہاتھ آگے باندھے اور چہرے پر مسکان سجاتے بولا
“ویلکم تو ماسکوا” (ماسکو کو مقامی زبان میں ماسکوا کہتے ہیں)۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply