​باپ بیٹے کا پیچیدہ مسئلہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں چاہتا ہوں کہ ایک دن
اپنےننھے بیٹے کے ننھے سائز کے بُوٹ پہنوں
اور اس کی آنکھوں سے خود کو دیکھوں

طوالتِ قد میں کتنا اونچا
دکھائی دیتا ہوں؟
اس کا احساس اس کو اچھا ہے یا برا ہے؟
درست کیا ہے
کہ اس کی ناراضگی سے ڈرتا ہوں میں ہمیشہ؟
کہ اس کے رونے سے خوف کھاتا ہوں میں سدا ہی؟
کہ کیا اسے یہ پتہ ہے ۔۔۔ اس کی
تمام ننھی شرارتوں کو قبول کرنے
کا معترف ہوں؟

درست کیا ہے؟
کہ اس کا انگلی پکڑ کے چلنا
فقط اسی کے لیے تحفظ کا ایک احساس ہے ۔۔۔
کہ میں اس کے ساتھ ہوں ۔۔۔یا
اسےیقیں ہے کہ اس کے برعکس
ایسے کرنا مری تسلی کے واسطے ہے۔
درست کتنا ہے
اس کا میرے لیے رویہ
جو اس کا ماں کے لیے رویے سے مختلف ہے؟
کہ نسبتاً ماں کی نرم خفگی
جو گھُلتی جاتی ہےآنسووں میں
اسے زیادہ پسند آتی ہے
آمرانہ سلوک سے جو کہ مجھ سے ملتا ہے
ایسے شاید وہ سوچتا ہو

Advertisements
julia rana solicitors

یہ باپ بیٹے کا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے
جسے سمجھنے کے واسطے اپنے چار سالہ
شریر بچے کے ننھے بوٹوں میں پاؤں رکھ کر
مجھے ذرا دیر اس کی آنکھوں سے
باپ کو دیکھنا پڑے گا۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply