کراچی شہر کا نوحہ۔۔شیر علی انجم

گزشتہ مردم شماری کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ سے زائدبتایا گیا ہے۔مگر کراچی کے عوامی نمائندے اور کچھ غیرسرکاری ادارے اس اعداد شمار کو تسلیم کرنے سے انکارکرتے ہیں۔ اُنکا الزام ہے کہ کراچی کی آبادی کو سازش کے تحت کم دکھایا ہے۔ جس کا مقصد کراچی کے شہریوں کوبنیادی حقوق سےمحروم رکھنا ہے۔ دو سال پہلے کی ایک اور رپورٹ کے مطابق1981ء میں کراچی کی آبادی 54 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اور آج ایک کروڑ 70 لاکھ ہے۔ 1978ء میں کچی آبادی 20 لاکھ تھی اور آج ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ 2005ء میں گاڑیوں کی تعداد 23 لاکھ 59 ہزار 256 تھی اور 2018ء میں یہ تعداد 46 لاکھ 42 ہزار 196 تک جا پہنچی تھی۔ 1995ء میں جہاں موٹر سائیکلوں کی تعداد 3 لاکھ 61 ہزار 616 تھی وہیں 2018ء میں یہ تعداد بڑھ کر 28 لاکھ 56 ہزار 704 ہوگئی۔ دوسری طرف گزشتہ 40 برسوں میں کراچی کا شہری پھیلاو بھی دگنا ہوچکے ہیں۔غیر ملکی اخبار بلومبرگ میں نومبر 2020 کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کےسو شہروں میں موجود ٹرانسپورٹ کے نظام میں کراچی کا نظام بدترین ہے۔کہتے ہیں کراچی میں سڑکوں کا جال تقریباً دس ہزار کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے لیکن ان سڑکوں کا شائد ہیبیس فیصد حصہ ایسا نہیں جو شہر کی ضرورت اور عالمی معیار کے مطابق تعمیر کرکے دیکھ بھال ہورہا ہو۔یوں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کراچی کے مسائل کی حل کیلئے جن افراد کو مینڈیٹ ملی تھی اُنہوں نے اپنے لئے تمام قسم کےآسائشوںکا انتظامات مکمل کرکے کوئی اندورون اوربیرون ملک سیٹل ہوگئے۔ لیکن کراچی کے باسیوں کا آج بھی کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت اوراس شہر کی بدقسمتی ہے کہ اس شہر کو ماضی سے لیکر آج تک جہاں پاکستان پیپلزپارٹی نے دیوار سے لگائے رکھا ،وہیں وفاق پاکستان نے بھی کراچی کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا ۔وزیراعظم عمران خان کا کراچی کیلئے اعلان کردہ 11 سو ارب روپے کے پیکج کا وجود بھی عملی طور پر کہیں نظر نہیں آرہا۔
کراچی کے باسی ہمیشہ سے کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں کیونکہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے کراچی والوں کیلئے سرکاری اداروں میں دوازے بند ہیں۔اس وقت کراچی میں موجود کسی بھی سرکاری دفتر میں دیکھیں تو کراچی والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر نظر آتا ہے۔ شہر کے تمام ڈپٹی کمشنر ز، اسسٹنٹ کمشنر زسے لیکر محکمہ پولیس اور ٹریفک سمیت اہم سرکاری اداروں میں بھی کراچی والوں کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کراچی والوں کیلئے کوٹہ سسٹم کی وجہ سے سرکاری اداروں میں روزگار کے مواقع بند ہیں۔ کراچی کے شہریوں کے پاس نجی شعبہ ہی واحد روزگار کا ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے اس وقت حکومتی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں نجی شعبہ بھی زبوں حالی اور شدید بحران کے شکار ہیں۔لیکن کوئی توجہ دینے والا نہیں فقط سیاسی نعروں سے اس شہر کا پورا نظام چلایا جارہا ہے۔
کراچی جسے غریبوں کی ماں کہا جاتا ہے لیکن اس شہر میں کچرا اٹھانے کا نا قص انتظام، برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونا اور برساتی نالوں پرلامتناہی تعمیرات(سپریم کورٹ کی جانب سے حالیہ نوٹسکے بعد تجاوزات کی خاتمے کیلئے کچھ حد تک کام ہورہا ہے)، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں، سرکاری ہسپتالوں کی خستہ حالی،نجی ہسپتالوں کی لوٹ مال،بجلی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے مشہور بزنس ایریاآئی آئی چندریگر روڈ جہاں تمام بنکوں کے ہیڈ آفس ہیں پر بھی مسلسل لوڈ شیڈینگ اور مخصوص علاقہ جات کیلئے بغیر کسی تعطل بجلی کی فراہی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں۔ سڑکوں کی اگر بات کریں تو شاہراہ فیصل جہاں چوبیس گھنٹے وی آئی پی مومنٹ ہوتی ہے،اس روڈ کے کئی مقامات پربھی بیچ سڑک میں گڈے پڑے ہوئے ہیں ۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ کراچی کے دیگر عوامی گزرگاہوں کا کیا حال ہوگا۔ اس علاوہ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے کھٹارے بسوں کی شہر کی سڑکوں پر بدمعاشی یوں سمجھ لیں ان مزدے والوں نے اپنے لئے الگ اپنی مرضی کا قانون بنا رکھا ہے ۔ شہر کی سڑکوں پر اگر اچھی بس نظر آئے تو ٹریفک پولیس کا بلاوجہ تنگ کرنا معمول بن چُکی ہے۔ راقم نے شہر کے کئی بس والوں سے اس حوالے سے گفتگو کی تو اُنکا کہنا تھا ہم نے عوام کیلئے اچھی بس سروس شروع کی لیکن ہمیں روز بلاوجہ وجہ ٹریفک پولیس کی جانب سے تنگ کیا جاتا ہے،جبکہ کھٹارے قسم کے مزدے والوں کو پوچھتے ہی نہیں ہے چاہئے وہ جس طرح بھی روڈ پر ریس لگائے کیونکہ ان کے ساتھ اُنکا ماہانہ فکس ہوتا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ اس وقت سڑکوں پر ٹریفک کو روانی رکھنے کیلئے مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کئی کئی گھنٹوں تک جام رہنا معمول بن گئی ہے لیکن ٹریفک کی روانی کو جاری رکھنے کیلئے ٹریفک کے پاس کوئی انتظام نہیں۔ پس شہریوں کا روزنامہ کم بیش قیمتی تین گھنٹے سڑکوں پر ضائع ہوجاتی ہے۔ لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ اس وقت کراچی میں پارکینگ مافیا کا راج ہے ۔ آپ شہر کے کسی بھی علاقے میں چلےجائیں، کہیں بھی جا کر کسی شاپنگ مال، مارکیٹ ،دفاتریا گلی میں بھی گاڑی یا موٹر سائیکل پارک کر دیں تو کوئی نہ کوئی چھلاوے کی صورت نمودار ہوگا، خود کو اس سڑک کا ’ذمہ دار‘ ظاہر کرے گا اور آپ کو پابند کرے گا کہ آپ پارک کرنے کی فیس موٹر سائیکل کیلئے بیس جبکہ گاڑی کیلئے سو رروپے ادا کریں جوکہ روزانہ کروڑوں بنتا ہے لیکن یہ رقم سرکاری خزانے کے بجائے مافیا کے جیب میں جارہا ہے۔شہر کے تمام شاپنگ مال، کاروباری مراکز، دفاتر، مارکیٹس اور تفریحی مقامات کے قریب پارکنگ مافیاباقاعدہ جو ایک باضابطہ طور پر وضع کردہ نظام کے تحت اپنا دھندہ کرتے ہیں جس میں انہیں مبینہ طور پر سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتا ہے اور پولیس کے موبائل کا ان تمام پارکینگ کے مقامات پر باقاعدہ پیٹرولینگ کرتے ہیں جو خود ان پارکینگ مافیا کیلئے کام کرنے والوں کے مطابق نگرانی کرتے ہیں۔
حالیہ ہلکی سے بارشوں نے بھی گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی حکومتی وجود اور انتظامات کی قلعی کھول دی ہے۔ ذیادہ تر علاقوں میں تاحال پارش کے پانی جمع ہیں جس سے بیماریاں پھیلنے کا بھی شدید خدشہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ کیا کراچی میں بلدیاتی ادارے نہیں ہے؟ بلکل شہر کی صفائی کیلئے کئی ہزارکی تعدادمیں لوگ سرکاری خزانے سے تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن بات پھر وہی بات، چونکہ کراچی کا کوئی والی وارث نہیں اس وجہ سےجن کی ذمے شہر کی صفائی تھی انکا وجود بھی سال میں رمضان کے عید،بکرا عید،محرم اور بیع اول میں کہیں نہ کہیں نظر آتا ہے۔اسی طرح صحت و تعلیم کی سہولیات کی کمی، پینے کے صاف پانی کا مسلہ، بجلی کی شدید کمی، شہر کا بے ہنگم پھیلاؤ، شہر میں کھلی جگہوں اور کچی زمین کی کمی اور ساتھ ہی ، شہری سیلاب کا مسئلہ اور نشیبی مقامات اور نکاسی آب مسدود کرنے والے مقامات کی نشاندہی وغیرہ کا الگ نوحہ ہے۔یعنی اس وقت شہر کراچی میں مسائل زیادہ ہیں جبکہ وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر جو ہیں تو ان کا درست استعمال کہیں نظر نہیں آرہا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ شہرکراچی میں منصوبہ بندی کے تحت بنیادی ڈھانچے اور انتظامی معا ملات میں بہتری لائی جائے۔ جس کے لیے مناسب فنڈز اور متعلقہ پیشہ ور افراد اور ماہرین کی شمولیت ضروری ہے۔یعنیشہر کراچیمیں ایک با اختیار مقامی حکومت یقینی بنانا وقت کا اہم تقاضا ہے جن کے پا س شہر کی آمدنی کو بروئے کار لاتے ہوئے شہر کے وسائل شہر پر خرچ کرنے کیلئے مکمل اختیار ہو ۔ ایسا ہوا تو کراچی سنگاپور،ہانک کانگ اور استنبول بن سکتا ہے ورنہ پورا کراچی اگلے چند سالوں میں گجر نالہ بن جائے گا۔
تحریر :

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply