بہاؤ(مستنصر حسین تارڑ)-تبصرہ/ظفر اقبال وٹو

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک گرم رات کو آپ سائیڈ ٹیبل پر پڑے گلاس کو پانی پینے کے لئے ہاتھ لگائیں اور گلاس کی ٹھنڈک کے نشان سے یہ احساس ہو کہ بیرونی حصے میں پانی کی ٹھنڈ یا نمی وہاں محسوس نہیں ہوئی، جہاں پہلے ہوا کرتی تھی۔ جب آپ نے پانی پیا ہی نہیں تھا تو پھر یہ گلاس میں پانی کیوں کم ہو گیا ہے؟ آپ دس سال تک اس بات کی تحقیق میں گزار دیں اور پھر یہ “کیوں ” کی جستجو ہی آپ سے اردو زبان کے ایک شاہکار ناول کی تخلیق کروا دے۔

“بہاؤ” اردو زبان میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر لکھا جانے والا وہ ناول ہے جسے ابھی تک ماحولیات کی بجائے صرف وادیء سندھ کی تہذیب کے حوالے سے پڑھا اور سمجھا گیا ہے۔ یہ مستنصر حسین تارڑ صاحب کی وہ تخلیق ہے جو ان کی بطور ناول نگار پہچان بنی لیکن ان کا اصل کمال یہ ہے کہ آج سے تیس پینتیس سال پہلے گلاس میں پانی کم ہونے کے ایک چھوٹے سے اشارے کو سمجھ کر انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں پر اس وقت ایک شاہکار ناول لکھ مارا کہ جب ملک میں ماحولیات سے متعلق تشویش صرف ایک چھوٹی سی انجنئیرنگ کمیونٹی تک محدود تھی۔

ناول کا آغاز ہی ایک پرندے کی چولستان میں زندگی کی طرف اڑان سے ہوتا ہے جس کے اپنے علاقے میں پانی ختم ہو چکا۔ صحرا نے پھیل کر سبزے کو کھا گیا اور اب ہر طرف موت ہی موت ہے اور جان بچانے کے لئے یہ پرندہ اب پانی ڈھونڈتا ہے اور اسی تگ و دو میں جب اس کی ہمت جواب دینے کے قریب ہوتی ہے تو وہ دریائے گھاگرا کے کنارے ایک بے نام بستی کی خشک ہوتی جا رہی جھیل کے سراب میں زمین پر جا گرتا ہے۔

وہاں بیٹھی ناول کی ہیروئن اسے ایک ہاتھ میں اٹھا کر اس کی کھلی چونچ میں پانی ٹپکاتے ہوئے کہتی ہے کہ “تم بھی اس جھیل پر مرنے کے لئے آ گئے ہو”۔ یعنی بستی کے لوگ دور دراز سے اڑ کر اس جھیل پر آنے والے پیاسے پرندوں کو روز مرتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کا دھیان اس طرف نہیں جا رہا ہوتا کہ آس پاس کے علاقوں میں پانی ختم ہونے کی وجہ سے یہ پرندے ادھر دھڑا دھڑ پیاسے آ کر گرتے ہیں تو ایک دن ہمارے علاقے میں دریائے گھاگرا کا پانی بھی خشک ہو سکتا ہے۔

اس سے اگلے حصے میں گلیشئرز سے پانی کے زور سے ٹوٹ کر علیحدہ ہو جائے والے بوٹے کے سفر کا بیان ہے جو پہاڑ سے اتر کر پہلے برفیلے پانیوں اور پھر میدانی علاقے کے ٹھہرے ہوئے گدلے پانیوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے بالآخر اس گمنام بستی میں دریائے گھاگرا میں غسل لیتی ناول کی ہیروئن کے بدن کو جا چھوتا ہے جہاں وہ اس کے لمس، شکل و صورت سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ یہ گلیشئرز سے پہنچا ہے اور بڑے پانی (سیلاب) آنے کو ہیں۔

تاہم بہت سال بعد جب اوپر ہمالیہ پر گلیشئرز پر برف کے تو دے ٹوٹنے سے پانی کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے تو اس وقت وہاں سے ٹوٹنے والا بوٹا بڑی تگ و دو کے بعد برف میں سے راستہ بنا کر نکل پاتا ہے اور میدانی علاقوں میں جانے کا سفر طے کرنے کے لئے پانی بہت کم ہوتے ہیں تو یہ بوٹا راستے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس دفعہ کم پانی میں نہاتی پاروشنی اس بوٹے کی حالت زار سے یہ اندازہ لگا لیتی ہے کہ بڑے پانیوں کے رستے اوپر رک چکے اور اب وہ کبھی نہیں آئیں گے۔

تاہم اس ساری ماحولیاتی تبدیلی کو سمجھتے ہوئے بھی بستی کے لوگ دریائے گھاگرا اور ہاکڑا کے منبع بلند علاقوں (گلیشئرز) کی طرف سفر کر کے اس کو سمجھنے اور پانی کا رخ تبدیل ہو جانے والے نئے علاقوں کی طرف نکل جانے کا تردد نہیں کرتے بلکہ اپنے علاقے میں ہی مرنے سڑنے کے لئے پڑے رہتے ہیں۔ ناول کے ایک ہیرو سمرو کو بھی رات کو برتنوں میں رکھے پانی کا گرمی کی وجہ سے کم ہوتے جانے کا احساس ہو رہا ہوتا ہے اور وہ دریا کو بھی کم ہوتا بغور دیکھ رہا ہوتا ہے۔

وہ اپنے انداز میں بستی والوں کو یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ میں دریاؤں کو سوکھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں مگر اس کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور کہا جاتا ہے کہ وہ خواب دیکھتا ہے یا اسے نیند میں چلنے کی عادت ہے لیکن ایک دن واقعی یہ ہو جاتا ہے۔ دریا خشک ہو جاتے ہیں۔ ناول میں دریا گھاگڑا میں سال کے مختلف اوقات میں پانی کے بہاؤ کی کیفیات اور پانی کی سطح کی حدود کو خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

اور پھر اس میں مختلف سالوں میں آنے والی تبدیلیوں جیسے پہلے پہل پانی کا ہمیشہ کی طرح کناروں سے نکل کر پاس پڑوس کی زمینوں تک نہ جانا پھر کچھ سال بعد سکڑ کر کناروں کے اندر سمٹ جانا اور پھر کناروں میں بھی آہستہ آہستہ نیچے چلے جانا، ایک گدلی ندی میں تبدیل ہو کر بالآخر خشک ہو جانے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگل اور پودے بھی کم ہو رہے ہوتے ہیں لیکن بستی کے لوگ یہ سب دیکھتے بھالتے ہوئے بھی صرف ان نشانیوں کے بارے گفتگو کرتے رہتے ہیں لیکن عملی اقدام کرتے نظر نہیں آتے۔

یہ لوگ پانی کی بولی سمجھتے ہیں۔ اس کے بہاؤ اور موڈ کو بھی سمجھتے ہیں بلکہ انہیں تو اس وقت بہنے والے سندھو دریا کے سات بھائیوں تک کا پتہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا منبع ایک ہے۔ وہ اپنے دریا کے بہاؤ کو اوپرا ہوتے دیکھتے ہیں مگر سمجھ نہیں پاتے کہ ایسا کیونکر ہو رہا ہے؟”ہر شے اپنی اپنی جگہ تھی تو اب مینہ کیوں نہیں برسا۔ بڑے پانی کیوں کم ہو گئے؟”

انہیں ماحولیاتی تبدیلی کا بھی احساس ہو رہا ہوتا ہے۔ جیسے یہ لائن ملاحظہ فرمائیں۔ “کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری بستی میں اب گرمی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ پانی کو سکھاتی ہے۔ پر نہیں۔ رت کیسے بدل سکتی ہے؟” ٹھنڈے مہینوں جیسے پوہ، ماگھ کی دھوپ میں بھی چبھن آنا شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ درختوں، ٹہنیوں پر سالہا سال سے دھول جم چکی ہوتی ہے۔ درختوں کے نیچے کا گھاس پھوس بھی سوکھ جاتا ہے۔ کم پانی والی کانٹے دار جھاڑیاں نمودار ہو چکی ہوتی ہیں۔

ناول میں دریاؤں کے کنارے بستیوں، جنگلات اور سبزے کے نظام اور ان میں بسنے والے جانوروں، پرندوں اور حشرات تک کو ایک پورے ایکو سسٹم بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو کہ ایک دوسرے پر پل رہے ہوتے ہیں۔ مردہ انسانوں اور جانوروں کا گوشت پرندے اور حشرات کھاتے ہیں انسان درختوں، پودوں اور فصلوں پر گزارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جب ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ ایکو سسٹم ٹوٹتا ہے تو سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔

انسان بھوکے مرتے ہیں، پیڑ خشک ہو جاتے ہیں، ریت ہوا کے ساتھ اڑ اڑ کر بستی اور جنگلات کو بھر دیتی ہے۔ بارشیں نہ ہونے سے ہر طرف گرد اڑتی نظر آتی ہے۔ زیر زمین پانی بہت نیچے چلا جاتا ہے۔ کنوئیں خشک ہو جاتے ہیں۔ سالانہ سیلاب نہ آنے سے پہلے دریا کے کنارے زرعی زمینیں خشک ہوتی ہیں جن پر کسی زمانے میں سیلاب سے آب پاشی ہوتی تھی۔ بھر ی فصلیں تباہ ہوتی ہیں اور آخر میں پانی کے اندر رہنے والے جانوروں جیسے کچھوے اور مچھلیوں کو اپنی جان بچانے کی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔

دریاؤں کے کنارے آج سے پانچ ہزار سال قبل کی یہ تہذیب اتنی ترقی یافتہ تو ہوتی ہے کہ وہ مٹی سے برتن بنا کر انہیں آوے میں باقاعدہ پکاتے ہیں اور ان پر طرح طرح کے بیل بوٹے پینٹ کرتے ہیں، بھٹے میں اینٹیں پکا کر گھر بناتے ہیں لیکن وہ دریائے گھاگرا اور ہاکڑہ کے کم ہوتے پانی کو ذخیرہ کرنے، اس کا رخ موڑ کر اپنے بنجر ہوتے کھیتوں تک اس کا پانی لانے یا پانی کو دنیا سے لیفٹ کرنے کا بالکل نہیں سوچتے (پانچ ہزار سال بعد بھی آج ہمارا یہی حال ہے)۔

وہ دریا کے کنارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کئی سالوں تک بیٹھے بڑے پانیوں کا صرف انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔ نہ پانی کے رواں راستوں یا ذخیروں کی طرف رخ کرتے ہیں اور نہ ہی میسر پانی کو بہتر استعمال پر سوچتے ہیں اور بالآخر ختم ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ دریا خشک ہوتے اور بھی کتنی بستیاں ختم ہو چکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاہم اس ناول کا اختتام ایک نئی زندگی کی شروعات اور ایک نئے حوصلے سے ہوتا ہے۔ جو یہ پیغام دیتا ہے کہ گو دریاؤں اور سمندروں کے پانی کم ہونے یا خشک ہونے سے زندگی تعطل کا شکار ہو جاتی ہے اور بہت سے  جاندار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ ڈائنو سار بھی مگر انسان واحد ایسی عجیب و غریب چیز ہے جو ان تمام حادثات و واقعات اور تباہی کے بعد بھی بچ نکلتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply