تبصرہ کتاب “من لندن الی مکہ” Pilgrimage to Mecca/منصور ندیم

یہ برطانوی لیڈی ایولین کوبولڈ Evelyn Cobbold کی کتاب Pilgrimage to Mecca،جو سنہء 1934 میں کتاب کی اشاعت  کی  صورت میں  پبلش ہوئی، اس کتاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ کسی بھی برطانوی خاتون کا پہلا حج کا سفرنامہ مانا جاتا ہے۔ یہ کتاب روحانیت سے بھرپور حیرت انگیز تفصیلات  کا مجموعہ  ہے، جس کا عربی زبان میں ترجمہ ہیبہ ہندوی نے کرکے اسے قاہرہ کے السراج ہاؤس سے شائع کیا ہے، اس کتاب کی مصنفہ، لیڈی ایولین کوبولڈ کتاب میں اپنے حج کے سفر اور مکہ کے حالات بیان کرتی ہیں، ملکہ وکٹوریہ کے دور میں ایسا ہونا، یہ ایک عجیب معاملہ تھا، خاص طور پر اس وقت جب اسلام اور عربوں کے بارے میں یورپ میں کوئی خاص جاذبیت کا تاثر نہیں تھا، اس وقت یہ قدم اٹھانے والی پہلی یورپی خاتون کے طور پر سامنے آئیں اور اس وقت شاہ عبدالعزیز آل سعود کی خصوصی اجازت سے ایولین کوبولڈ نے سنہء 1933 میں یہ حج کیا اور اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا اور خود کو زینب کے نام سے متعارف کروایا۔ اس کتاب میں سفری ادب کا مزاح بھی موجود ہے، مشرق میں زندگی کا ایک خاکہ، اور معروضی مغربی نگاہوں اور ڈائری کے انداز کی قربت اور روزمرہ کی سادہ تفصیلات کے علاوہ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں اسلام کی تاریخ اور خوبیوں کے بارے میں ان کا تصور بھی موجود ہے، بظور انگریز مصنفہ ایولین کوبولڈ نے اس وقت مکہ و مدینہ کی زندگی اور وہاں کے مقامی گھرانوں کی خواتین کے خانگی زندگی کی تفصیل بھی پیش کی ہے، جو وقت انہوں نے مدینہ، مکہ اور منیٰ میں مقیم رہ کر گزارا تھا۔ یہ اس مخصوص عہد کی حجاز کی تاریخ کو سمجھنے میں بہترین دستاویز متصور کی جاسکتی ہے۔

لیڈی ایولین (1867-1963) کا بنیادی تعلق اسکاٹ لینڈ کے ایک بزرگ خاندان سے ہے، جو دنیا کی سیر کا شوق رکھنے کے حوالے سے مشہور تھا، ایولین کوبولڈ اپنے ابتدائی بچپن کے سالوں میں اپنے والدین کے ساتھ سکاٹ لینڈ سے باہر سفر کرتی تھیں، تاکہ ان کا خاندان سردی کے مہینوں سے بچ سکے، ایسے ہی ایک بار وہ خاندان الجزائر کے دارالحکومت کے مضافات میں پہاڑیوں میں وہاں کی گرم دھوپ کی امید میں قیام پذیر رہا ۔ وہاں اس نے عربی زبان سیکھی، اور ایک خوبصورت ولا میں 3 سال گزارنے کے بعد اس خاندان نے اپنا الجزائری گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا، جہاں ایولین کوبولڈ کو اپنے دوستوں کے ساتھ جدا ہونے پر بہت دکھ ہوا۔ سالوں گزر گئے، پھر ایولین کوبولڈ روم میں کچھ اطالوی دوستوں سے ملنے جا رہی تھی، وہاں جہاں رکی تو اس گھر کی مالک نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ ویٹیکن کے پوپ سے ذاتی طور پر ملنا چاہیں گی۔؟ وہ پوپ سے ملنے کے لئے پُرجوش تھی، اس نے ایک روشن سیاہ لباس اور ایک لمبا   اسکارف  سر پر پہنا ہوا تھا، کہ وہ اپنے دوست اور اس کے بھائی کے ساتھ بہترین طور پر نظر آئے، اچانک پوپ نے اس سے سوال پوچھا کہ وہ ایک کیتھولک تھی یا نہیں، وہ ایک لمحے کے لیے الجھ گئی، پھر اس نے ایک عجیب سا جواب دیا کہ وہ مسلمان ہے۔ بقول مصنفہ کہ وہ واقعی نہیں جانتی کہ یہ جواب وہ دینا چاہتی تھی، لیکن یہی بات بحیثیت ایک آگ   کی مانند تھی، جو اس کے ضمیر اور دماغ میں بھڑک اٹھی، یہ کیفیت اس میں مذہب اسلام کے بارے میں تحقیق و مطالعہ کی راہیں روشن کرتی رہی، یہاں تک کہ وہ آخرکار اس کے ساحلوں پر یقین اور ایک اعلیٰ روحانی اثر کے ساتھ اتری جس نے اس کے وجود اور دماغ کو سیراب کیا۔

اس دوران مذہب کے مطالعے کے دوران حج کا تجربہ اس کے تخیل کو پُرجوش کرتا رہا، کیونکہ یہ دنیا بھر کے کونے کونے سے آنے والے بڑے ہجوم کے درمیان ایک مقدس مقام پر ہونے کے لحاظ سے “انسانیت کا سب سے بڑا متاثر کن تجربہ” تھا۔ ایولین کوبولڈ نے اس معاملے کے لئے اس وقت لندن میں سعودی عرب کے سفیر شیخ حفیظ وہبہ سے بات کی اور انہوں نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے اور وہ اس کی درخواست اپنے ملک کے اعلیٰ حکام کو پیش کریں گے۔ ایولین کوبولڈ نے درخواست کی منظوری  سے پہلے ہی سعودی عرب کا سفر کرنے کا فیصلہ کرلیا تاکہ حج کی اجازت کے انتظار میں کچھ وقت گزارا جا سکے، ایولین کوبولڈ نے سوچا کہ اگر اس کی درخواست پوری نہیں ہوتی، تو متبادل منصوبے کے طور پر مصر میں نیل کے کنارے اپنا سفر جاری رکھا جائے۔ 22 فروری سنہء 1933 کو ایولین کوبولڈ مصر کے شہر پورٹ سعید پہنچی، وہاں سے ایک پُر ہجوم ٹرین میں سویز، جہاں ریت کا طوفان آیا۔ کیبن میں اس کا ساتھی ایک انگریز ملاح تھا، جو ایک مال بردار جہاز کا کپتان تھا، جس نے اسے زندگی کی بہت سی دل لگی کی کہانیاں سنائیں اور دنیا کے اپنے سفر کے قصے سنائے، ملاح کی دلچسپ گفتگو کی بدولت وقت تیزی سے گزرتا گیا اور پھر بالآخر وہ جدہ جانے والے اطالوی جہاز “میساوا” کو پکڑنے کے لیے سویز سے بندرگاہ توفیق کے شہر کی طرف روانہ ہوئ۔ بورڈ پر ایک کیبن اس کے نام پر بُک تھا۔ بحری جہاز کا یہ سفر چار دن جاری رہا اور چار دن بعد جدہ پہنچی، ایولین کوبولڈ کے لئے ساحل سمندر پر اور بندرگاہ کا نظارہ حیرت انگیز رہا، اسے جدہ ایک ایسے شہر کے طور پر لگا، جس میں سفید اور بھورے رنگ کا مرکب ہوتا ہے، جو ایک قلعے سے ملتا جلتا ہے۔ اس کی تین اطراف سے اونچی دیواریں ہیں اور اس کے مینار اونچے ہیں۔ اس نے مسٹر فلبی کے گھر والوں کی طرف سے اس کی میزبانی کی پیشکش قبول کرلی (فلبی ایک برطانوی مشہور مہم جو ہے، جس نے جزیرہ نما عرب میں صحرائے ربع الخالی سفر اور عرب کے سمندر تک کا سفر کیا تھا، فلبی کے معروف سفرنامے عرب کے حوالے سے موجود ہیں)۔

اس کتاب میں لیڈی ایولین کے وہ احساسات بھی شامل ہیں, جو مقدس سرزمین کی طرف جاتے ہوئے اس نے بہت سے زائرین کے پاس سے گزرتے ہوئے محسوس کئے، کچھ زائرین کاروں میں، کچھ اونٹوں پر، جب کہ ان میں سے غریب زائرین کو اپنے قدموں سے اپنی منزل کی طرف ثابت قدم قدموں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ اس سفر کے وقت موسم سرما تھا جو بارش کے بغیر خشک تھا، لیکن اونٹ سخت گھاس کھا کر اپنی بھوک کا انتظام کرلیتے تھے، یہاں پیدا ہونے والی گھاس اس بنجر مٹی کو چیلنج کرتی ہوئی پیدا ہوتی ہے۔ جدہ میں ایولین کوبولڈ اکثر یورپی کمیشن کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کرتی تھیں۔ اگرچہ یورپی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں اس وقت بہت کم تھی، لیکن سال کے بیشتر مہینوں میں موسم کی شدید گرمی اور نمی کے باوجود وہاں پر ہر کوئی خوش ہے۔ مسٹر فلبی خصوصا ًاجازت نامہ لینے کے لئے گئے، وہ مکہ سے واپس آئے، اور اس نے ایولین کوبولڈ کو بتایا کہ بس بادشاہ کے فیصلے کا انتظار کرنا ہے، کہ وہ اسے مقدس سرزمین میں داخل ہونے کی اجازت کب دیتے ہیں۔ 12 مارچ سنہء 1933 کو اسے یہ خوشخبری ملی کہ اسے امید اور مایوسی کے مختلف دوروں کا سامنا کرنے کے بعد اب مکہ میں حج کرنے کے ساتھ ساتھ مدینہ جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ ایولین کوبولڈ کی پریشانی صرف اپنے حج کے لباس کی تیاری تھی، جو کہ ایک سیاہ کریپ اسکرٹ تھا، ایک بغیر آستین کی چادر جو اس نے اپنے کندھے پر ڈالی ہوئی تھی، اور اس کے ساتھ سر ڈھانپنا تھا، جو مدینہ منورہ جاتے وقت اپنے کپڑوں کے اوپر پہنتی تھی، اور سیاہ چہرے کو ڈھانپنا تھا جو اس نے اپنے کندھے پر ڈالا ہوا تھا۔ اس وقت حج کے دوران خواتین کو مکہ میں سفید کپڑے پہننے کی اجازت نہیں تھی۔ مسٹر فلبی کی بیوی نے اسے ایک تکیہ اور ایک کمبل دیا۔ کیونکہ اسے صحرا میں رات گزارنا تھی جس کے لئے اس کی ضرورت پڑے گی۔

یہ قافلہ فجر کی نماز کے فوراً بعد شہر کے لیے روانہ ہوا، اور بیس روزہ حج کے دوران استعمال کرنے کے لیے ایولین کوبولڈ نے ایک کار کرائے پر لی۔ اس کا ڈرائیور جو ایک عرب تھا، جو راستوں سے خوب واقف تھا اور اس کے ساتھ ایک شخص مصطفیٰ نذیر جو ایک شائستہ شخص ہے جسے مسٹر فلبی نے اس کے سفر میں اس کے ساتھ جانے کے لیے رکھا تھا، اس شرط کے ساتھ کہ اس کا مشن اسے یقینی بنانا ہوگا۔ اس کی تسلی اور رہنمائی کرے اور اس نے ایسا کرنے میں اپنی قابلیت ثابت بھی کی۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ ایک بوڑھا سوڈانی شیخ بھی تھا، جو ان کے باورچی کا باپ تھا، وہ ڈونگولا سے حج کرنے آیا تھا، اور جب ایولین کوبولڈ نے اسے مکہ لے جانے کی پیشکش کی تو وہ اس کا اتنا شکر گزار تھا کہ وہ اس کے قدم چومنا چاہتا تھا۔ پاسپورٹ پر ایولین کوبولڈ کا نام مسز زینب تھا۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ ہم سب سے پہلے مدینہ سے گزرے، فجر کی اذان کی آواز نے مجھے جگا دیا اور جنوب کی طرف ایک چھوٹی سی کھڑکی سے میں نے افق پر مسجد نبوی کے اونچے مینار اور سبز گنبد کو دیکھا اور میں یہ سوچ کر خوش ہوئی کہ میں اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہوں۔ ایک ایسی مسجد جس کی اسلام میں اتنی بڑی حیثیت ہے۔ اس احساس سے میرے جسم میں ایک کپکپی سی دوڑ گئی اور میں نے اپنے جوتے اتار کر اس دہلیز کو عبور کیا جسے اس سے پہلے شائد ہی چند یورپی مردوں نے عبور کیا تھا اور اس سے پہلے کسی یورپی عورت نے قدم نہیں رکھا تھا۔ وہ آخر کار اس گھر پہنچی، جہاں وہ حج کے مناسک سے فارغ ہونے تک مکہ میں ہی رہیں ۔ گھر کے مالک نے ان کا استقبال کیا، اور اس گھر کے مالک کے دونوں بیٹے اسے ایک بڑے ہال میں لے گئے، جہاں ہال کے اوپر دوسرے کمروں کے ساتھ کئی کمرے نظر آرہے تھے۔ دوسری منزل پر اس کے لیے مختص کردہ کمرہ کافی بڑا اور کشادہ تھا، جس کی دیواریں ہمی کشن اور عالیشان زمینی صوفوں سے گھری ہوئی تھیں، کمرے میں دھاتی ستونوں والا ایک بستر تھا، جسے اس گھر کے مالک نے خاص طور پر اس کے آرام کے لیے لگایا تھا، اور یہ ایک توشک سے ڈھکا ہوا ہے جس کی کڑھائی شاندار ڈرائنگ سے کی گئی تھی، اور مچھروں سے بچنے کے لیے ایک مچھر دانی بھی لگی ہوئی تھی۔

ایولین کوبولڈ نے اس لمحے کو یوں بیان کیا “جب وہ مسجد الحرام کعبہ میں داخل ہوئی اور کعبہ کو دیکھا تو ہمارے قدم پالش ماربل پر اس وقت تک موجود رہے، جب تک کہ ہم خدا کے گھر تک پہنچ گئے۔ مکعب کی شکل کی یہ شاندار عمارت، جس تک پہنچنے کے سفر میں لاکھوں مسلمان اپنی جانیں قربان نہیں کرتے، میں وہاں پر اب خوف اور احترام کے ساتھ کھڑی تھی۔ کعبہ ایک سیاہ غلاف سے ڈھکا ہوا ہے جس پر قرآن کی آیات سنہری دھاگوں سے کڑھائی کی گئی ہیں، حجاج اس کے گرد طواف کرتے ہوئے دعائیں مانگتے ہیں۔ کوئی قلم اس شاندار منظر کو بیان نہیں کرسکتا جب میں یہاں کھڑی تھی، وقار اور خوشی کے متضاد جذبات سے مغلوب۔ ایک بڑے انسانی ہجوم کے درمیان ایک فرد، اور میں مختلف احساسات اور جذبات سے بھری ہوئی  ہوں، ایک ایسا روحانی جذبہ جس کا تجربہ میں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ آنسوؤں نے میرے سمیت اردگرد موجود زائرین کے چہروں کو تر کر دیا تھا، آنسو   گالوں پر ندیوں کی طرح بہہ رہے تھے، جب کہ دیگر نے روشن ستاروں سے مزین آسمان کی طرف اپنا سر اٹھایا، جہاں وہ ذات تھی جو پے در پے صدیوں سے اپنے لئے آنے والے اس ہجوم کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ میرے جذبات لرز اٹھے اور میرا دل پُر خلوص اور فوری اسباق اور دعاؤں سے چمکتی آنکھوں کے سامنے دھڑکنے لگا، میں نے اپنے ہاتھ معافی اور بخشش کی امید کے ساتھ اٹھائے، میں نے ایک ایسی روحانی کیفیت محسوس کی جس کا تجربہ میں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ میں خدا کی مرضی کے سامنے مکمل ہتھیار ڈالنے کی شاندار حالت میں حاجیوں کے ہجوم میں سے ایک تھی، جو کہ اسلام کی روح اور مقصد ہے۔ میں خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے ہجوم میں شامل ہوئی، اس لمحے میں اطمینان اور تعظیم سے لبریز تھی۔

ایولین کوبولڈ نے اس کتاب میں اپنے دلچسپ روحانی سفر کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا: “میں اپنے چھوٹے سے گھر میں واپس آ گئی، میں اپنی زندگی کے اس شاندار تجربے کی ان تفصیلات سے بھری ہوئی تھی، مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں اس وقت خواب دیکھ رہی ہوں میری ڈائری پر ایک نظر میرے لیے یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ یہ سب کچھ سراسر سچ تھا۔ وقت ان یادوں کو نہیں مٹا سکے گا جو میرے دل میں کندہ ہیں۔ شہر کے باغات، مساجد کا سکون اور ہزاروں نمازی جو عقیدت سے آنسوؤں سے لبریز آنکھوں کے ساتھ میرے پاس سے گزرے وہ میرے ذہن میں تازہ رہیں گے۔ میں مکہ کی عظیم الشان مسجد کی عظمت اور عظمت کو کبھی نہیں بھولوں گی، میں میدان عرفات کی طرف جانے والے صحرا میں حج کا سفر کبھی نہیں بھولوں گی۔ میری روح ہمیشہ کے لیے قناعت اور خوشی کی خوشی کو حاصل کرلے گی جس کا میں نے تجربہ کیا تھا، اس مشاہدے و تجربے کے دنوں نے مجھے اچھائی، خوبصورتی اور حیرت کے سوا کچھ نہیں دیا۔میں نے ایک حیرت انگیز نئی دنیا دریافت کی ہے۔ یہ ایولین کوبولڈ یا زینب کے حج کے سفر کی یاد داشتیں ہیں، جب اس کی عمر پینسٹھ سال تھی، جو سنہء 1933 کی 22 فروری سے 21 اپریل تک، دو ماہ سے بھی کم عرصہ پر محیط تھا، جسے اس نے 1934 میں ایک کتاب “Pilgrimage to Mecca” میں لکھا ہے جس کے عنوان میں معمولی سی تبدیلی کے ساتھ اب عربی ترجمہ شائع ہوا ہے، ایولین کوبولڈ جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد زینب کہلانے کا انتخاب کیا، ایک مستشرق اور سکاٹش نژاد تھیں، اس کے اسلام قبول کرنے کی تاریخ معلوم نہیں ہے، اور ایسا نہیں لگتا کہ وہ خود اس سے واقف تھیں، کیونکہ وہ فطری طور پر اس کی طرف مائل تھیں۔ لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں سننے کو آئے دن آتا ہے، لیکن ملکہ وکٹوریہ کے دور میں ایسا ہونا، یہ ایک عجیب معاملہ تھا، خاص طور پر اس وقت اسلام اور عربوں کو کس ابہام نے گھیر رکھا تھا۔ سنہء 1933 میں، وہ حج کرنے والی پہلی برطانوی خاتون تھیں، اس وقت ان کی عمر پینسٹھ سال تھی۔ سنہء 1934 میں ان کی کتاب کی اشاعت ہوئئی: زینب کا انتقال سنہء 1963 میں پچانوے سال کی عمر میں ہوا، اس کی وصیت کے مطابق اسے اسکاٹ لینڈ کے خوبصورت پہاڑوں میں دفن کیا گیا۔ جس سے وہ پیار کرتی تھیں،، انہیں ایک مسجد کے امام اور ایک بیگ پائپ بجانے والے کی موجودگی میں دفنایا گیا، زینب کی قبر پر ایک جملہ جوان کی وصیت کے مطابق تھا (خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے) کندہ کروایا گیا۔

 نوٹ : اسے آپ “ایولین کوبولڈ سے زینب بننے تک” کا سفرنامہ بھی سمجھ لیں، یا ایک بہترین حج کا سفرنامہ ، مگر یہ آج سے قریب سو برس پہلے کے حجاز کی تاریخی جھروکوں کے کئی رخ بھی دکھاتا ہے، کہ اس وقت حجاز کی عام زندگی کیسی تھی۔ ایک روحانی تجربہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

2- یہ کتاب۔ ہر عرصے بعد دوبارہ انگریزی میں بھی شائع ہوئی تھی، مگر ابھی کچھ عرصہ پہلے مصر سے اس کا عربی ترجمہ شائع ہوا ہے۔ اس کی تصاویر لف ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply