کمبخت عشق(1)۔۔پروفیسر عامر زرین

یہ اسّی کی دہائی کا قصبہ تھا ، جو کہ شہر سے زیادہ دُور نہیں تھا۔آبادی بھی زیادہ نہیں تھی۔ سادہ لوح اور محنت کش لوگ اس قصبہ میں آباد تھے۔ اکثریت ملحقہ کھیتوں میں مزارعوں کی حیثیت سے کام کرتی  تھی۔ گندم اور کپاس کے علاوہ دوسری مختصر دورانیہ کی فصلیں کاشت کی جاتی تھیں۔ زمیندار اپنی منشا سے محنت کشوں کو مزدوری دیتے۔ شاید چند ایک زمین دار اپنے کھیتوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو انسان سمجھتے ہوں، ورنہ اس قصبہ کادولت مند طبقہ وہی عالمی مالی و اقتصادی نظام کا ہی شاخسانہ لگتا تھا۔ جس نظام کے تحت تیسری دُنیا کے غریب مُلکوں کو مقروض کرکے اپنی من پسند پالیسیوں کو اپنے من پسند حکمرانوں کے ذریعے نافذ کروایاجاتا تھا۔
امداد اور اُس کے بھائی اختر اور عظمت اس قصبے میں سب سے ابتدائی اور پُرانے دُکاندار تھے۔ ان کی دُکان کو جنرل اسٹور کہنا تو مناسب نہیں تھا لیکن اس ہٹی پرروزمرہ زندگی کی ضرورت کی تقریباً تمام چیزیں مل جاتی تھیں۔آبادی کے مرد، عورت اور بچوں کا یہاں کی دوسری دُکانوں سے زیادہ اِمداد کی ہٹی کی  طرف رُحجان تھا۔ قصبہ کے لوگوں کی اسے سادگی، مجبوری یا ایک ترقی پسند طرزِ عمل کہیں کہ اگر گھر میں بچے یا مرد نہ ہوتے تو عورتیں اپنے گھر کی ضرورت کی چیزیں اور سودا سلف لینے خود دُکانوں کو رُخ کرتی تھیں۔
اِمداد قریب قریب ۴۵ برس کی پکی عمر کا ایک گھاگ شخص تھا۔دُکانداری کے علاوہ اس کا رُحجان ناپسندیدہ سماجی سرگرمیوں کی طرف تھا۔ اگرچہ اس کے بھائی ایمانداری، محنت اور دیانت داری سے اس دُکان کو چلاتے تھے۔ اور یہ دونوں عمر میں اِمداد سے چھوٹے تھے لیکن شادی شدہ تھے اور صاحبِ اولاد تھے۔ اِمداد ، اس کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتا لیکن غیر معاشرتی اور ناجائز کام اُس کی شخصیت سے جُڑے ہوئے تھے،رات سر پر آتے ہی وہ جواء، شراب نوشی، رنڈی بازی جیسی سیہ کاریوں کی طرف راغب ہوجاتا ۔کبھی کبھی تین تین چار چار دن اس کی کچھ خبر نہ ملتی کہ بھائی صاحب کدھر ہیں؟اس کے بھائیوں کا اس کے لئے پریشان ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ لیکن صبر کا دامن تھامے وہ اپنے بھائی کی سلامتی اور زندہ سلامت لوٹ آنے کی دُعا کرتے ہوئے اس کے منتظر رہتے ۔

اِمداَد جب کبھی دُکان داری کرتا تو اس کی ہوس ناک اور ندیدی نظروں سے کوئی عورت محفوظ نہ رہتی۔ وہ اس طور پر بھی ہوشیار تھا کہ وہ بھانپ لیتا کہ دست درازی کے لئے کس طرح کی عورتیں اس کا تر نوالہ ثابت ہوسکتی ہیں۔وہ قصبہ کی دبنگ اور محتاط عورتوں سے کسی قسم کی غیر اخلاقی حرکت کرنے سے باز رہتا۔اپنی اِنہی حرکات کے  باعث وہ انسان کے لبادے میں وہ بھیڑیا تھا جو عورتوں کو پھاڑ کھانے اور ان کی عصمتوں کو پامال کرنے کی حد تک جا
سکتا تھا۔دیکھاجائے تو بازاری عورتوں تک رسائی اس کے لئے کون سی ناممکن بات تھی، لیکن اِمداَد کے منہ کو خون لگ چکا تھا۔ اور شاید اس کی یہ عادتیں تا مرگ بلکہ تاابد اس کے ساتھ رہنے والی تھیں۔قصبہ کے تمام دانا اور سیانے مرد عورت اِس کی اِن حرکات سے واقف تھے۔

صنم ایک ۲۵، ۲۶ برس کی دوشیزہ ،اِمداَد کی بے جا نوازشوں اور میٹھی میٹھی باتوں سے موم ہوچکی تھی۔یہ شاطر اُس سے اپنے مراسم مضبوط اور ہموار کرتے ہوئے اَپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔غالب خیال تواسے اپنی ہوس کی بھوک مٹانا ہی ہو سکتاتھا اوراس رنگین مزاج شخص سے کیا توقع کی جاسکتی تھی۔کبھی یہ تصور بھی ذہن میں آتا کہ ہوسکتا ہے وہ صنم سے شادی کرکے گھر بسا لے، کیونکہ چند برس قبل اِمداَد کی بیوی اس کی عدم توجہ اور لاپرواہی کے باعث طویل علالت کے بعد اس جہانِ فانی سے رُخصت ہو چکی تھی۔

صنم کا خاندان بوڑھے باپ اور ایک بھائی پر مشتمل تھا۔ دونوں باپ بیٹا دن بھر کھیتوں میں مزدوری کرتے اور کبھی کبھار صنم بھی اُن کے ساتھ ہو لیتی اور اُن کی مدد کرتی۔اُس کی والدہ کچھ سال پہلے وفات پا چکی تھی۔ اور اس وقت سے گھر کی ذمہ داریاں صنم کے کندھوں پر آ چکی تھیں۔ تین افراد کے اس چھوٹے سے کنبہ کے لئے زندگی پھولوں کی کوئی سیج نہ تھی۔پھر بھی اپنے زورِ بازو اور محنت و لگن سے وہ اپنی زندگی کو کسی حد تک بہتر بنانے کی تگ و دو میں تھے۔ اور اس کے لئے اپنے خالق و معبود کی شکر گذاری کرتے تھے۔
صنم کا باپ بزرگ تھا اور اپنی عمر کے ۷ عشرے دیکھ چکا تھا۔ کبھی وہ اپنے بیٹے کے ساتھ کام پر نہ جاسکتا تھا،وہی عمر رسیدگی میں تھکاوٹ اور دوسری پیچیدگیوں کے باعث اسے آرام درکا ر ہوتا،لہٰذا وہ گھر پر ہی رہتا تھا۔صنم اپنے باپ کی خدمت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھتی،‘‘ ماں نے کہا تھا،تُو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا ۔’’اسی لئے اُس کا باپ اُس سے بہت خوش تھا اور اُسے سلامتی اور اچھے مستقبل کی دعائیں بھی دیتا۔کبھی کبھار کسی بات پر اگر اس کا باپ اس پہ غصہ کرتا تو وہ اپنی ماں کی کمی محسوس کرتی۔ اگرچہ وہ اپنے چھوٹے سے کنبہ کے لئے دُعا گو بھی رہتی۔ وہ من ہی من میں اپنے باپ اور ماں کے خُدا کا تقابلی جائزہ لیتی تو ناجانے کیسے میکسم گورکی کے اس قول تک رسائی پاجاتی ‘‘ مجھے ماں کا خُدا پسند ہے۔ باباکہتے تھے کہ خُدا مارتا ہے ، جلاتا ہے اور دوزخ میں ڈالتا ہے۔ مگر ماں کہتی تھی خُدا مہربان ہے ، بخشتا ہے اور بچاتا ہے۔’’یہی وجہ تھی کہ وہ ماں کو یاد بھی کرتی اور ماں کے خُدا کو بھی کیونکہ دونوں پیار کرنے والی ہستیاں تھیں۔صنم کے گھر کا صحن کافی بڑا تھا اور اس کے بھائی کے ہاتھوں کے لگے ہوئے مقامی پھلوں کے کمسن پودے بڑھ کر اب پھلدار درختوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ انار ، شہتوت، آرڑو، آم، بیر اور اس طرح کے پھلوں کے ایک ایک یا دو دو درختوں نے صنم کے گھر کو ایک ثمردار باغ بنا دیا تھا۔ اور یہ ان کے لئے ایک اضافی آمدن کا ذریعہ بھی تھا۔ آس پاس کے لوگ ان سے تازہ پھل منڈی سے کم داموں خرید کر لے جاتے تھے، صنم کا بوڑھا باپ اپنے بیٹے کی نسبت اپنی بیٹی کے بیاہ  کے بارے زیادہ فکر مند تھا لیکن وہی بات کہ کوئی مناسب اور ہم پلہ رشتہ ہو جو کہ اس کی بیٹی کے بہتر مستقبل کی ضمانت بھی ہو۔

 

 

اِمداَد بہانے بہانے صنم کے گھر پھل خریدنے آتا اور اُس وقت جب صنم کے علاوہ گھر میں کوئی نہ ہو تاکہ اُسے اپنی ہوس کی تسکین کا موقع مل سکے۔ خیر ابھی تک اِمداَد اپنے مقصداور  بدنیت ارادوں میں کامیاب نہ ہو پایا تھا۔عورت ذات جو توجہ اور پیار چاہتی ہے اور بعض اوقات مر د پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کر لیتی ہے اور پھر اِمداَد جیسے خود غرض اور ہوس پرستوں کے ہاتھوں  اپنی عصمت سے محروم ہوجاتی ہے۔

 

اِمداَد اور صنم کے ربط کو ایک معاشقہ کی تناظر میں ہی دیکھا جاتا تھا اور شاید ،یہ بات حقیقت بھی تھی۔ لیکن سبھی تماش بینوں کی طرح شاید اس سارے معاملے کا ڈراپ سین دیکھنے کے منتظر تھے۔ عمر کے اس حصہ میں اِمداَد کا تو کردار اور اس کا معاش اس بات کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ وہ وقت گذاری اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے صنم پر اپنی مہربانیاں نچھاور کر رہا تھا۔لیکن صنم جو غربت اور کسمپرسی کے معاشرتی مقام پر اس ادھیڑ عمر چالاک مرد کے مصنوعی رُحجان اور محبت کو سبھی کچھ سمجھے بیٹھی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply