امسال کی گلوبل جینڈر رپورٹ 2024 کے مطابق خواتین کے لئے چند مثبت اقدامات سے قطع نظر صنفی مساوات کے حصول کے لئے خاطر خواہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ عالمی طور پر مردوں اور عوروں کے مرتبے اور مقام میں پائے جانے والی خلیج کو 68 اعشاریہ پانچ فیصد پاٹا جا سکا ہے یعنی عورت اور مرد کے درمیان فرق کو مٹانے کے لئے ابھی مزید 134 سال درکار ہیں۔ شاید ہمارے بعد آنے والی پانچویں نسل یہ مساوات دیکھ پائے۔ صنفی فرق کو ختم کرنے کے لئے گزشتہ ایک سال میں جو آٹے میں نمک کے برابر کامیابی حاصل ہوئی وہ اقتصادی میدان میں عورتوں کی شراکت اور انہیں ملنے والے مواقع کی وجہ سے ہوئی ۔صنفی فرق کو ختم کرنے کے لئے سیاست میں عورتوں کی شراکت ضروری ہے۔ لیکن بہت کم عورتیں لیڈر کے درجے پہ پہنچ پاتی ہیں ۔اگر عورتیں مختلف ممالک میں2024 میں ہونے والے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو صورتحال میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔
ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ لیبر فورس میں عورتوں کی شراکت میں اضافہ ہوا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس انجینئرنگ کی فیلڈ میں 2016 کے مقابلے میں عورتوں کی تعداد میں دگنا اضافہ ہوا ہے لیکنSTEM فیلڈز میں عورتوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔ آئس لینڈ نے اس مرتبہ پھر سر فہرست رہنے کا اپنا اعزاز برقرار رکھا۔ دوسرے نمبر پر فن لینڈ تیسرے پر ناروے رہا اور ان کے بعد سویڈن، جرمنی، آئر لینڈ اور اسپین کا نمبر آتا ہے۔ دنیا کے 146 ممالک کی معیشتوں کے حوالے سے صحت اور بقا کے حوالے سے 96 فی صد فرق کو ختم کیا جا چکا ہے۔تعلیم کے حصول کے معاملے میں فرق کو 96 فی صد ختم کیا جا چکا ہے۔اقتصادی شراکت اور مواقع میں صنفی فرق کو 60 اعشاریہ پانچ فیصد تک ختم کر دیا گیا ہے۔ اور سیاسی خود مختاری کی صنفی خلیج کو 22اعشاریہ پانچ فی صد تک پاٹ دیا گیا ہے۔
صنفی تفاوت کو ختم کرنے میں یورپی ممالک سر فہرست ہیں۔ان کے بعد شمالی امریکہ کا نمبر آتا ہے۔ اس کے پیچھے لاطینی امریکہ اور کریبین ہیں۔ چوتھے نمبر پر مشرقی ایشیا اور پیسفک ہیں ۔پانچویں نمبر پر وسطی ایشیا کے ممالک، چھٹے نمبر پر سب صحارا افریقہ، اور ساتواں نمبر جنوبی ایشیا کا ہے۔ آخری نمبر مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کا ہے۔ جنوبی ایشیا میں صنفی تفاوت کا اسکور 63 اعشاریہ سات فی صد ہے۔ اس میں شامل سات ممالک کی معیشتیں دنیا کے ایک سو ممالک سے پیچھے ہیں۔
عورتوں کی اقتصادی شراکت کے حوالے سے جنوبی ایشیا سب سے پیچھے ہے۔عورتیں صرف لیبر فورس میں ہی کم نہیں بلکہ لیڈرشپ رول میں بھی کم نظر آتی ہیں۔پاکستان اور نیپال عورتوں کی خواندگی اور تعلیم کے حوالے سے کافی پیچھے ہیں۔
پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن نے بھی 2024 میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارےمیں رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس کے مطابق ساری وفاقی اکائیوں میں 2023 میں ایک بات مشترک رہی یعنی غذائی قلت، مہنگائی، تنخواہوں کی عدم ادائیگی یا تاخیر سے ادائیگی ، کم اجرتیں، اور بجلی اورگیس کے عوام کی استعداد سے زیادہ بلز اور بڑے پی۔آنے پر بر طرفیاں۔2023 کو عوام کی اقتصادی مشکلات اور تکالیف کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کی سہولتوں اور سوشل سکیورٹی تک محدود رسائی کے خلاف مظاہرے کرنے والوں میں سرکاری ملازمین جیسے کلرک، اساتذہ ، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور پنشنرز بھی شامل تھے۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی مظاہرے بھی ہوئے جیسے عورت مارچ، اور جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے خلاف بلوچ یکجہتی کونسل کے مظاہرے۔ ریاست کا رویہ یا تو لاتعلقی اور یا پھر مظاہرین پر تشدد کا تھا۔
9 مئی کے ہنگاموں کے بعد انسانی حقوق کی صورتحال حد سے زیادہ خراب ہو گئی۔عام کارکنوں پر نا صرف دہشت گردی کا الزام لگایا گی بلکہ سویلین پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ امسال بھی عورتوں کو تشدد اور ” غیرت ” کے نام پر ہونے والے جرائم اور سائنس ر ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ عوامی زندگی اور سیاسی شراکت بشمول انتخابی فہرستوں میں ان کی تعداد کم ہی رہی۔ایک حوصلہ افزا بات بلوچ عورتوں کو پر امن سیاسی مظاہروں میں شرکت کرتے دیکھنا تھا۔ بلوچ عورتوں کے مظاہروں کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ کو گرفتاری اور پولیس کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ایک اور مایوس کن بات ٹرانس جینڈر حقوق ایکٹ 2018 کو وفاقی شریعت عدالت کی جانب سے غیر اسلامی قرار دینا تھا۔ ایچ آر سی پی کی میڈیا مانیٹرنگ کے مطابق 2023 میں 226 عورتیں غیرت کے نام پر جرائم کا شکار ہوئیں۔۔700 عورتیں اغوا ہوئیں۔631 عورتوں کا ریپ اور 277 عورتوں کا گینگ ریپ کیا گیا۔اور 66 عورتوں پر گھریلو تشدد کیا گیا۔ ڈیجیٹل ر ائٹس فاونڈیشن کو شائبہ ہراسمنٹ کی 2224 شکایات موصول ہوئیں۔ان خواتین کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے تھا۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات جیسے سیلاب وغیرہ سے بھی عورتیں زیادہ متاثر ہوئیں۔

تصویر بشکریہ ڈان نیوز
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں