کیا پاکستان واقعی ناگزیر تھا؟-شہزاد احمد رضی

یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ سب کچھ بک جاتا ہے۔ ایک پوسٹ چاہے وہ حقائق پر مبنی ہو یا محض پروپیگنڈہ کا شاخسانہ ہو، پلک جھپکتے وائرل ہوجاتی ہے۔ سیکڑوں لوگ اور بعض اوقات ہزاروں یا لاکھوں لوگ اس پوسٹ پر اپنے تبصرے پیش کرتے ہیں۔ ملکی حالات سے پریشان یا دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر بعض دوست پاکستان کے وجود پر اعتراض کرنے والے کانگریسی رہنماؤں سے منسوب پوسٹیں بھی شیئرکرجاتے ہیں۔یہ ”اقوال زریں“ قیام پاکستان کے دور سے تعلق رکھتے ہیں جن میں وہ کانگریسی رہنما پاکستان کو سامراج کی پیداوار قرار دیتے تھے اور اپنی ”دانشمندی اور دوراندیشی“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیشن گوئی فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان محض مسلم لیگ کی حماقت کا نتیجہ ہے اور پاکستان بہت سارے گھمبیر مسائل کا سامناکرے گا وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے قنوطی دوست کونوں کھدروں سے نکال کر ان یاوہ گوئیوں کواپنا فریضہ سمجھ کر فوراًشیئر کردیتے ہیں۔

کبھی کبھار ہمارے کچھ دوست مولانا ابوالکلام آزاد کی پاکستان کے”غیر یقینی و غیر حقیقی و غیر منطقی“ وجود پر تنقید پر مبنی پوسٹیں شیئر کردیتے ہیں۔ان میں سے کچھ خودساختہ بھی ہوتی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ موصوف پاکستان کے قیام کے سخت مخالفین میں سے تھے۔ وہ کانگریسی تھے اور کانگریس کے صدر بھی رہے۔ تقسیم کے بعد وہ بھارت کے وزیرتعلیم بھی مقرر ہوئے۔ مولانا کی کتاب India Wins Freedomتقسیم کے تناظر میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں مولانا صاحب ”میں سب سے بہتر جانتا ہوں“ کا راگ  الاپتے نظر آتے ہیں۔بلکہ اس کتاب کا نام ”میں میں۔۔۔“ہونا چاہیے۔اس کتاب میں مولانا نے قیام پاکستان کے مطالبے اور اس وقت کی مسلم لیگ کی قیادت پر دل کھول کر تنقید کے تیر چلائے ہیں۔ درحقیقت ابوالکلام آزاد خود پسندی کا شکار شخص تھے۔ وہ خود کو حقیقی ”قائداعظم“ سمجھتے تھے۔ ان کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ وہ محض کانگریس کے ”شوبوائے“ تھے۔ یہ ٹائٹل انہیں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دیا تھا اور کیا خوب دیا تھا۔ کانگریس ان کی شخصیت دکھا کر مسلمانوں کو گمراہ کیا کرتی تھی اور دنیا کو دھوکہ دیا کرتی تھی کہ وہ برصغیر کی ہرقومیت کی نمائندہ جماعت ہے۔ ابوالکلام آزاد اتنے ہی باکمال تھے تو1937-39کی کانگریسی وزارتوں میں کانگریس کو اسلامی اقدار کی بیخ کنی سے روک کیوں نہ پائے؟ وہ اتنے منصف مزاج تھے تو نہرو ٹولے کو کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے سے کیوں نہ باز رک سکے؟

پاکستان ضروری تھا یا نہیں۔ اس کا جواب K.L.Ghabbaکی مشہور تصنیف”Passive Voices”میں مل جاتا ہے۔ نیشنلسٹ مسلمان ہونے کے باوجودانھوں نے اعدادوشمار سے ثابت کیا کہ ہندوستان میں مسلمان کن بدترین حالات کاسامنا کررہے ہیں لیکن ہمارے دانشور مولانا ابوالکلام آزاد کی بصیرت یہاں بھی غالباً انھیں دھوکہ دے گئی۔ کانگریس کے پلو سے ایسے بندھ گئے کہ حقیقت ان کی نظر سے اوجھل ہی رہی۔سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا ہوتا؟ مسلمان اقلیت میں تھے اوراگر پاکستان نہ بنتا تو اقتدار میں ان کا حصہ محض چند نشستوں تک محدود رہتا اور ہر وقت انھیں اپنے حقوق کے چھن جانے کا خوف لاحق رہتا۔ کیا ہم دیکھتے نہیں کہ آج مودی کی حکومت میں مسلمان کس قدر عدم تحفظ کا شکار ہیں؟بلاشبہ بھارت بہت تیزی سی ترقی کررہا ہے لیکن کیا مسلمان بھی وہاں اسی تیزی سے ترقی کررہے ہیں؟

مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی جیسے علماء جہاں ہماری ملکی تاریخ کے روشن نام ہیں تو دوسری طرف مولانا ابوالکلام آزاد جیسے نام نہاد علماء ہماری تاریخ کے مجرم بھی ہیں کیونکہ اگر یہ مسلم لیگ کا ساتھ دیتے تو بعض عناصر کو مسلم لیگ میں برطانوی اقتدار کے آخری دنوں میں گھس کر قبضہ کرنے کا موقع نہ ملتا۔ ابن الوقت قسم کے کھوٹے سکوں نے قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ پر قبضہ کرلیا اور قائداعظم ؒ کی بیماری سے فائدہ اٹھایا اور مسلم لیگ کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کرکے غیر موثر کردیا۔وہ مسلم لیگ جس نے 1945-46ء کے انتخابات میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کرکے قیام پاکستان کے مطالبہ پر مہر لگادی تھی، قیام پاکستان کے بعد اپنے ہی دیس میں اجنبی ہوتی گئی۔قیام پاکستان کے مخالف علماء اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر حقائق کا ادراک کرتے اورمطالبہ پاکستان کی حمایت کرتے توتاریخ بہت مختلف ہوتی۔

ملکی حالات سے پریشان پاکستانی دوست جوگمراہ کن عناصر کا شکار ہوکر اکابرین پاکستان کی نیتوں پر شک کرناشروع ہوجاتے ہیں،ا نھیں یہ جان لینا چاہیے کہ وطن گھر ہوتا ہے۔ گھر کیسا رکھنا ہے، یہ گھر میں رہنے والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہم نے پاکستان کی شکل میں گھر تو حاصل کرلیا لیکن گھر حوالے کن کے کردیا؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ کیا ہم اس کی زبوں حالی کے ذمہ دا ر نہیں؟ وہ لوگ جنہوں نے کبھی میرٹ پر ووٹ کاسٹ نہیں کیا، کیا وہ لوگ اس کی ابتری کے ذمہ دار نہیں؟ خرابی ملک میں نہیں۔اور نہ ہی خرابی ہماری اکابرین کی نیتوں میں تھی۔ خرابی ہم میں ہے۔ اس موقع پرجولیس سیزر میں Shakespeareکی لکھی لائنیں یادآجاتی ہیں:
“The fault, dear Brutus, is not in our stars,
But in ourselves, that we are underlings.”

بلاشبہ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے برسوں سے یہ ملک کس کے حوالے کررکھا ہے۔ ذمہ دار ہم ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ذات، برادری، قومیت، صوبائیت اور لسانیت وغیرہ کو ترجیح دی۔ اور اسی بناء پر ووٹ دیا۔ہمارا ملک ان کے حوالے ہے جن کے اجداد کو انگریزوں نے چاپلوسی اور غداری کے عوض جاگیریں بخشیں۔یہاں ان گدی نشینوں کا قبضہ ہے جو انسانوں کو غلام بنانا اپنا حق سمجھتے ہیں۔قائداعظمؒ اور ان کے مخلص رفقاء پاکستان کے بارے میں بہت واضح تھے۔ پاکستان جناح کی ضد تھی اور نہ کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ بلکہ اگر مذہبی عوامل کو ایک لمحے کے لیے فراموش کربھی دیا جائے تو سیاسی و معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے بھی پاکستان کا قیام ضروری تھا۔ابوالکلام جیسے شوبوائے کی باتوں سے متاثر ہونے کی بجائے ہمیں اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان ہے اور رہے گا۔ بقول قائداعظمؒ “Do you duty and have faith in Pakistan. It has come to stay” پاکستان کا وجود قطعاً غیر منطقی حالات کا نیتجہ نہیں ہے۔ اس کے حالات سدھر سکتے ہیں اگر اس میں رہنے والے سدھر جائیں۔ ہمارے پاس سب سے بڑی طاقت ووٹ ہے جسے ہم ذات،برادری، قومیت و صوبائیت اور لسانیت کے نام پر قربان کردیتے ہیں۔اگر ہم واقعی پاکستان کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ اپنی طاقت کو پہچاننا ہوگا۔ اورہماری طاقت ہمارا ووٹ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply