• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • کتھا چار جنموں کی” سے ایک اقتباس-جدیدیت کا منظر نامہ۔ دہلی (۱۹۷۵) کے حوالے سے(2)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کتھا چار جنموں کی” سے ایک اقتباس-جدیدیت کا منظر نامہ۔ دہلی (۱۹۷۵) کے حوالے سے(2)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

دہلی کے یہ پھبتی باز، بیکار، آوارہ اردو شاعر اور افسانہ نگار جو سارا دن کناٹ پلیس میں ایک یا دو میزوں کو قابو کیے بیٹھے رہتے تھے، میرے قیام کے دوران خبروں اور افواہوں کا بہترین ذریعہ تھے۔ شام ہوتے ہی ان کی طلب بڑھ جاتی اور یا تو ’’اپنا اپنا حصّہ ڈالو، پینے کا سامان کرو  ‘‘ کے بمصداق مختلف جیبوں سے ایک ایک روپے کے مڑے تڑے ہوئے نوٹ اور اٹھنیاں چونیاں نکال کر چندہ کرتے،یا کسی احمق کی تلاش میں بیٹھے رہتے۔ جس کے آتے ہی اس کی مٹھی چاپی شروع ہو جاتی، ایک غیر ادبی نوجوان جسے سارے دھن راج ؔ کے نام سے پکارتے تھے، فرش پر اس کے پاؤں پکڑ کربیٹھ جاتا اور جب تک کہ وہ ایک دس روپے کا نوٹ نکال کر ان کے حوالے نہ کرتا، اسے کافی ہاؤس سے باہر نہ جانے دیا جاتا۔

ایک اور حربہ جو وقتاً فوقتاً بے حد کامیاب ثابت ہوتا، یہ تھا، کہ کسی نہ کسی طریقے سے کسی ایک شخص کے نام پر کسی سفارت خانے کی گارڈن پارٹی کا دعوت نامہ حاصل کر لیا جائے تو بڑھیا ولایتی وہسکی کی دو یا تین بوتلیں تک حاصل ہو سکتی ہیں۔ حکمت عملی یہ بنائی جاتی ، کہ پہلے تو کیٹرنگ کرنے والے ریستوراں کے ایک یا دوbearers کی مٹھی گرم کر کے انہیں اپنا رفیق کار بنایا جاتا۔ پھر ایک اچھا سوٹ پہن کر اور دعوت نامہ جیب میں ڈال کر مہمان کے طور پر ان میں سے ایک یا دو نوجوان گارڈن پارٹی میں دندناتے ہوئے پہنچ جاتے۔ ان کے کوٹ کی اندرونی جیبوں میں اور پتلون کے اندر اُڑسی ہوئی وہسکی کی خالی بوتلیں ہوتیں، جو وہ میسرز بھولا رام اینڈ سنز کے کسی کارندے سے مانگ لاتے یا پچیس پیسوں میں خرید لاتے۔ جب یہ وردی پوش بَیرے اپنی ٹرے میں وہسکی کے گلاس سجائے ہوئے گھومنے لگتے توان کونوں میں بھی پہنچتے، جہاں یہ لوگوں کی نظروں سے بچنے اور گفتگو میں شرکت سے پرہیز کی خاطر نیم اندھیرے میں کھڑے ہوتے۔ ہر بار ایک یا دو ’’پیگ‘‘ لے کر یہ اپنی خالی بوتلوں میں انڈیل لیتے۔ جب ان کی خالی بوتلیں بھر جاتیں تو چپکے سے باہر کھسک جاتے۔ ان دنوں دہشت گردی کا تو کوئی خطرہ ہی نہیں تھا اور گیٹ پر کھڑے با وردی دربان اچھے سوٹ میں ملبوس کسی بھی مہمان کو صرف دعوتی کارڈ کو دور سے ہی دیکھ کر یا دیکھے بغیر ہی اندر جانے کی اجازت دے دیتے۔ ہمارے ہیرو ’’ترقی پسند‘‘ ہونے کی وجہ سے روس کے حواری مشرقی یورپ کے ملکوں کے سفارت خانوں کی دعوتوں میں شمولیت کے دعوتی کارڈ خدا جانے کیسے باآسانی حاصل کر لیتے تھے اور بعد میں اپنی اس کامیابی کے قصے بڑھا چڑھا کر سنایا کرتے تھے۔

اس motley crowd میں جدیدیت کے زمانے میں مقبول عام ہوئے شاعر بھی کبھی کبھار دیکھے جاتے تھے۔ کمار پاشی ؔ بھی، نامی ؔ بھی، افسانہ نگار سریندر پرکاش اور بلراج مین راؔ سبھی تھے۔ دلیپ سنگھ ابھی بقید حیات تھے اور وہ بھی ان دوستوں کے ساتھ اکثر و بیشتر دیکھے جاتے تھے۔ ان میں پڑھا لکھا اہل قلم بلراج مین راؔ کے علاوہ شاید ہی کوئی تھا۔نامیؔ اور مخمور ؔ سعیدی پڑھے لکھے ضرورتھے لیکن صرف ایک حد تک۔ اگر بے تکلفی سے کوئی رولینڈ بارتھ کا ذکر چھیڑ بھی بیٹھتا اور1973ء میں چھپی اس کی معرکۃ الارا کتابThe Pleasure of the Text کی بات کسی بھی تناظر میں کرتا تو صرف مین راؔ ہی بولنے کے لیے اپنا منہ کھولتا۔ سریندر پرکاش تو بالکل ہی ناخواندہ تھا، لیکن ہاں ہوں ضرور کرتا رہتا تھا جس سے یہ پتاچلے کہ وہ بات کو سمجھ رہا ہے۔

ایک بار میں خود اس زعم میں کہ مَیں انٹیلیکچوئل دوستوں میں بیٹھا ہوں، بارتھؔ کا ذکر اس تناظر میں چھیڑ بیٹھا کہ سبھی ادبی تھیوریوں اور نظریات کی بنیاد اس بات پر استوار ہے کہ تمام متون خود سے پیشتر معرض وجود میں آنے والے مختلف الزماں متون کے مرہونِ منت ہوتے ہیں، اور کہ کوئی بھی ادب پارہ کلّی طور پر طبع زاد نہیں ہوتا ۔ اس کی بافت میں مختلف تاگے دیگر ادبی تخالیق سے ایسے آتے ہیں کہ مصنف کو خود بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس نے کہاں کہاں سے یہ کسب فیض حاصل کیا ہے۔مجھے یاد ہے کہ سنسنی سی چھا گئی اور سب کے منہ پر جیسے ہوائیاں اڑنے لگیں۔ صرف بلراج مین راؔ نے کچھ پتے کی باتیں کیں۔ باقی کے دوست اس دوران میں بار بار موضوع بدلنے کی کوشش ہی کرتے رہے۔

1965 ء کے لگ بھگ، جب میں بھی کچھ برسوں کے لیے جدیدیت کے ریلے میں بہہ گیا تھا ، میں نے بھی ایک نظم لکھی تھی ۔ میں نے جب اسے پڑھا تو سریندر پرکاش جسے ہمیشہ مجھ سے یہ پرخاش رہتی تھی کہ میں اسے ’’ان پڑھ‘‘ سمجھتا تھا، چپکے سے ایک دوست (شاید مخمور سعیدی) کو ہاتھ پکڑ کر باہر لے گیا ۔وہاں جا کر جو بات اس نے کہی وہ بجنسہ مجھے ایک دوسرے دوست نے سنائی۔ ’’یہ شمع اور بیسویں صدی کا افسانہ نگار اب انجمن ترقی پسند مصنفین میں ادبی عہدوں کی بندر بانٹ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان کا ساتھ چھوڑ کر بطور شاعر اپنا حق ہماری صفوں میں قایم کرنا چاہتا ہے !‘‘
یہ نظم شاید کہیں شائع بھی ہوئی۔لیکن اس کی اہمیت آج اس لیے نظر آ رہی ہے، کہ میں نے یہ نظم دہلی کے کناٹ پلیس ٹی ہاؤس کے احباب کو سنائی تھی ۔ گھر سے کچھ نکتے ان کو گوش گذار کرنے کے لیے لکھ کر لے گیا تھا۔ انہیں جتانا تھا کہ انگریزی کا پروفیسر ہونے کے ناطے سے میں جدید شاعری کی لیبارٹری (تجربہ گاہ) میں اناڑی نہیں ہوں۔لیکن اصل مقصد ان لوگوں کو اپنی اصلیت جانچنے کے لیے ایک موقع دینا تھا اور یہ کرتے ہوئے زہر خند کی شکل میں ان سے خراج بٹورنا تھا۔ نظم یہ تھی۔
دھوئیں کی چادر کے گرم گھونگھٹ
سے چہرہ ڈھانپے ہوئے جو درویش
صبح کی برف بستہ سانسوں سے
وقت کے دُود گوں سِگاروں
کو جرعہ در جرعہ پی رہے ہیں
پرانے قلعے کے گول گنبد میں فرش پر بیٹھے
کھانستے ہیں
کسی کبوتر کی دفعتاً
پھڑپھڑاتی آواز کی طرح سے
تنی ہوئی ان کی ساری حسیات
رفتہ رفتہ
دھوئیں کی مانند اڑ رہی ہیں۔
ذرا بتائیں تو کافکا جی
یہ زندگی کا حصول ہے یا ضیاع ہے، کوئی کیسے سمجھے؟
اگر ’’نہ ہونے کے اور ’’ہونے ‘‘ کے
دونوں رستے ہی بند ہوں تو
یہیں کی اب بود و باش ہو گی
کہ اب ادب کے پرانے قلعے کا گول گنبد
لپٹ کے خود میں
سرنگ کی شکل ہو گیا ہے۔

ندامت کس چڑیا کا نام ہے ان کافی ہاؤس انٹلیکچولز نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ ایک نے کہا، بہت خوبصورت نظم ہے، لیکن آخر میں کافکا کو کیوں لایا گیا ہے؟ دوسرے نے کہا، اگر لانا بھی تھا، تو ’’کافکا جی‘‘ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک اور صاحب اپنے پنجابی لہجے میں بولے ، ’’ آہو جی، انگریزی کے پروفیسر نے اپنا رعب جو گانٹھنا ہوا!‘‘

Advertisements
julia rana solicitors london

قصہ کوتاہ یہ کہ اردو میں جدیدیت کے نام لیوا دہلی کے ان شعرا، افسانہ نگاروں اور نقادوں کو (مین راؔ کو چھوڑ کر) کچھ ناموں کا علم ضرور تھا ، لیکن اگر ان سے یہ پوچھ لیا جاتا کہ سوسیئر ؔ کس ملک میں اور کس صدی میں پید ا ہوا تھا ، اس کی مادری زبان کیا تھی اور اس کی کتاب یا کتابیں کب چھپی تھیں، تو وہ بغلیں جھانکتے رہ جاتے یا بیک زبان کہتے، ارے یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔جدید لسانی تنقید کی بنیاد اگر اس نے رکھی ہے تو اتنا تو آپ کو علم ہونا ہی چاہیے کہ اسی صدی، یعنی بیسویں صدی کے وسط میں ہی اس کی سب کتابیں چھپ گئی تھیں۔اب اگر کوئی مجھ جیسا منہ پھٹ ان گنواروں کو یہ بتا بھی دیتا تو وہ صرف کندھے جھٹک کر رہ جاتے ۔ ان کے لیے اس امر کا جاننا ضروری نہیں تھا کہ سوسئیرؔ انیسویں صدی کے وسط میں ، یعنی 1857ء میں پیدا ہوا تھا، اور یہ کہ اس کی معرکۃ الارا کتاب A Course in General Linguistics اس کے کلاس روم لیکچروں کے تیار کردہ notes کا وہ مجموعہ ہے جو اس کے شاگردوں نے اس کی موت کے تین برس بعد یعنی 1916ء میں بسیار محنت سے ترتیب دے کر شائع کیا، اور یہ کہ اگر اسے جدید لسانیات کے علم کی شاہراہ پر ایک میل پتھر کی نہیں، بلکہ ایک یادگاری ستون کی حیثیت دی جائے تو غلط نہیں ہو گا

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply