روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

آمد ِ سیلاب ِ طوفان ِ ِ صدائے آب ہے
نقش ِ ِ پا جو کان میں رکھتا ہےانگلی جادہ ہے

ستیہ پال آنند
بندہ پرور، یہ کرم فرمائیں اس ناچیز پر
عندیہ اس شعر کاکیا ہے ، کوئی لب ِ لباب؟
میں تو بالکل ہی سمجھ پایا نہیں اس کو، جناب!

مر زا غالب
کچھ بھی تو مشکل نہیں، کوشش کر و، اے ستیہ پال
جو بھی آتا ہے سمجھ میں، مجھ کو بتلاؤ  ذرا

ستیہ پال آنند
لیجئے، استاد، اک کوشش تو کرتا ہوں ، مگر
اس میں کوئی کام کی بھی بات ہے، دیکھیں ذرا
’’جادہ‘‘ ، یعنی راہ ہے اور راہ میں اک ’’نقش ِ ِ پا‘‘
نقشِ پا نے کان میں انگشت ہے رکھی ہوئی
یہ تو اک تصویر ِظاہر مصرع ِِ ثانی میں ہے
مصر ع ِ اولیٰ کو اب دیکھیں ، سُنیں اس کی صدا
گڑگڑاتا ایک شورِ ِ سیل ہے ماحول میں
گویا اک سیلاب ِ طوفاں آ رہا ہے عنقریب
گر یہی بس دو مناظر ہیں ہمارے سامنے
پھر تو گویا چیستاں ہے ،اک معمہ ہے یہ شعر

مر زا غالب
خوب ہے تفصیل لیکن ربط غائب ہے، عزیز
اس کو یوں دیکھو، سمجھنے کی ذرا کوشش کرو
اگویا یہ تنبیہ ہے، خطرے کی گھنٹی ہے، میاں
پا پیادہ آنے جانے والے لوگوں کے لیے
ایک ’’نقش ِ پا ‘‘کی صورت ، کان میں انگلی دیے
خود پہ ’’جادہ‘‘ نے ابھارا ہے نشان ِ ِ انتباہ
کچھ سمجھ میں آئی یہ تصویرِِ معنی ، ستیہ پال؟

ستیہ پال آنند
جی نہیں، استاد ، یہ الجھی ہوئی تصویر ہے

مرزا غالب
پھر کہو لیکن ذرا تفصیل سے اے ستیہ پال

ستیہ پال آنند
کوئی تو تاویل ہوتی آمد ِ سیلاب کی
اور اگر جادہ علامت چلنے پھرنے کی ہےیاں
(آمد ِ سیلاب جس کو ختم کر دے گی ، تو)
کان مین انگلی کے رکھنے کا بھلا کیا ہے جواز؟

مر زا غالب
ذہن میں تصویر سازی کی ذرا کوشش کرو
غلغلہ ہے ، شور ہے ، سیلاب کی آمد کا، تو
اس سے بچنے کی یہی تدبیر ہے ، سوچو ذرا
’’ـنقش پاـ ‘‘کی شکل میں؟اک استعارہ ہے یہاں
رہروں کے واسطے تشویش کا سادہ نشان!
اور بھی کچھ پوچھنا ہے،؟ پوچھ لو، اب ، ستیہ پال!

Advertisements
julia rana solicitors london

ستیہ پال آنند
پیر و مرشد، اور کیا پوچھوں گا میَں اس ضمن میں
میری اس جرآت کا ، استاذی، بُرا مت مانئے
شعر کا منہ ہے نہ ماتھا، آگا پیچھا کچھ نہیں
ہیں معانی آپ کے ہی ذہن میں،جیسے بھی ہیں!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply