پاکستان میں ہیٹ ویوز اور ان کے نفسیاتی اثرات/شائستہ مبین

پاکستان میں ہیٹ ویوز (Heat Waves) ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔ حالیہ برسوں میں گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ،جو نا  صرف جسمانی صحت کے لئے مضر ہے بلکہ اس کے نفسیاتی اثرات بھی وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ کراچی، لاہور، اور اندرون سندھ جیسے علاقے ہیٹ ویوز سے شدید متاثرہ ہیں۔پاکستان میں ہیٹ ویوز کی بنیادی وجہ عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں (Climate Change) ہیں۔ فوسل فیول کا استعمال، جنگلات کی کٹائی، اور بڑھتی ہوئی آلودگی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سبب بنتی ہیں، جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا موجب ہیں۔ اس کے علاوہ، شہری آبادی کے اضافے اور تعمیراتی کاموں کی وجہ سے بھی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ہیٹ ویوز کے دوران گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے جسمانی مسائل جیسا کہ پانی کی کمی، لو لگنا، اور دل کے امراض میں بڑھ رہے ہیں۔ مگر اس کا اثر صرف جسمانی مسائل کی حد تک محدود نہیں ہے، بلکہ نفسیاتی صحت پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔

مئی کا مہینہ دنیا بھر میں ذہنی صحت کے حوالے سے آگاہی کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ اس دوران ذہنی صحت کے مسائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور لوگوں کو ذہنی صحت کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ اسی ضمن میں یہ مضمون ہیٹ ویوز کے نفسیاتی مسائل اور ان کے ممکنہ حل پر مبنی ہے۔

گرمی کی شدت میں اضافے سے لوگوں میں ذہنی دباؤ بڑھتا ہے۔ گھروں میں ٹھنڈک کے وسائل نہ ہونے یا کم ہونے کی صورت میں لوگ مزید اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پانی اور بجلی کی سہولیات کم ہونے کی وجہ سے عوام میں ذہنی دباؤ اور تشویش جیسی علامات عام نظر آتی ہیں۔ مستقل گرمی اور پسینے سے لوگ خود کو نڈھال محسوس کرتے ہیں۔ یہ احساس ڈپریشن کا سبب بن سکتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جو پہلے سے ہی ڈپریشن کا شکار ہیں۔ شدید گرمی میں لوگوں کا مزاج تیز ہو جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آنا عام بات ہے۔ ہیٹ ویوز کے دوران جرائم کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لوگوں کی نیند متاثر ہوتی ہے۔ گرم موسم میں آرام دہ نیند لینا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دن بھر تھکن اور چڑچڑاپن رہتا ہے۔ گرمی کی شدت میں اضافہ سماجی تقریبات اور عوامی سرگرمیوں پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ لوگ گھر سے باہر نکلنے میں ہچکچاتے ہیں اور معاشرتی روابط کمزور پڑ جاتے ہیں۔

ہیٹ ویوز اور ملازمین کے نفسیاتی چیلنجز
گرمی کی شدید لہروں سے زیادہ تر نفسیاتی مسائل ان لوگوں میں نظر آتے ہیں جنہیں ملازمت کے سلسلے میں دن کا زیادہ تر حصہ گھروں سے باہر گزارنا پڑتا ہے۔ وہ نا  صرف گرمی سے اُکتائے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ گرم موسم میں سفر، کام کا دباو، ڈیڈ لائنز میں تاخیر، اور کام کی جگہ پر گرمی سے نپٹنے کی ناپید سہولیات انہیں مزید نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیتی ہیں اس صورت میں کارکنوں اور ملازمین کی کارکردگی، پیداواریت اور کام کرنے کی تحریک میں نمایاں کمی نظر آتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف وہ فرد مسائل سے دو چار ہوتا ہے بلکہ منسلکہ کمپنی یا ادراے کو بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہیٹ ویوز کے دوران ملازمین اور مزدوروں کی نفسیاتی فلاح و بہبودبھی نہایت ضروری ہے ۔

حکومتی اور غیر حکومتی اقدامات
حکومت اور غیر حکومتی تنظیموں کو مل کر ہیٹ ویوز اور ان کے نفسیاتی اثرات سے نمٹنے کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔ عوام کو ہیٹ ویوز کے اثرات اور ان سے بچاؤ کے طریقوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لئے میڈیا، اسکولز، اور کمیونٹی سینٹرز میں مہمات چلائی جائیں۔ہیٹ ویوز کے دوران کام کے اوقات میں لچک دی جائے تاکہ ملازمین شدید گرمی کے دوران آرام کر سکیں۔ دفاتر میں کولنگ سینٹرز کا قیام کیا جائے جہاں ملازمین جا کر آرام کر سکیں اور خود کو ٹھنڈا رکھ سکیں۔کمپنیوں کو ملازمین کے لئے پانی کی مناسب فراہمی یقینی بنانی چاہیے تاکہ وہ پانی کی کمی سے بچ سکیں۔ملازمین کو ہلکے اور آرام دہ لباس پہننے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ گرمی سے بچ سکیں۔ حکومت کو قوانین بنانا چاہئیں جو ملازمین کی ہیٹ ویوز کے دوران حفاظت کو یقینی بنائیں۔ ہیٹ ویوز کے اثرات کو کم کرنے کے لئے ماحول دوست پالیسیاں اپنائی جائیں، جیسے کہ جنگلات کی بحالی اور آلودگی کی کمی۔

ہیٹ ویوز کے نفسیاتی اثرات سے نمٹنے کے لئے نفسیاتی مدد (First Aid) بہت اہم ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف نفسیاتی فرسٹ ایڈ فراہم کرنے والے ادارے اور ماہرین موجود ہیں جو ہیٹ ویوز سے متاثرہ لوگوں کو مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں پاکستان میں فلاح و بہبود کے ادارے، نجی کمپنیاں، حکومتی صحت کے ادارے اور rehabilitation centers کو اپنا اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔

ہیٹ ویوز کے دوران ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے نمٹنے کے لئے ماہرین نفسیات سے مشورہ کرنا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ مختلف تھراپی سیشنز کے ذریعے ذہنی سکون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مندرجہ بالا ادارے گرمیوں کے دوران مفت تھراپی اور کونسلنگ کی خدمات مہیا کر کے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان میں مختلف تنظیمیں اور ادارے ذہنی صحت کی ہیلپ لائنز فراہم کر رہے ہیں، جہاں لوگ اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ ان ہیلپ لائنز پر ماہر نفسیات کی خدمات دستیاب ہوتی ہیں جو فوری مدد فراہم کرتی ہیں۔ لیکن ان ہیلپ لائنز تک رسائی دور دراز کے علاقوں میں ممکن بنانی چاہیے، خصوصی طور پر وہ علاقے جو شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔

ٹیکنالوجی کے اس دور میں آن لائن مشاورت کے ذرائع جیسے کہ ویڈیو کالز اور چیٹ سروسز بھی مہیا کی جا سکتی ہیں۔ کچھ بڑے شہروں میں یہ سہولت موجود ہے لیکن بڑے پیمانے پر بھی دستیاب ہونی چاہیے۔ یہ خدمات ان لوگوں کے لئے خاص طور پر مفید ہیں جو ہیٹ ویوز کے دوران گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔

مختلف سپورٹ گروپس جہاں لوگ اپنی مشکلات اور تجربات کا تبادلہ کر سکتے ہیں، مفید ہو سکتے ہیں۔ یہ گروپس افراد کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ کمپنیوں کو ملازمین کے لئے سپورٹ گروپس قائم کرنے چاہئیں جہاں وہ اپنی مشکلات اور تجربات کا تبادلہ کر سکیں۔ذہنی صحت کی آگاہی کے لئے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مختلف ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کیے جائیں جن میں ماہرین نفسیات لیکچرز دیں اور لوگوں کو ذہنی صحت کے مسائل اور گرمی میں ان مسائل کے اثرات سےسے نمٹنے کے طریقے بتائیں۔

ہیٹ ویوز کے نفسیاتی اثرات کو سنجیدگی سے لینا اور ان سے نمٹنے کے لئے مؤثر اقدامات کرنا ہماری ترجیح ہونا چاہئے۔ عوامی آگاہی اور حکومتی سطح پر مناسب پالیسیوں کی مدد سے ہم اس مسئلے کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور اپنی صحت کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مئی کے مہینے میں ذہنی صحت کی آگاہی کے موقع پر ہمیں اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

Facebook Comments

شائستہ مبین
شائستہ مبین ماہر نفسیات لیکچرار، کوہسار یونیورسٹی مری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply