آخر کیوں؟/چوہدری عامر عباس

جب سے لانگ مارچ شروع ہوا ہے مجھ سے سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ اس لانگ مارچ کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

دیکھیں اس لانگ مارچ کے بارے میرا ایک اصولی موقف ہے جس پر میں لکھ بھی چکا ہوں میں آج بھی اس پر قائم ہوں کہ یہ بےوقت کی راگنی ہے یہ لانگ مارچ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسمبلی کی مدت پوری ہونے میں چند ماہ ہی تو رہ گئے تھے انھیں حکومت کرنے دیں مزید رج کے خجل ہونے دیں۔ عوام کا حشر نشر تو انھوں نے پہلے ہی پھیر دیا تھا اب کونسی کسر رہ گئی تھی۔ مہنگائی کی شرح ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اس غیریقینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کوئی ملک آپ کیساتھ معاہدے کرنے کو تیار نہیں ہے۔ چلیں خیر لانگ مارچ شروع ہو گیا اس پر بادی النظری میں مجھے یہی لگ رہا تھا کہ اس کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے پہلے مذاکرات ہو جائیں گے اور لانگ مارچ ختم ہو جائے گا۔ مگر ابھی کچھ ایسی پیش رفت ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ لانگ مارچ اسلام آباد ضرور پہنچے گا، وہاں پر بہت بڑا پاور شو ہو گا۔

ابھی جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ لانگ مارچ میں لوگوں نے دلچسپی ظاہر نہیں کی لہٰذا لانگ مارچ ناکام ہو گیا ہے وہ احمقوں کی خودساختہ جنت میں رہتے ہیں۔ لانگ مارچ کو ناکام بنانے کیلئے مخالفین نے ہر حربہ آزما لیا ہے۔ پریس کانفرنس کروائیں، مین سٹریم میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا مگر پھر تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے متحرک ہو کر مین سٹریم میڈیا کو بےمعنی کرکے رکھ دیا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ صورتحال کے سوشل میڈیا پر پڑے ہزاروں مختصر ویڈیوز کلپس نے عوام میں ایک ولولہ بھر کر رکھ دیا ہے۔ آج آپ خود دیکھ لیجئے کہ آپ نیوز چینلز کتنا دیکھتے ہیں اسی سے اندازہ لگا لیجئے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں کہ سوشل میڈیا کی اعصاب شکن جنگ عمران خان بہت بڑے مارجن سے جیت چکا ہے۔ عمران خان کی عدم مقبولیت کا دعویٰ کرنے والے پچھلے تین ماہ میں ہر ضمنی الیکشن میں منہ کی کھا رہے ہیں۔

ایک منفی پہلو یہ ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران اداروں کو بہت نقصان پہنچا ہے اسی وجہ سے ملکی تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی کو پریس کانفرنس کرنا پڑی اور انھوں نے برملا کہا کہ اب مسئلہ میرے ادارے کی ساکھ کا ہے یہ ایک بہت خطرناک پہلو ہے۔ ادارے ملک کے تحفظ کے ضامن ہیں عمران خان کو اسی وجہ سے کہنا پڑا کہ افواج پاکستان ہماری ہیں میں نے اداروں کا ہمیشہ احترام کیا ہم اپنی فوج کو مضبوط تر کرنا چاہتے ہیں۔ اداروں کے متعلق بیان دیتے وقت عمران خان کو محتاط رہنا ہو گا۔ اداروں کو بھی عوام کے درمیان اپنے وقار کی بحالی کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے ہونگے۔ad

یہ لانگ مارچ اتنی سست رفتار سے جو جا رہا ہے یہ باقاعدہ ایک پلاننگ کے تحت ہو رہا ہے۔ عمران خان دراصل عوام کا لہو گرما رہا ہے شہر شہر جا کر انھیں جگا رہا ہے۔ جب عمران خان اسلام آباد کے اطراف میں پہنچے گا تو پنجاب بھر سے تازہ دم شرکاء وہاں پہنچیں گے اس کے علاوہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں سے بھی لاکھوں لوگ اسلام آباد میں پہنچیں گے۔ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ اسلام آباد میں رش نہیں پڑے گا۔ یہ بات لکھ کر رکھ لیجئے کہ اسلام آباد میں عمران خان لاکھوں کی تعداد میں لوگ اکٹھے کر لے گا اس رش پڑنے کی ایک بڑی وجہ موجودہ مسلط شدہ حکومت کی گزشتہ چھ ماہ کی حد درجہ نااہلی ہے۔ ملازمین بدحالی کا شکار ہیں گزشتہ تین ماہ کے دوران آدھی سے زیادہ تنخواہ تو بجلی بلوں میں خرچ ہو جاتی ہے۔ زمیندار طبقہ تو مکمل طور پر پس کر رہ گیا ہے۔ اپنے گھر کی اشیاء بیچ کر ٹیوب ویل بجلی بل ادا کر رہا ہے فصلیں خشک سالی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ عوام مہنگائی اور بدحالی سے ستائے ہوئے ہیں اور یہی چیز ہر خاص و عام کو گھروں سے باہر نکلنے پر مجبور کر رہی ہے۔ میرے خیال سے تو اسلام آباد میں عمران خان ایک ماحول بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں اسلام آباد پہنچتے ہی مذاکرات ہونگے اور یہ لانگ مارچ اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔

تمام سیاسی جماعتوں کیلئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر عوام عمران خان پر اندھا دھند اعتماد کیوں کر رہے ہیں؟ ان چھ ماہ کے دوران عوام عمران خان کے پیچھے پاگل کیوں ہو چکے ہیں؟ عوام عمران خان کو اپنا نجات دہندہ کیوں سمجھ رہے ہیں؟ عوام میں عمران خان کا بیانیہ اتنا مقبول کیوں ہو رہا ہے؟ عوام چالیس سال سے حکمرانی کرتی سیاسی جماعتوں سے مایوس کیوں ہو چکے ہیں؟ آج صورتحال یہ بن چکی ہے کہ اگر عمران خان اپنے خلاف بھی ایک پریس کانفرنس کر دے تو عوام وہ بھی ماننے کو تیار نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ آخر کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کیوں کا درست جواب تلاش کر لیجئے اسی میں آپکے تمام مسائل کا بہترین حل موجود ہے۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply