تلاش کی تھکن/ثاقب الرحمٰن

ڈھونڈنا سب سے پیارا تجربہ ہوتا ہے۔ تلاش سب سے خوبصورت چیز ہوتی ہے ہر تلاش کے ساتھ امید نتھی ہوتی ہے۔ “امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبا”۔
تلاش مکمل ہوتی ہے تو ہم اگلی تلاش کے پیچھے چل پڑتے ہیں یہ کہانی ایسے ہی آگے بڑھتی ہے۔ جب یہ ڈھونڈ اور یہ تلاش مکمل ہو جاتی ہے تو انسان ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ پھر الگ الگ طریقے اختیار ہوتے ہیں کوئی جلایا جاتا ہے، کوئی دفنا آتا ہے۔
مسلمانوں کے خدا نے ستاروں کی منزلوں کی قسم کھائی ہے۔ شاید یہ بیان کرنا چاہا ہے کہ ستاروں کی ازل سے ابد تک گردش فقط اک تلاش ہے۔ یہ کششِ کائنات اور حرکت کے قوانین اسی تلاش کو جاری رکھنے کے سامان ہیں۔ کالے سیاہ پہاڑوں میں کان کنی پہ مامور کچھ لوگ کوئلہ ڈھونڈتے ہیں۔ کوئی پاگل نکلتا ہے اور تابوت سکینہ ڈھونڈتا ہے۔ کسی کی تلاش مندر کے دئیے پہ اختتام پذیر ہوتی ہے وہ پھر گھنٹہ بجاتا ہے۔ کسی کی گنبد خضرا پہ ختم ہوتی ہے وہ مدینہ مدینہ کہتا ہے۔
برسوں پہلے میں پشاور صدر کی ایک دکان پہ کام کرتا تھا۔ اس کے دونوں طرف سنیاروں کی دکانیں تھی۔ ان دکانوں کے پیچھے ایک تنگ گلی تھی جس کے کنارے پتلی سیوریج کی نالی میں ہاتھ ڈالے ایک بوڑھا شخص ہر وقت کچھ ڈھونڈتا رہتا تھا۔ بوڑھے کے ہاتھ میں ایک باریک چھنی تھی اور میرے ہاتھ میں ایک سوال تھا۔ بوڑھا نالی کے پانی کو چھاننے میں جُٹا رہا میں مگر سوال کا جواب جاننے کے لئے مشتاق رہا۔ معلوم ہوا کہ تلاش مکمل ہو گئی ہے۔ سنیارے کی دکان سے نکلتے پانی نے سونے کے کچھ ذرات بوڑھے کو تھما دیئے اور انہی ذرات نے مجھے سوال کا جواب تھما دیا۔ بوڑھے نے دن بھر ذرات چن کر اچھی مزدوری جمع کی اور میں نے سوال کا پھن مار دیا۔۔۔ تلاش کے نتیجے میں یہ علم حاصل کیا کہ سنیارے کا دھتکارا ہوا بھی قیمتی ہوتا ہے۔ سب نسبتوں کا کھیل ہے۔۔
اب مجھے کس چیز کی تلاش ہے یہ اہم سوال ہے
آپ کو کس چیز کی تلاش ہے یہ اس سے بھی اہم سوال ہے۔
مجھے تو خوشی کی تلاش ہے۔ اپنے لئے مسکراہٹ ڈھونڈتا ہوں۔۔ میری ڈھونڈ مسکراہٹ پہ ختم ہوتی ہے اور اگلی مسکراہٹ کی ڈھونڈ شروع ہوتی ہے۔ مجھے سکون کی تلاش ہے (جو خوشی کا باعث ہے) ۔ مجھے محبت کی تلاش ہے جو سکون کا باعث ہے (اور سکون پھر سے خوشی کا باعث ہے)۔ مجھے اس گرم مہینے میں ٹھنڈک کی تلاش ہے جو سکون کا باعث ہے (وہ سکون جو خوشی کا باعث ہے) ۔ مجھے پیاس کی حالت میں میں یخ پانی کی تلاش ہے جو سکون کا باعث ہے (اور سکون خوشی کا باعث ہے)۔
میری تقریباً ہر تلاش سکون پہ ختم ہوتی ہے اور سکون خوشی کا باعث ہے۔ بدھ نے اپنی خواہشات کی نفی کی اور نفس کشی شروع کر دی تو اس نے یہ سب بھی سکون کی تلاش میں کیا۔ انہیں بھوک پیاس اور تنہائی میں سکون ملا اور ان کا سکون ان کی خوشی کا باعث ہوا۔ پھر نروان کے بعد بھی ان کی اگلی ڈھونڈ شروع ہوئی۔ نروان کے بعد بدھ نے محل جا کر اپنی بیوی سے معافی مانگی تھی۔ اس بات پر نہیں کہ بنواس کاٹا تھا بلکہ اس بات پر کہ بنا بتائے رات کی تاریکی میں محل چھوڑ دیا تھا۔ بیوی کی تلاش اسی وقت ختم ہوئی تھی اور یہ اس کے لئے خوشی کا باعث تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے بتا کر چلے جاتے۔ تم راجہ تھے تمہیں انکار تو نہیں کیا جانا تھا۔
تو ڈھونڈ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ہر تلاش کے آگے ایک اور تلاش ہوتی ہے۔ نروان کے بعد بھی اگلی ڈھونڈ ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ جب تلاش ختم ہوتی ہے تو یا دفنا دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے۔۔

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply