ہتھیلی پر زخم کا نشان/جاوید ایاز خان

شناختی کارڈ کا جراء ۱۹۷۰ء کے الیکشن کے بعد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں شروع ہوا تو بہت سی چیزوں میں بہتری آئی ۔شناختی کارڈ سے اب کسی کو شناخت کرنا بے حد آسان ہو گیا ہے ۔شناختی کارڈ کے اجراء سے قبل یہ ذرا مشکل کام تھا ۔تحصیل ،تھانے،اسکول ،الیکشن ،عدالت ،اور فوج سمیت ہر جگہ نام اور ولدیت کے ساتھ ساتھ اصل آدمی کو کنفرم کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کی گواہی اور ساتھ ساتھ متعلقہ شخص کی کوئی اہم شناختی علامت بھی درج کرنی پڑتی تھی۔ فوج کے سروس کارڈ اور ملازمیں کی پینشن بک اس کےبغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی ۔ جب شناختی کارڈ بننے لگے تو اس کے فارم میں بھی ایک کالم میں شناختی علامت لکھی جاتی ہے۔جیسے ناک پر تل کا نشان ،ماتھے یا چہرے پر مسے کا ہونا،ہاتھ ،پیر ،ناک ،کان،آنکھ ،کا نہ ہونا ،جسم کے کسی حصہ پر کسی قسم کی خاص علامت یا زخم یا چوٹ کے نشان کو بھی شناختی علامت تصور کیا جاتا تھا ۔اسکا اندراج شناختی کارڈ سمیت تما م اہم کاغذات پر شناختی نشان کا لکھنا ضروری ہوتا تھا ۔میری بڑی بہن کے ماتھے پر زخم کا نشان تھا وہی لکھا جاتا تھا مگر میرے چہرے پر کوئی ایسی علامت یا نشان نہ تھا جو میرا شناختی نشان لکھا جاتا البتہ میری بائیں ہتھیلی کے عین درمیان ایک بڑے زخم کا نشان تھا جو آپریشن کی وجہ سے بن گیا تھا ۔میری والدہ محبت اور مذاق میں کہا کرتی تھی کہ یہ بدی اور شرارت کا نشان ہیں ۔بہرحال میرے شناختی کارڈ میں بھی میری شناختی علامت “بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر زخم کا نشان ” درج تھا اور کئی مرتبہ مجھے دکھانا بھی پڑتا تھا ۔یہ نشان کیسے بنا اور کیوں آپریشن کرانا پڑا جو میرے ہاتھ پر تمام عمر سے موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا ؟یہ ایک دلچسپ داستان ہے مجھے جب بھی اس واقعہ کاخیال آتا ہے تو مجھے وہ عظیم ہستی بھی یاد آجاتی ہے جس نے میری جان بچائی اور اس نشان کے ساتھ ساتھ میرے ذہں بھی نقش ہو گئی ہے ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بچپن میں ہر بچے کی طرح میں بھی بےحد شرارتی ہو کرتا تھا اور کچھ دادا جی کے لاڈ سے بگڑ گیا تھا ۔ یہ ساٹھ کی دھائی کےا ٓٓخری سالوں کا واقعہ ہے جی ٹی روڈ کوٹ ادو پر ہمارے دادا جی کی اسٹیشنری اور شیشے کی دکان ہوا کرتی تھی۔ میں روز ان کے ساتھ جاتا اور شرارتیں کرتا رہتا تھا ۔دوکان کے تھڑے پر لوہے کی ایک کرسی پر بیٹھ جاتا اور کھیلتا رہتا تھڑے کے نیچے سیوریج کا گندا نالہ ہوا کرتا تھا ۔دوکان کے بالکل ساتھ ہی پوسٹ آفس ہوا کرتا تھا۔ جہاں لوگوں کی بڑی آمد رفت رہتی اور اکثر بہت سے واقف لوگ بھی ہمارے پاس آکر بیٹھ جاتے تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے شہر میں کوئی چھوٹی موٹی کا ر یا موٹر بھی نظر نہیں آتی تھی ۔البتہ ہفتے دس دن بعد ایک بڑی لمبی سی شاندار کار میں ایک شاندار لباس مین ملبوس سفید داڑھی والے بارعب بوڑھے بزرگ آتے اور گاڑی ہماری دوکان کے سامنے کھڑی کرکے خیال رکھنے کا کہتے اور پوسٹ آفس جاتے پھر اپنا کام کرکے واپس چلے جاتے اگر داداجی موجود ہوتے تو وہ جاکر ان کو سلام کرتے اور ملتے تھے ۔ہم ان کی گاڑی کاخیال رکھتے تھے ۔ایک دن وہ شاید جلدی میں تھے گاڑی اسٹارٹ چھوڑ کر چلے گئے ۔میں دیکھ رہا تھا ان کی گاڑی سے ہلکا ہلکا دھواں نکل رہا تھا مجھے شرارت سوجھی اور میں نے ان کے سلنسرمیں ریت ڈالنے لگا ۔مگر دھواں ریت واپس پھینک دیتا تو بڑا مزا آتا تھا ۔یکایک مجھے محسوس ہوا کےوہ آرہے ہیں تو میں دوڑ کر لوہے کی کرسی پر واپس جاکر بیٹھ گیا وہ ناجانےکیوں سیدھے کار کی بجاے میری طرف آےُ تو میں ڈر گیا اور سمجھا کہ انہوں نے مجھے شرارت کرتے دیکھ لیا ہے ۔گھبراہٹ میں میری کرسی پھسلی اور میں گندے نالے میں جاگر ا ۔نالے میں پڑا شیشہ میرے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے آر پاہوگیا خون کا فوارہ چھوٹ گیا ۔انہوں نے جلدی سے مجھے نالے اُٹھا لیا لیکن خون سے ان کے کپڑے بھی خراب ہو گئے۔ ہمساے دوڑے چاچا پیرو نے کپڑے سے ہاتھ باندھ دیا جب شیشے کا ٹکڑا کھنچ کر نکالا تو گویا ہر طرف خون خون ہو گیا دادا جی بھی پہنچ گئے انہوں نے مجھے اسی گاڑی میں ڈالا اور فورا” ہسپتال پہنچے گاڑی دیکھ کر ہسپتال میں کھلبلی مچ گئی لیکن میں بےہوش ہوچکاتھا ۔دوسرے روز ہوش آیا تو ہاتھ پر پٹی بندھی تھی کئی دن بے حد تکلیف رہی ۔بعد میں معلوم ہوا کے آپریشن ہوا ہے اورتین ٹانکے لگے تھے ۔دادا جی بار بار کہتے کہ نواب صاحب کا احسان ہے وہ نہ ہوتے تو جتناخون بہہ رہا تھا اس بچے نے زندہ نہیں بچنا تھا ۔اس دن مجھے پتہ چلا کہ وہ شخصیت نواب مشتاق احمد خان گورمانی مرحوم تھے ۔جو کبھی کبھی کوٹ ادو شہر کے ڈاکخانے تشریف لاتے تھے ۔ جو پاکستان کے عظیم سیاستدان تقسیم سے قبل بہاولپور ریاست کے وزیر اعظم ، تحریک پاکستان کے لیڈر اور قائداعظم کے قریبی ساتھی اور وزیر داخلہ پاکستان اور پنجاب اور مغربی پاکستان کے گورنر رہ چکے تھے ۔جو مجھے ہسپتال لےکر گئے اور اس وقت تک ہسپتال میں رہے جب تک میرا ُپریشن مکمل نہ ہوا اور پھر بے ہوشی کے عالم میں مجھے اپنی گاڑی پر ہی واپس گھر چھوڑ کر گئے ۔چند دن بعد پھر تشریف لاے ُ تو سیدھے میری جانب بڑھے بڑے ابا نے کہا نواب صاحب کا شکریہ ادا کرو کہ انہوں نے تمہیں بچا لیا ہے َ۔میں نے سلام کیا تو میرے سر پر نہایت شفقت سے ہاتھ پھیرا اور بولے آئندہ شرارت مت کرنا ۔آج بھی ان کا چہرہ میری نظروں کے سامنے ہے ان کی سفید داڑھی اور شفیق نظریں خوبصورت چوڑا چہرہ ہمیشہ نظروں کے سامنے رہتی ہیں ۔اور میں سوچتا ہوں کہ آج ہمارے سول آفیسران ،وزراء جج ،جنرل رئٹائر منٹ کے بعد بھی اپنی سیکورٹی کا بے حد خیال رکھتے ہیں ۔بیشتر تو اپنی سیکورٹی کے پیش نظر ملک ہی چھوڑ جاتے ہیں ۔وہ کیسے نواب ،گورنر جنرل ،وفاقی وزیر تھے اور جن کاآج بھی پاکستان کی تاریخ میں بہت بڑا نام ہے ان کا پاکستان کے لیے کتنا بڑا کردار تھا ؟مگر رئٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتے تھے ۔نہ انہیں موت کا ڈر ہوتا تھااورنہ وہ عوام کی جوابدہی سے گھبراتے تھے ۔نہ وہ اپنے پرٹوکال کا کوئی خیال رکھتے تھے۔وہ ۱۹۸۱ء تک حیات رہے جب میں تقریبا” ۲۵ سال کا ہوچکا تھا اور ان کا احترام ہر خاص وعام بڑے بزرگوں کی طرح کرتا تھا وہ ہر علاقائی تقریب میں شرکت کرتے اور لوگوں میں گھل مل جاتے تھے ۔وہ اتنے روادار تھے کہ اپنے دور اقتدار میں اپنے گھر ٹھٹھہ گورمانی تک سڑک تک نہ بنوائی کہ اسے کرپشن یا اقربا پروری نہ سمجھی جاے ۔سیاست میں شرافت کا پیکر تھے ۔غرور وتکبر سے مبرا رہتے تھے ۔ایوب خان کے دور میں سیاست چھوڑی تو سارا وقت اپنی مسجد میں عبادت میں گزارتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعظم بہاول پور تھے تو بھی جمعہ الصادق جامع مسجد شاہی بازر جایا کرتے تھے اور یہیں انہوں نے جمعہ کے روز ریاست بہاولپور کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا تھا ۔بہاولپور سے قیام پاکستان کے وقت ہندوں اور سکھوں کو بحفاظت ہندوستان پہچانے کے عمل کی خود نگرانی بھی کی تھی ۔سوال یہ ہے کہ آج کے بڑے لوگوں کو جان کا خطرہ کیوں ہوتا ہے ؟اور وہ بےدھڑک و بے خوف کیسے عہدے سے ہٹ کر بھی ۲۷ سال تک عوام میں رہے ؟اپنی وفات سے قبل مئی ۱۹۸۰ء میں نواب مشتاق احمد خان صاحب نے اپنی جائداد کا بڑا حصہ دے کر گورمانی فاونڈیشن قائم کی ۔جس فاونڈیشن نے لاہور یونیورسٹی میں ایک ارب روپے کا انڈومنٹ فنڈ قائم کیا۔ جو پسماندہ طلبا کو مدد فراہم کرتا تھا اور اس علاقے کے بچوں کو سکالر شپ فراہم کرتا تھا ۔ حال ہی میں فاونڈیشن کی طرف سے فنڈ تعلیمی ادارے لمز کو دیا گیا جسے اس ادارے کے لیے سب سے بڑا تحفہ کہا جاتا ہے۔ جہاں ان کے نام سے منسوب ایک بلاک قائم کیا گیا ہے۔ اس فنڈ سے اس علاقے کے بچوں کو کتنا فائدہ ہوا یہ ایک سوالیہ نشان ہے ؟ کاش وہ اس علاقے میں کوئی بڑا تعلیمی ادارہ قائم کر جاتے ؟۔گرمانی فاونڈٰشن کمیونٹی ویلفیر شعبہ تعلیم کے متعد منصوبے ضلع مظفر گڑھ ہ میں آج بھی فعال ہیں۔اس کے علاوہ مظفرگڑھ میں سرادر کوڑے خان جتوئی کے بعد مجھے ان کے علاوہ کوئی مثال نظر نہیں آتی جس نے اپنے اثر رسوخ اور خاندانی اثاثوں کا رخ وہاں کے محروم لوگوں کی جانب موڑا ہو۔ انہیں اپنے علاقے اور وسیب سے بے حد محبت تھی ۔اس لیے بعد از وفات انہوں نے اپنی اسی مٹی مین دفن ہونا پسند کیا جس سے ان کے بزرگوں کا قدیم رشتہ وابستہ ہے ۔میری ہتھیلی پر زخم کا نشان انکی یاد کے طور پر محفوظ ہے ۔شاید میری قبر میں ساتھ جاے گا میں آج بھی جب بھی یہ نشان دیکھتا ہوں تو نواب مرحوم کا شفیق چہرے میرے سامنے آجاتا ہے ۔ایسے لوگ دلوں میں بستے ہیں واقعی انہیں کسی سیکورٹی یا پروٹوکول کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply