جغرافیہ کے قیدی (25) ۔ مغربی یورپ ۔ ملک/وہاراامباکر

“ہر طرف ماضی بکھرا پڑا ہے۔ پورا برِاعظم یادداشتوں سے بھرا ہوا ہے”

Advertisements
julia rana solicitors london

مرنڈا موئیلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روشن خیالی کے عہد کی پیدائش یوریشیا کے مغربی حصے سے ہوئی تھی۔ یہاں سے صنعتی انقلاب برپا ہوا۔ اور یہ جدید دنیا کا بیج تھا۔ تو آج کی دنیا کے لئے اگر کسی کا شکرگزار ہونا ہے یا موردِ الزام ٹھہرانا ہے، تو وہ یورپ کا خطہ ہے۔
اس کے موسم میں بارش اتنی مناسب مقدار میں ہوتی ہے کہ بڑے پیمانے پر فصلیں کاشت کیا جا سکیں۔ مٹی اچھی ہے۔ اور اس نے یہاں پر بڑی تعدادا میں آبادی ممکن کی ہے۔ گرمیوں میں یہاں موسم اتنا معتدل ہے کہ آسانی سے مشقت والا کام کیا جا سکتا ہے۔ اور سردی اپنے ساتھ ایک اور نعمت لے کر آتی ہے۔ موسمِ سرما میں درجہ حرارت اتنا گر جاتا ہے کہ بہت سے جراثیم مار دیتا ہے۔ اور اس وجہ سے بیماریوں کا بڑا مسئلہ کم ہو جاتا ہے جو دنیا کے بڑے حصے کو درپیش ہے۔
اچھی فصل کا مطلب یہ ہے کہ اضافی خوراک سے تجارت کی جا سکتی ہے۔ اس سے تجارتی مراکز شہروں میں بدلتے ہیں۔ اور اضافی خوراک کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ ایسے لوگ افورڈ کر سکتا ہے جو سوچ سکیں اور اپنے خیالات کو نظریات اور ٹیکنالوجی میں تبدیل کر سکیں۔
مغربی یورپ میں صحرا نہیں ہیں۔ برفانی بنجر علاقے صرف شمال بعید میں ہیں۔ زلزلے، آتش فشاں اور بڑے سیلاب بہت کم ہیں۔ دریا لمبے اور چپٹے ہیں جن میں سفر کیا جا سکتا ہے اور تجارت کے لئے بہترین ہیں۔ اور جہاں پر یہ سمندر میں جا گرتے ہیں، ان ساحلوں میں ۔۔۔ جو کہ مغرب، شمال اور جنوب میں ہیں ۔۔ قدرتی بندرگاہوں کی بہتات ہے۔
اور یہ وہ عوامل تھے جنہوں نے یورپ کو صنعتی انقلاب کا مرکز بنایا اور ساتھ ہی بڑے پیمانے پر جنگ کرنے کی صلاحیت کا بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یورپ پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہاں پر اتنے ممالک کیوں ہیں۔ امریکہ میں ایک زبان بولی جاتی ہے، ایک ہی کلچر ہے جو بہت جلد پھیلا اور بڑا ملک بن گیا۔ جبکہ یورپ کے پہاڑ، دریا اور وادیاں ایسی ہیں کہ یہ ہزاروں سال میں بڑھا ہے اور جغرافیائی اور لسانی علاقوں میں منقسم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال کے طور پر، آئیبریا کے جزیرہ نما کے قبائل شمال میں فرانس تک نہیں پھیل سکے کیونکہ درمیان میں پائیرینی پہاڑ موجود ہیں۔ یہ ہزاروں سال تک یہاں ہی رفتہ رفتہ اکٹھے ہوتے ہے اور اس علاقے میں پرتگال اور سپین بنے۔ اور سپین بھی مکمل طور پر متحد ملک نہیں۔ کاٹالونیا میں علیحدگی پسندوں کی آواز بلندتر ہو رہی ہے۔ فرانس بھی قدرتی رکاوٹوں کا نتیجہ ہے۔ ایلپس، پائیرینی، دریائے رہائن اور بحرِاوقیانوس۔
یورپ کے بڑے دریا آپس میں بھی نہیں ملتے۔ (ماسوائے ساوا کے جو کہ ڈینیوب میں جا کر گرتا ہے)۔ یہ جزوی طور پر اس کی وضاحت کرتا ہے کہ چھوٹی جگہ پر اتنے ممالک کیوں ہیں۔ دریا کئی جگہوں پر سرحدوں کا کام کرتے ہیں اور ہر سرھد اپنے الگ معاشی حال میں ہے۔ اور ان دریائے کے دونوں اطراف میں کم از کم ایک بڑی شہری آبادی ہوئی جو کہ کئی جگہوں پر دارالحکومت بن گئے۔
یورپ کا دوسرا بڑا دریا اس کی مثال ہے۔ ڈینیوب جرمنی کے بلیک فارسٹ سے بہتا ہوا جنوب میں بحیرہ اسود میں جا کر گرتا ہے۔ ڈینیوب کا طاس اٹھارہ ممالک کو متاثر کرتا ہے اور درمیان میں کئی ممالک کی سرحد بناتا ہے۔ سلواکیہ اور ہنگری، کروشیا اور سربیا، سربیا اور رومانیہم رومانیہ اور بلغاریہ۔ دو ہزار سال پہلے یہ رومی سلطنت کی ایک سرحد تھا۔ اور اس نے اس سلطنت کو عظیم تجارتی راستے فراہم کئے تھے۔ اور ان کی وجہ سے ویانا، براٹسلاوا، بڈاپسٹ اور بلغراد بسے تھے جو کہ آج مختلف ممالک کے دارالحکومت ہیں۔ اس نے اس کے بعد آنے والی دو عظیم سلطنتوں کے درمیان سرحد کا کام کیا جو کہ عثمانی سلطنت اور آسٹروہنگیرین سلطنت تھی۔ جب یہ دونوں سکڑیں تو نئی قومیں ابھریں۔ اور یہ نئے ممالک بنے۔ لیکن ڈینیوب کے علاقے کا جغرافیہ ۔۔ خاص طور پر جنوب میں ۔۔۔ یہ وضاحت کرتا ہے کہ یہاں پر چھوٹے ممالک کی بہتات کیوں ہے جبکہ شمالی یورپی میدانوں میں ایسا نہیں ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply