کوانٹم تھیوری کی تلاش (68)۔۔وہاراامبار

کوانٹم دنیا سے حقائق سامنے آ رہے تھے لیکن 1920 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں کوئی جنرل کوانٹم تھیوری موجود نہ تھی اور نہ ہی کوئی اندازہ ہو رہا تھا کہ ایسی تھیوری ممکن بھی ہو سکے گی۔ بوہر نے چند ایسے اصول بنائے تھے، جو اگر درست ہوتے، تو اس چیز کی وضاحت کر سکتے تھے کہ ایٹم مستحکم کیوں ہیں۔ لیکن یہ اصول ٹھیک کیوں ہیں؟ یا ان کی مدد سے ہم دوسرے کسی سسٹم کا تجزیہ کیسے کریں؟ کوئی نہیں جانتا تھا۔

کوانٹم فزسٹ اس صورتحال سے دلبرداشتہ دکھائی دیتے تھے۔ میکس بورن (جو بعد کے نوبل انعام جیتنے والے بنے) نے لکھا، “میں کوانٹم تھیوری کے بارے میں جتنا سوچتا ہوں، اتنا مایوس ہو جاتا ہوں۔ میں ہیلیم اور دوسری ایٹمز کی کیلکولیشنز کرنا چاہ رہا ہوں اور کامیابی نہیں ہو رہی۔ کوانٹم ایک بڑی گڑبڑ ہے”۔ وولف گینگ پالی (جنہوں نے بعد میں ایک کوانٹم خاصیت، سپن کی ریاضیاتی تھیوری دی اور نوبل انعام جیتا) لکھتے ہیں، “اس وقت فزکس ایک عجیب سے کھچڑی ہے۔ یہ میرے لئے بہت مشکل ہے۔ کاش میں فلم ایکٹر ہوتا یا سٹیج کامیڈین ہوتا۔ میں نے فزکس کے بارے میں نہ سنا ہوتا”۔

فطرت معمے دیتی ہے اور ہم ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ انسانی فکر کا سب سے کلیدی عنصر faith ہے۔ اور بطور سائنسدان ایک بہت گہری faith کی ضرورت ہے کہ ان معموں کے پیچھے گہرے سچ پنہاں ہیں۔ یہ فیتھ ہے کہ کائنات عجیب سی گڑبڑ نہیں بلکہ کسی قسم کے اصولوں کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ فیتھ ہے کہ ہمیں ان تک پہنچنے کا راستہ مل سکتا ہیں۔

اگرچہ کوانٹم محققین اس بارے میں بالکل کچھ نہیں جانتے تھے کہ کوانٹم تھیوری کیا ہو گی لیکن اس پر بھروسہ تھا کہ ایسی کوئی تھیوری ضرور مل جائے گی۔ جس دنیا کی تلاش کر رہے تھے، وہ وضاحت کے لئے کوئی سرا نہیں دے رہی تھی۔ یہ فطرت بمقابلہ انسانی ضد تھی۔ امید اور یقین کی بنیاد پر کیا جانے والا کام تھا۔ اس میں شک اور مایوسی تھی، ویسے ہی جیسے ہم سب میں ہوتی ہے۔ مشکل اور طویل نامعلوم سفر کا جذبہ تھا جس میں سائنسدانوں نے برسوں لگا دئے۔ صرف اس یقین کے پیچھے کہ اس کے پیچھے انہیں کچھ مل جائے گا۔ اور ہر مشکل سفر کی طرح اس میں کامیاب ہونے والے وہ تھے، جو اس یقین میں پختہ تھے۔ اس پر کمزور faith رکھنے والے کامیابی سے پہلے الگ ہو گئے تھے۔

بورن اور پالی کی مایوسی کو سمجھنا مشکل نہیں۔ کوانٹم تھیوری نہ صرف خود بڑا چیلنج تھی بلکہ یہ ایک مشکل وقت تھا۔ کوانٹم کے بانیوں میں سے زیادہ تر جرمنی میں تھے۔ یہاں پر نئے سائنسی آرڈر کی تلاش ایک ایسے وقت میں کی جا رہی تھی جب معاشرتی اور سیاسی آرڈر منہدم ہو رہا تھا۔ 1922 میں جرمن وزیرِ خارجہ قتل کر دئے گئے۔ 1923 میں جرمن کرنسی کی قدر اس قدر گر چکی تھی کہ ایک کلوگرام روٹی کی قیمت پانچ کھرب جرمن مارک تک جا پہنچی تھی۔ لیکن نئے کوانٹم فزسٹ اپنی گزربسر ایٹم کو سمجھنے کے لئے کر رہے تھے۔ اس چھوٹے سکیل پر فطرت کے بنیادی قوانین تلاش کر رہے تھے۔

اور اس میں بالآخر اس دہائی کے وسط میں امید دکھائی دینے لگی۔ اس کی ابتدا ایک پیپر سے ہوئی جو 1925 میں شائع ہوا۔ یہ کرنے والے 23 سالہ سائنسدان ورنر ہائزنبرگ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہائزنبرگ ایک بے حد ذہین سٹوڈنٹ تھے جنہوں نے 1920 میں ریاضی میں ڈاکٹریٹ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کے والد نے اپنے تعلقات کی وجہ سے میونخ یونیورسٹی میں مشہور ریاضی دان فرڈیننڈ وان لینڈیمین سے انٹرویو کا بندوبست کر دیا تھا۔ لیکن لینڈیمین نے انہیں مسترد کر دیا تھا کیونکہ انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیویٹی پر ہرمین ویل کی لکھی کتاب پڑھی ہے۔ لینڈیمین نے یہ سنتے ہی انٹرویو ختم کر دیا تھا کہ “پھر تم ریاضی کے لئے بے کار ہو چکے ہو”۔

لینڈیمین کے لئے فزکس میں دلچسپی کسی ریاضی دان کے لئے بدذوقی کی علامت تھی۔ لیکن ان کے اس کمنٹ نے فزکس کی تاریخ کا رخ موڑ دیا کیونکہ ہائزنبرگ اگر ریاضی کی طرف چلے جاتے تو فزکس اس سائنسدان سے محروم ہو جاتی جس کے آئیڈیا کوانٹم تھیوری کا دِل بنے۔

ہائزنبرگ نے سمرفیلڈ کی زیرِ نگرانی 1923 میں ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ پھر بورن کے زیرِنگرانی کام کیا۔ ان کا بڑا کام اس وقت شروع ہوا جب وہ کوپن ہیگن میں نیلز بوہر سے 1924 میں ملنے گئے۔

جب ہائزبرگ کوپن ہیگن پہنچے تو بوہر اپنے ماڈل میں ترمیم کی کوشش کر رہے تھے اور غلط سمت کی طرف جا رہے تھے۔ ہائزنبرگ ان کے ساتھ مل گئے۔ یہ غلط سمت اس لئے نہیں تھی کہ کاوش ناکام رہی بلکہ یہ کہ اس کا مقصد ناکام رہا۔ بوہر اپنے ماڈل کو فوٹون کے تصور سے نجات دلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ عجیب لگے کیونکہ یہ لائٹ کوانٹا کا ہی تصور تھا جس نے بوہر کو یہ سوچنے کی طرف متوجہ کیا تھا کہ ایٹم میں بھی انرجی کے ڈسکریٹ لیول ہو سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر سائنسدانوں کی طرح بوہر کو فوٹون کو حقیقی شے سمجھنے میں تامل تھا۔ انہوں نے خود سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ ایٹم کا ایسا ماڈل بنا سکتے ہیں جس میں فوٹون نہ آتا ہو۔ بوہر کا خیال تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ بوہر اپنے خیالات پر محنت کر کے کامیاب ہوتے رہے تھے لیکن اس بارے اس آئیڈیا کے بارے میں انہوں نے محنت کی اور ناکام رہے۔

اور یہ ناکامیاں ایک بہت اہم نکتے کی طرف لے کر جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply