پانامہ کا حلوائی اور جے آئی ٹی کی کڑوی مٹھائی

دو ماہ قبل جوش و خروش اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال کر کھائی جانے والی مٹھائیوں سے منہ اتنی جلدی کڑوا ہو جائے گا، اس کا اندازہ شاید کسی کو نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی کی تشکیل (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے لئے اطمینان بخش تھی۔ جے آئی ٹی نے اپنا کھوجی کام شروع کیا تون لیگ نے اپنا پہلا اعتراض پیش کر دیا کہ جے آئی ٹی میں عمران خان کے رشتہ داروں کی وجہ سے تحقیقات پر اثر پڑے گا۔ سپریم کورٹ نے اس اعتراض کو رد کر دیا۔ بہرحال کام جاری رکھتے ہوئے جے آئی ٹی میں پیشیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بند کمرے میں کی جانے والی تحقیقات کو ہضم کرنا مشکل ہو رہا تھا، ہمارے لئے نہیں ،ن لیگ کے لئے۔ کئی کئی گھنٹوں کی مغزماری ہوتی، اندر جے آئی ٹی کے سوالات ن لیگ کے پسینے نکال دیتے جبکہ باہر میڈیا کا شور و غل الگ سے ہوتا۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ یہ امتحان صرف شریف فیملی کا نہیں بلکہ بیچاری عوام کی بصارت و سماعت کا بھی تھا۔ ہر ٹی وی چینل پر ایک ہی خبر کہ جے آئی ٹی کے حوالے سے پاکستانی”شاہی” خاندان کا کیا ہو گا اور دوسری جانب کپتان کے بیانات، مچھلی منڈی کا گمان ہوتا تھا۔خیر تو بات ہو رہی تھی جے آئی ٹی کی تحقیقات کی۔ بھئی بڑی ہمت کی بات ہے کہ اتنے پریشر میں، جب ادارے وزیرِ اعظم کے ماتحت کام کر رہے ہوں اور شریف فیملی کا ہی احتساب کرنا ، جے آئی ٹی کا ایک کارنامہ ہے۔

جے آئی ٹی کے تحقیقاتی طریقے سے حکومت کو کچھ کچھ اندازہ ہو گیا تھا کہ معاملہ گھمبیر ہو رہا ہے تو عقلِ کل قسم کے رہنماؤں نے جے آئی ٹی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ انہیں ڈرایا دھمکایا گیا اور ان پر پریشر ڈالا گیا اور پھر کچھ باکمال رہنماؤں نے ذاتی ڈائس پر (آکھاں دھی نوں تے سناواں نوہ نوں – مخاطب بیٹی کو کروں اور سناؤں بہو کو) کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے جے آئی ٹی کو لفظی گولا باری کا نشانہ بنایا۔ جس کو جب موقع ملتا وہ آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے میدان میں کود پڑتا اور ایسے جوش و خروش میں تقاریر کی جاتیں کہ ہوش و حواس ہی گم ہو جائیں۔ کچھ جوشیلے رہنما بھول جاتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور مقابل کون ہے جس کو رگیدا جا رہا ہے۔ نہال ہاشمی کا بیان ہی دیکھ لیجئے، انہوں نے تو اپنی طرف سے کمال ہی کر دیا تھا اور اسی کمال کا ہی جمال تھا جو کہ الٹا ان کے گلے پڑ گیا۔ خواجہ سعد رفیق نے بھی لفظی ٹرین سے مخالفین کو کچلنے کی پوری کوششیں کیں۔ گیہوں کے ساتھ گھن کو بھی رگڑا لگانے والے طلال چوہدری، دانیال عزیز، خواجہ آصف، مریم اورنگزیب اور عابد شیر علی وغیرہ یہ بھول گئے تھے کہ جے آئی ٹی کیا ہے۔ جے آئی ٹی کا اپنا کوئی وجود نہیں تھا، اسے تشکیل دیا سپریم کورٹ نے اور اس کی نگرانی خود سپریم کورٹ کر رہی تھی۔ تو کیا یہ سب بلا واسطہ سپریم کورٹ کو سنوایا جا رہا تھا اور کیا یہ توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔

جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے اور اس پر اپنے تحفظات ظاہر کرنے میں حکومت کی حکمتِ عملی، جو میری سمجھ میں آتی ہے، یہ ہے کہ شروع سے ہی تھوڑا تھوڑا احتجاج جاری رکھو۔ اگر فیصلہ حق میں آئے تو بہت ہی اعلیٰ اور اگر مخالف آئے تو”ہالالالا”۔ یہ سارا کھیل ایک مستطیل پر مشتمل ہے جس کے چاروں کونوں پربیٹھنے والے اپنے اپنے طریقوں سے اس کھیل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کسی ایک کی ہار جیت کا فیصلہ تو ہونا ہی ہوتا ہے اور اس سے جمہوریت کو کتنا نقصان ہوتا ہے یا فائدہ، یہ سوچنے کا وقت اس کھیل میں شامل کھلاڑیوں کے پاس کہاں۔ ڈوریاں جن کے ہاتھ میں ہیں وہ کیا چاہتے ہیں یہ خدا ہی جانتا ہے۔پر ایک چیز جس نے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات کو جنم دیا ہو گا وہ یہ کہ جے آئی ٹی میں پیش ہونے والے سرکاری عہدہ داروں کی سیکورٹی اور پروٹوکول تو سمجھ میں آتا ہے پر وزیرِ اعظم صاحب کی تو اولاد کسی عہدہ پر فائز نہیں، تو ان کے لئے اتنا پروٹوکول کس خوشی میں دیا گیا۔ شہزادی مریم نواز کے ساتھ 13 گاڑیوں کا قافلہ بھیجنا کہیں ہمیں مستقبل کی وزیرِ اعظم کی جھلک دکھلانے کے لئے تو نہیں تھا؟ اور پھر محترمہ مریم نواز کا انتہائی معصومانہ انداز سے خود کو بے قصور ثابت کرنے کے لئے اہلِ بیت کے ساتھ جوڑنا اپنے جرم کو مذہب کے پردے میں چھپانے کی ایک بھونڈی کوشش تھی۔ جے آئی ٹی میں مریم نواز کی پیشی پر جو واویلا کیا گیا کہ قوم کی بیٹی کی تذلیل کی جا رہی ہے وہاں یہ شور شرابہ کرنے والوں کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ روزانہ کتنی ہی قوم کی بیٹیاں ضلعی عدالتوں میں انصاف کے حصول کے لئے دھکے کھاتی اور تذلیل برداشت کرتی ہیں۔ ہے کوئی اس بات کا جواب آپ کے پاس؟

ریکارڈ ٹیمپرنگ، فوٹو لیکس اور بہت سے روڑے مل کر بھی جے آئی ٹی کو اپنا کام کرنے سے نہ روک سکے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ جب سے پانامہ لیکس شروع ہوا ہے، لیکس کا ٹرینڈ کچھ زیادہ ہی زور پکڑ گیا ہے۔ جیسے کہ ڈان لیکس، فوٹو لیکس اور دی نیوز میں جے آئی ٹی کی رپورٹ لیک۔ اب یہ مقامِ حیرت ہے یا عبرت، یہ تو پتہ نہیں پر حتمی رپورٹ پیش ہونے سے ایک دن قبل دی نیوز میں شائع ہونے والا آرٹیکل جس میں 13 سوالات معہ جوابات شائع کیے گئے نے تہلکہ مچا دیا۔ یہ آرٹیکل کیسے چھپا اور کس کے کہنے پر چھاپا گیا اس کا جواب تو احمد نورانی، میر شکیل الرحمٰن اور جنگ گروپ ہی دے سکتا ہے۔بہرحال 10 جولائی کو حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں معہ ثبوتوں کی ٹرالی کے پیش کر دی گئی جس پر ملکہ ٹویٹ مریم نواز صاحبہ کا فوری ٹویٹ موصول ہوا، “شریف فیملی پر ثبوت نہ دینے کا الزام لگانے والے آج سپریم کورٹ میں شریف فیملی کے کاروبار کے 1960 سے اب تک کے تمام ثبوتوں کی ٹرالی دیکھ لیں”۔

جی محترمہ ہم نے تو دیکھ لی لیکن شاید آپ یہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ ثبوتوں کی ٹرالی شریف فیملی کے خلاف جانے والی ہے کیوں کہ رپورٹ کے مطابق شریف فیملی کے کاروبار کی تفصیلات، پیسوں کی ترسیل، مہنگی خریدی جانے والی جائیدادیں، قطری خط کے بیان میں تضاد اور آفشور کمپنیوں کی ملکیت سب ہی الجھے ہوئے ہیں۔ نہ ہی کوئی منی ٹریل ملی اور نہ ہی کوئی اصلی دوستاویزات پیش کی گئیں۔ میں ان سب کی تفصیل میں تو نہیں جانا چاہتی لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ محترم وزیرِ اعظم صاحب، اگر جے آئی ٹی کی تشکیل کے وقت اخلاقی طور پر مستعفی ہو جاتے تو لوگوں کی ہمدردیاں آج ان کے ساتھ اور بھی زیادہ ہوتیں۔ لیکن اب اس رپورٹ کے بعد آپ وزیرِ اعظم کے عہدے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں۔ گو کہ ن لیگ نے اس دوران سیاسی شہید بننے کی پوری کوشش کی تھی جو کہ بارآور ثابت نہ ہو سکی۔ سپریم کورٹ نے ریکارڈ ٹیمپرنگ کرنے پر ظفر حجازی پر مقدمہ درج کرنے، جے آئی ٹی کے ارکان کو تحفظ فراہم کرنے اور متنازعہ تقاریر کرنے والوں کا ریکارڈڈ سکرپٹ طلب کر لیا ہے اور سماعت اگلے پیر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ن لیگ نے رپورٹ کے خلاف سیاسی جنگ کا طبل بجا دیا ہے۔ یہاں پی ٹی آئی کے رہنما، جن کی بے سروپا باتوں سے پارٹی اخلاقی طور پر مردہ ہو چکی تھی، جے آئی ٹی کی اس رپورٹ نے اس میں نئی روح پھونک دی ہے۔ اچانک اور حادثاتی طور پر خان صاحب، جو کہ کرکٹ کے ہیرو تو تھے ہی، اب سیاسی ہیرو بھی بن گئے ہیں۔ صاحبو! جس ہمت و حوصلے کا مظاہرہ آپ نے پانچ ماہ کیا ہے ، اس کا مزید مظاہرہ جاری رکھیں کیوں کہ ابھی انگور کھٹے ہیں کے مصداق شریف فیملی کے مستقبل کا فیصلہ نہیں سنایا جائے گا۔ پیر سے جو سماعت شروع ہو گی اس میں ریکارڈ ٹیمپرنگ کرنے والے پیشیاں بھگتائیں گے اور ساتھ ہی ن لیگی رہنما بھی اپنی اپنی صفائیاں پیش کرتے نظر آئیں گے۔ جیسا کہ اسحاق ڈار صاحب فرما رہے تھے کہ میں سپریم کورٹ میں تمام ریکارڈ پیش کروں گا، میرے پاس سوئی سے لے کر تمام سرمائے کا ریکارڈ موجود ہے۔ ڈار صاحب جے آئی ٹی نے آپ کو چائے پر تو نہیں بلایا تھا نا، ریکارڈ ہی پیش کرنے کے لئے بلایا تھا۔ وہیں دے دیتے انہیں ریکارڈ۔لگتا ہے کہ اب شاید پھر سے سپریم کورٹ کا احاطہ آباد ہونے کا وقت آ گیا ہے۔

Facebook Comments

مہر ارم بتول
وومنز سٹڈیز اور انتھرپالوجی میں ڈگری حاصل کی اور سیاسی و سماجی موضوعات پر قلمکاری کے ذریعے ان موضوعات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جڑے ایشوز پر روشنی ڈالنے کی سعی کرتی ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply