کینسر (40) ۔ پرواہ/وہاراامباکر

اونکولوجی وارڈز میں “ایک وجہ، ایک علاج” کی ڈاکٹرائن کے تحت بلاتخصیص سائیٹوٹوکسک ادویات کا اسلحہ پورے زور سے استعمال کئے جانے کا طریقہ جاری تھا۔
اور اس کی تین وجوہات تھیں۔ ایک مریضوں کا تقاضا تھا کہ کچھ کیا جائے۔ دوسرا ڈاکٹروں کا اعتماد تھا کہ کچھ کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اور تیسرا یہ کہ اس کا علم نہیں تھا کہ آخر اس کے سوا اور کیا بھی کیا جائے۔ کچھ نہ کرنا اور مریض کو بے یارومددگار اس کے حال پر چھوڑ دینا تو ڈاکٹر کے لئے اپنے پیشے سے ہی بے وفائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونکولوجی میں ایک متبادل آواز 1980 کی دہائی میں اٹھی۔ اور یہ نئی نہیں، صدیوں پرانی تھی۔ کیموتھراپی اور سرجری کے ایک کے بعد دوسرے ٹرائل ہو رہے تھے جبکہ شرحِ اموات میں خاص فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ اور اس وجہ سے کیموتھراپسٹ اور سرجن کی نئی نسل نے ایک قدیم فن واپس سیکھنا شروع کر دیا۔ یہ مریض کی پرواہ کرنے کا فن تھا۔
لاطینی زبان میں palliare کے لفظ کا مطلب چھپانے کا ہے۔ اس سے palliative care نکلا ہے۔ میڈیسن کی اس شاخ کا مقصد مریضوں کی تکلیف کم کرنا ہے اور بیماری کے اثرات چھپانا ہے۔ اس میں حدف بیماری کا علاج کرنا نہیں بلکہ مریض کی زندگی کی کوالٹی بہتر بنانا ہے۔
امریکہ میں جنون علاج کرنے کا تھا جبکہ بسترِ مرگ پر پڑے کینسر کے مریضوں کی تکلیف رفع کرنے کی تحریک یورپ سے شروع ہوئی۔ اور اس کی راہنما سسلی سینڈرز تھیں۔ سابقہ نرس جو فزیشن بنی تھیں۔ لندن کے کینسر وارڈز میں ان کا واسطہ ان لاعلاج مریضوں سے تھا جو بغیر کھڑکی کے کمروں میں موت کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ اس جنگ کے زخمی تھے جن کی طرف کسی کی توجہ نہیں تھی۔
سینڈرز نے پیلیٹو میڈیسن کی اصطلاح ایجاد کی۔ ماہرینِ نفسیات، بے ہوشی کے ماہر، فزیکل تھراپسٹ، بوڑھوں کے معالج اور نیورولوجسٹ کی مدد سے انہیں دیکھ بھال فراہم کر رہی تھیں۔ ان کا مقصد ان مریضوں کے لئے موت تک کا وقت باوقار اور تکلیف کے بغیر گزارنے کا تھا۔ لندن میں انہوں نے ایسے مریضوں کو اونکولوجی وارڈز سے نکالا۔ ان کے لئے 1967 میں الگ مرکز بنایا۔
امریکہ میں اس کے خلاف مزاحمت گہری تھی۔ ڈاکٹر موت کی بو سے الرجک تھے۔ یہ تسلیم کر لینا کہ اب کچھ اور نہیں کیا جا سکتا اور علاج ترک کر کے مریض کی دیکھ بھال پر توجہ دی جائے؟؟ یہ ناکامی کا اعتراف تھا۔ یہ ان کے پیشے کے لئے ناقابلِ قبول تھا۔ یہاں پر پیلئیٹو میڈیسن دس سال بعد پہنچی۔
“زندگی کے اختتام کے وقت کی دیکھ بھال” کے لئے بہت کچھ کیا جانا تھا۔ تکلیف اور اس سے نجات دلانے کے طریقوں کے لئے سب کچھ نئے سرے سے سوچا جانا تھا۔ اس کے لئے ٹرائل چلائے گئے۔ اور اتنی ہی تفصیل اور باریکی سے جس سے سرجیکل پروٹوکول یا نئی ادویات کے ہوتے ہیں۔ اور اس سے تکلیف کی مینجمنٹ کے نئے طریقے نکلے۔
“اوپئیٹ مریض کو بے چینی اور مایوسی سے نجات دلاتی ہیں”۔ کیموتھراپی سے ہونے والی خوفناک متلی کے خلاف ادویات آئیں جن سے ان کی زندگی بہتر ہوئی۔ سینڈرز کے ماڈل کے ہسپتال 1980 کی دہائی میں دنیا بھر میں بننا شروع ہوئے۔ سب سے زیادہ یہ برطانیہ میں ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینڈرز کے مطابق، “زندگی کے اختتام کی دیکھ بھال کو کینسر پر حملے سے الگ نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ محض “شکست کا وقت” نہیں جس سے آنکھ چرائی جائے۔ علاج، دیکھ بھال اور حدف میں کچھ فرق ہو سکتا ہے لیکن اس سٹیج میں بھی بنیادی اصول وہی ہیں جو کسی بھی اور سٹیج میں۔ آخر میں، معالج کی وفاداری مریض سے ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مریض کے لئے زندگی کی مقدار بڑھا دینا ہی واحد کامیابی نہیں۔ زندگی کا معیار بڑھا دینا بھی کامیابی ہے۔ پیلیئیٹو میڈیسن کی آمد اس سمت کی طرف ہونے والا اہم اضافہ تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply