مکالمہ کے بارے میں میری رائے اور تجاویز۔۔۔زبیر حسین

میری نظر میں مکالمہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مختلف نقطہ نظر رکھنے والے افراد کی تعلیمی، معلوماتی، اور دلچسپ تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں. چونکہ ان مضامین میں مصنف شائستگی سے اپنی آرا، مشاہدات، اور تجربات پیش کرتے ہیں انھیں پڑھ کر نہ تو طبیعت بوجھل ہوتی ہے اور نہ ہی افشار خون بلند ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے. مکالمہ کا ڈیزائن بہت خوبصورت اور پرکشش بنانے پر مکالمہ کی ٹیم بجا طور پرمبارک باد کی مستحق ہے.

میری تجویز ہے کہ مکالمہ میں چھپنے والی تحریروں کا فونٹ تبدیل کر دیا جائے. فونٹ کا سائز اور سٹائل ایسا ہو جو آنکھوں کو بھلا لگے اور تحریر کو پڑھنے میں دقت نہ ہوں. نیز الفاظ کے درمیان مناسب سپیس یا فاصلہ بھی ضروری ہے. یہ تیز رفتاری کا دور ہے. جو تحریر پانچ منٹ میں پڑھی جا سکتی ہو کوئی بھی قاری اس پر تیس منٹ لگانا پسند نہیں کرے گا.

حال ہی میں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ مکالمہ میں ایک ویڈیو سیکشن بھی موجود ہے. مجھے یقین ہے کہ مستقبل  میں بھی ہم جو کتابیں پڑھیں گے ان میں تصویریں بھی ہوں گی اور ویڈیو بھی. اگر ہو سکے تو تصویروں کے لئے بھی ایک سیکشن بنا دیں تاکہ مختلف ملکوں میں مقیم پاکستانی اپنے شہروں اور تاریخی مقامات کی تصویریں شئیر کر سکیں. اس سے مکالمہ کی تعلیمی افادیت بڑھ جائے گی.
مکالمہ کے تعارف میں اس کے جو اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں ان سے مکمل اتفاق ہے. بدقسمتی سے تعلیم کے فقدان کی وجہ سے پاکستانیوں کی اکثریت مکالمہ کے آداب و قواعد سے واقف نہیں. اسی لئے معمولی سے اختلاف پر یہ لوگ سیخ پا ہو جاتے ہیں اور منطق یا دلائل سے فریق مخالف کا مقابلہ کرنے کی بجائے دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں. مکالمہ نے ہمیں ایک صحت بخش ماحول میں اپنے خیالات اور آرا پیش کرنے کا موقع فراہم کیا ہے. امید ہے کہ مکالمہ کے شرکا (مصنف اور قاری) لکھتے یا کسی تحریر پر تبصرہ کرتے وقت شائستگی اور تہذیب کے دائرے میں رہیں گے. نیز رفتہ رفتہ وہ سمجھ جائیں گے کہ قلم تیغ و تفنگ حتی کہ نیوٹران بم سے بھی زیادہ طاقتور ہے. ہتھیاروں سے آپ دشمن کو صرف مار سکتے ہیں لیکن قلم سے آپ دوسروں کے خیالات بدل سکتے اور دشمنوں کو دوست بنا سکتے ہیں.

تعلیم یہ نہیں کہ آپ رٹا لگا کر ایم اے یا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر لیں. تعلیم کا بنیادی مقصد علم کا حصول اور اس علم کا عملی زندگی میں نفاذ ہے. نیز تعلیم کے ذریعے آپ کی سوچنے سمجھنے، غور و فکر کرنے، تحقیق و تفتیش کرنے، مسائل کا ادراک کرنے اور انھیں حل کرنے کی صلاحیتیں جلا پاتی ہیں. مطالعہ، مشاہدہ، اور تجربہ کے بغیر تعلیم ممکن نہیں. امید ہے کہ مکالمہ اپنے قارئین میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا.

حضرت مارک ٹوئن فرماتے ہیں کہ سیروسفر تعصب، ہٹ دھرمی، اور تنگ نظری جیسے موذی امراض کے لئے بہترین شفا یا تریاق ہے. میری رائے میں سیروسفر نہ صرف تعصب بلکہ جہالت کے لئے بھی پیغام موت ہے. بد قسمتی سے پاکستانیوں کی اکثریت بیرون ملک تو دور کی بات ہے اندرون ملک بھی سیروسفر سے محروم رہتی ہے. لہذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ اکثریت کا رویہ یا طرزعمل کنویں کے مینڈکوں جیسا ہے. یہ لوگ نہ صرف دوسرے ملکوں میں بسنے والے انسانوں اور ان کی تہذیب و تمدن کے بارے میں کشادہ اور مخلصانہ رائے رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے بلکہ صحت بخش مکالمہ کے آداب سے بھی ناواقف ہیں. معمولی اختلاف پر گالم گلوچ ، لڑائی مار کٹائی پر اتر آتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

میری تجویز ہے کہ مکالمہ کی انتظامیہ ایک سیکشن “سیروسفر” کے لئے وقف کر دے. جو احباب یورپ، آسٹریلیا، افریقہ، امریکہ، اور باہر کے ملکوں میں مقیم ہیں اور اکثر سیروسفر کرتے رہتے ہیں وہ اپنے مشاہدات اور تجربات تحریروں، تصویروں اور ویڈیو کی شکل میں قارئین سے شئیر کریں. اس سے سیر و سفر نہ کر سکنے والوں کو بھی باہر کی دنیا سے آگاہی ہو گی. سیروسفر کی طرح تاریخ، سیاست، مذہب، اور سائنس و ٹیکنالوجی کے نام سے الگ سیکشن بنائے جا سکتے ہیں. ایسا ہو جائے تو ریسرچ کرنے والے طلبہ و طالبات اپنی ضرورت کا مواد آسانی سے تلاش کر سکیں گے.
ہم امید رکھتے ہیں کہ مکالمہ اپنے اغراض و مقاصد حاصل کرنے میں جلد کامیاب ہو جائے گا.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply