پورا سچ

پورا سچ
عمار علوی
مظلوم وہ ہے جو صرف مار کھائے, ایک کے بدلے میں دو مارنے والا مظلوم نہیں ہوتا ہے.ظلم ہونے سے پہلے ہی ظلم ڈھانے والا مظلوم نہیں ہوتا. حساس معاملات پر کیوں بولتے ہو؟ جب کہ تمہیں کچھ معلوم نہ ہو, ادراک نہ ہو, معلوم ہو بھی جائے تو کیوں آنکھیں پھیر لیتے ہو؟ آؤ میں تمہیں پورا سچ بتلاتا ہوں, نام نہاد بلوچ نسل کشی کی آواز بننے والو, میں تمہیں پورا سچ دکھلاتا ہوں.
کیوں مُلکی مفاد کے خلاف بول کر ہیرو بننا چاہتے ہو؟
کیوں تمہیں اپنی مرضی کا ہی مظلوم طبقہ نظر آتا ہے؟ جب اکتوبر 2014 کے ایک غریب دن , 9 غریب مزدوروں کو قتل کر دیا گیا کہ وہ تو سرائیکی ہیں اور بلوچستان میں مزدوری کے ذریعے اُن کے وسائل پر قابض ہونے آئے ہیں, جب یہ بہیمانہ قتل ہوئے, تو کون کندھا دینے گیا, کونسا قوم پرست بولا؟ اپریل, 2015 کی ایک خون آلود شام کو تُربت میں پھر سے مزدوروں کو قتل کیا گیا, لیکن اس دفعہ تعداد میں اضافہ کوئی خاص نہ تھا, محض 11 ہی تو زیادہ تھے, کُل ملا کے یہی بس بیس ہی تو تھے, اور تھے بھی مزدور۔پھر اُنکی مائیں بہنیں تصویریں پکڑ پکڑ کر آہ و زاری کرتی رہیں, سینہ کوبی کرتی رہیں, مگر مُلک کے کسی طُرم خان لکھاری کو اُنکے قاتلوں سے کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا. تھے جو مزدور, تومزداروں کا کیا ہے, مر نا ہی تھا, سو مر گئے, تو کیوں بولا جائے؟ ہاں تصویریں نظر آتیں, شور شرابہ ہوتا, کبھی پریس کلب کے آگے تو کبھی فیس بُک کی دیواریں کالی ہوتیں, اگر یہ بلوچ ہوتے.
مگر چُپ کر جا بچہ جمہورا, بولنا ناہیں. کہ یہاں چپ کر جانا ہی افضل ہے کہ فیشن یہی ہے.۔جب کیڈٹ کالج مستونگ کے پرنسپل کا قتل ہوا تو کون سا علم دوست بولا؟ پرنسپل صاحب عُمر کے اس حصے میں تھے کہ جہاں موت آ بھی جائے, تو کوئی غم زندگی نہ رہے. تو کیوں بولا جائے؟ جب کیڈٹ کالج کے بچوں اور دیگر اُردو, پنجابی, سرائیکی یا دیگر زبانیں بولنے والوں کے بچوں کی آنکھوں میں گولیاں پیوست کی گئیں تو کسی دُکھ کے داستاں گو ،نے اپنے صفحے کی زینت بنایا؟ یا کہیں بچوں کے نام کی دو روپے کی موم بتی جلی؟نہیں جلی کہ فیشن یہی ہے۔جب بولان میڈیکل کالج کے اُردو سپیکنگ ڈاکٹرز کو مارا جاتا رہا تو کیوں نہ اُن کو یاد ستائی, جن کو اللہ نذر تو یاد رہا مگر وہ ڈاکٹرز بھول گئے کہ فیشن یہی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

کوئی ہے جو بولا, جب پڑھے لکھے بلوچوں کو جاہل اور باغی بلوچوں نے محض اس لئے مارنا شروع کیا کہ وہ پنجابیوں اور اُردو سپیکنگز سے ہمدردی کے جُرم میں ملوث پائے گئے, آؤ میں تمہیں نام بتاتا ہوں اُن بلوچوں کا, جنہیں بلوچوں نے اسی پاداش میں موت کی بھینٹ چڑھا دیا. ہاں اب بھی بولو کہ یہ اُن کا ذاتی مسئلہ تھا, تو کیوں بولا جائے؟ چمچماتی تحریریں تو اُن مقتول بلوچوں پہ ہی لکھی جا سکتی ہیں کہ جنہوں نے بے شک کئی بچوں کو محض اپنے نشانے کا اندا زہ لگانے کے لئے موت کے گھاٹ اُتارا ہو۔ اپنے زور بازو کا مظاہرہ کرنے کے لئے بینک سے واپس گھر جاتے ہوئے شکیل کو پینتالیس سال کی عُمر میں بُھون دیا ہو. نہیں بولا جائے گا کہ وہ تو بلوچ نہیں ہیں.اور اس طرح آواز اُٹھانے کا تو فیشن نہیں ہے.۔
مقتول یا گمشدہ بلوچوں کے پیچھے کتنے جرائم ہیں, یہ بُھلا دینا ہی اصل فیشن ہے. اُن کی سفاکیوں سے نظر چُرانا ہی اعلیٰ سوچ کا بنیادی جزو ہے. کیوں کہ انہی سرائیکی , پنجابی, اُردو اسپیکنگ اور ہزارہ بولنے والے نہتے اور معصوم لوگوں نے ہی تو دراصل بلوچوں کا استحصال کیا تھا, سوئی کے وسائل اور ریکوڈیک پر بھی یہ تمام مرحومین قابض تھے. بلوچ سرداروں کے قلعوں میں بھی اب یہی رہتے تھے. ان کے بچے سوئٹزر لینڈ میں پڑھتے تھے, یہ بڑے ٹائروں والی گاڑی میں سوار ہوئے جب بلوچوں کے گاؤں سے گزرتے تھے تو کیچڑ کو رعونت سے اس انداز میں اُڑاتے تھے کہ اُن کی دستار تک بھر دیتے تھے. لہٰذا ان غیر بلوچ آباد کاروں کا قتل عام انتہائی معمولی سی بات تھی اور ہے, بلکہ وہ ذکر کرنے کا بھی شرف نہیں رکھتا. کیوں کہ اس کا فیشن نہیں ہے.
یہاں فیشن مُستعار لیا جاتا ہے, وہ فیشن کہ جس سے آپ کا پیٹ ننگا ہو یا سر , سرد یا گرم تُندوتیز ہوا ئیں آپ کا در حقیقت جسم چیر رہی ہوں, مگر فیشن سے پذیرائی ہے, سو کیا کیجئے! کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا , اب اس مُستعار دانشوری کا فیشن ہے, سو کیا جاتا ہے, کیا جاتا رہے گا.۔ ٹرائی ٹو بی نیوٹرل۔

Facebook Comments

عمار علوی
عام سا آدمی, ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز(سلور میڈلسٹ).

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply