اسٹیٹ ایجنٹ کا کتھارسس(چور نوکر)۔۔اعظم معراج

وہ چاروں بہت اہم معاہدے کے لئے بیٹھے تھے چاروں ایک مخصوص طرح کے ذہنی دباؤ میں تھے ایک کو پانچ ارب ملنا تھا دوسرے نے دنیا تھا، باقی دونوں کو اسکا ایک فیصد بطورِ کمیشن ملنا تھا سب تیاری مکمل تھی کچھ کیش ٹرانسفر ہوچکا تھا باقی چھوٹے چھوٹے تین سو کے قریب پےآرڈر بن چکے تھے بس ایگریمنٹ سائن ہونا تھا اور ڈیل کلوز ہونی تھی ۔تقریباً  چھ مہینے سے یہ معاملہ چل رہا تھا،.
آج اس کا آخری مرحلہ تھا۔دونوں سھیٹوں کے مینیجر بھی ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ادھر ادھر کی باتوں میں ایک سیٹھ  جو اپنے دباؤ کو کم کرنے کے لئے بات بات پر قہقے لگا رہا تھا۔
عادتاً جس سے مخاطب ہوتا اسے آ نکھ بھی ماردیتا۔۔
اس نے ذکر چھیڑ دیا کہ آپ جو بھی کرلو یہ نوکر سبزی گوشت لینے جائیں تو رسید زیادہ کی بنوا ہی لیتے ہیں۔ سب نے اسکی ہاں میں ہاں ملائی اور چور نوکروں کو خؤب برا بھلا کہا، پھر اس طرح کے دیگر بے ایمانوں پر سیر حاصل گفتگو کی اسکے بعد جب پانچ ارب کا حساب کتاب ہوگیا تو پہلے خریدار اور بیچنے والے نے ایگریمنٹ پر دستخط کئے اور پھر دونوں اسٹیٹ ایجنٹ حضرات نے بطورِ گواہ دستخط کئے ۔سیٹھ نے  آنکھ مار تےہوئے فرعونیت کا لبادہ اوڑھے سیٹھ کو مخاطب کر کے کہا، اگر ہم یہ رجسٹری کہیں مارکیٹ کی قیمت پر کرتے تو آپ کو بارہ پندرہ کروڑ تو حکومت کو دینے پڑتے مجھے علیحدہ گین ٹیکس کی مد میں کروڑوں بھرنے پڑتے اور ہاں دیگر پنچائتیں علحیدہ ہوتیں۔شکر ہے آپ نے اپنے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی بات نہیں مانی اور ہم نے سرکاری ریٹس پر پانچ کروڑ کا ہی ایگریمنٹ کیا ہے۔اس کے بعد پھر وہ اپنے ایک نوکر کی دلچسپ چوری کا قصہ سنانے لگا۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply