نیلم اور راولاکوٹ کے مسافر

نیلم اور راولاکوٹ کے مسافر
وقار احمد چودھری
انسان فطرتی طور پر حسن پرست اور سفر کا دلدداہ ہوتا ہے اور جب بات کشمیر کی سیر کی آئے تو بے ساختہ دل میں جنت کا تصورابھرتا ہے۔یوں تو چھوٹے بڑے سفر کبھی تنہا اور کبھی ساتھیوں کے ہمراہ کرنے کے بہت سے مواقع آئے اور ہر بار ہی دل میں ہزار خواہشیں پلتی اورسرور پیدا کرتی رہیں۔گزشتہ دِنوں ساتھیوں نے وادی نیلم جانے کے پروگرام کا آئیڈیا دیا تو دل بے ساختہ اچھل پڑا۔چند منٹوں میں خیالوں ہی خیالوں میں ،میں نےپوری وادی نیلم گھوم کر دیکھ لی اور پھر اس خواب کو حقیقت کا روپ ملنے کا وقت آگیا اور ہم نے سفر کی تیاری شروع کی اور مقررہ وقت پر سارے ایک مقام پر پہنچ گئے۔سفر رات کے دس بجے اسلام گڑھ سے شروع ہوا اور پہلی منزل وادیِ نیلم طے پایا چونکہ رات کا سفر ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے آسان ہوتا ہے مگر اگلی صبح نیند کا غلبہ اور سفری تھکاوٹ کا بھی ڈر دل میں چھپا ہواتھا ۔
نیلم میں موسم کی خرابی کی وجہ سے دو گاڑیوں کے حادثات کی بھی اطلاعات موصول ہو چکی تھیں پھر بھی قدرتی حسن کے دیوانوں کے ہمراہ نیلم کے ایک دوست سے رابطہ کر کے موسم کا احوال معلوم کیا اور دل کو تسلیاں دیتے ہوئے سفر جاری رکھا اور رات بھر سفر میں گزارنے کے بعد صبح سات بجے پہٹیکہ کے مقام سے چائے اور پراٹھاکے ساتھ دیسی ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور ایک ٹوٹی پھوٹی دریائے نیلم کنارے روڈ پرسفر شروع کر دیا جہاں ایک طرف سے دریا اپنی موج میں بہہ رہا تھا اور دوسری طرف پہاڑوں پر بڑے بڑے پتھر ذرا سی ہلچل یا بارش کا انتظار کر رہے تھے کہ کب زمین میں ذرا سی حرکت پیدا ہو اور وہ سٹرک پر آ جائیں۔ خیر ہم تو ٹھہرے سیاحت کے شوقین سو بے خوف سے ہو کر نیلم کیلئے رواں دواں ہو گئے اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک مقام پر گاڑیوں کی لمبی لائنیں دیکھیں ،دریافت کیا تو معلوم ہوا لینڈ سلائیڈنگ ہو چکی ہے اور حکومتی مشینری راستہ صاف کررہی ہے۔ تقریباً آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد روڈ بحال ہوئی تو آگے کا سفر شروع کیا اور کنڈل شاہی کے مقام پر جہاں کچھ روز قبل سیاحوں اور مقامی نوجوانوں میں تصادم ہوا اور تین سیاحوں سمیت سات افراد زخمی ہوئے ،وہاں چائے پینے اور سفری تھکاوٹ کم کرنے کیلئے رکے اور بیس منٹ بعد دوبارہ گاڑی میں سوار ہو کرنیلم کی طرف رُخ کیا اور میرپورہ کے قریب جہاں انڈین افواج نے بس پر حملہ کر کے ڈرائیور سمیت تمام سواریوں کو شہید کر دیا تھا چند لمحے رُکے اور بھارتی زیرِانتظام کشمیر کو دیکھا ۔
جہاں دریا کنارے کشمیریوں نے کھیت بنا رکھے ہیں اور پانی کا بہترین انتظام بھی موجود ہے۔انڈین آرمی کی پوسٹیں اور جھنڈے بھی لہرا رہے تھے جبکہ پاکستانی زیرِانتظام کشمیر میں لوگ پانی چشموں سے بھرتے ہیں اور اکثریت عوام کپڑے دریا کنارے ہی دھوتے ہیں۔سر جھٹک کے ہم نے ایک دفعہ پھر سفر شروع کیا اور نیلم کی تیسری چیک پوسٹ کیرن پر رجسٹریشن کروا کےکیرن ویلی کے حسن سے لطف اندوز ہونے لگے اور دریا کنارے پیدل گھوم پھر کر ساری تھکاوٹ ہوا میں اُڑا ڈالی اور شاردہ اور کیل جانے کا سوچا مگر موسم کی شدید خرابی اور جیپ کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے واپسی کے سفر کا ارادہ کیا اور اگلی منزل راولاکوٹ طے ہوئی۔ واپسی پر سہ پہر ساڑھے تین بجے پہٹیکہ میں اسی ریسٹورانٹ پر کھانا کھایا جہاں صبح ناشتہ کیا تھا اور ساتھ ہی چار سے چھ بجے تک سونے کا ارادہ کیا اور ٹھیک شام چھ بجے براستہ مظفرآباد، راولاکوٹ کی طرف سفر شروع کیا اور مظفر آباد سائیں سہلی سرکار دربار پر زیارت کے بعد مظفرآباد قلعہ جسے لال قلعہ بھی کہا جاتا ہے کو دیکھنے چلے گئے، جسے دریائے جہلم نے تین اطراف سے گھیر رکھا تھا اور زلزلہ 2005 کی وجہ سے شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، مگر حکومت کی عدم توجہی قلعہ کی مزید خستہ حالی کا باعث بن رہی ہے۔ قلعہ مظفرآباد سے نکل کر راولاکوٹ کی طرف رُخ کیا اوررات 12 بجے راولاکوٹ پہنچ گے۔
براستہ دھیر کوٹ جاتے ہوئے دھیر کوٹ کی پر خطر مگر انتہائی صاف ستھری اور پختہ روڈ نے گزشتہ نصف صدی تک حکومت میں رہنے اور اپنے علاقے کوچار چاند لگانے کا ایک خوشگوار اثر ذہن میں چھوڑا۔ بل کھاتی سڑکوں پر رات کی تاریکی میں ارد گرد جلتی لائٹوں نے جو ماحول بنا رکھا تھا وہ دیکھ کر کسی خیالی دنیا کا تصور ذہن میں موجزن ہونے لگا۔سفری تھکاوٹ کے باوجود ہلکی موسیقی کے ساتھ یہ سفر میری زندگی میں ایک خوبصورت اضافہ بنا۔راولاکوٹ شہر کے ایک ہوٹل میں کھانا کھا کر قیام کیا اور اگلی صبح تولی پیر کا رُخ کر لیا جہاں تقریباً سات سال پہلے گیا تھا تب وہاں روڈ کا تصور بھی نہ تھا مگر اب ایک نارمل اور ون وے روڈ بن چکی تھی تولی پیر پہنچ کر ڈیڑھ کلو میٹر کا سفر جو اکثر لوگ پیدل طے کرتے ہیں ہم نے گھوڑے پر جانے کا فیصلہ کیا اور پہلی دفعہ پہاڑوں کا سفر گھوڑے پر طے کیا اور تولی پیر ٹاپ کی خوبصورتی دیکھ کر معلوم ہوا کہ کس وجہ سے کشمیر کو جنت کا ٹکڑا کہا جاتا ہے۔
تولی پیر کے قدرتی حسن نے ہم سب کو اپنی ٹھنڈی ہواؤں میں قید کر لیا جہاں آسمان جھک کر چلہ گاہ سید شاہ ہمدان سروردی کے مقام کو سلام کرتا محسوس ہو رہا تھا اور عقیدت مندوں سمیت سیاحوں کی بڑی تعداد سیلفیاں بنا کر قدرتی حسن کو عکس بند کرتی نظر آ رہی تھی۔ کافی وقت گذارنے کے بعد بنجوسہ جھیل جانے کے ارادے سے واپس پیدل چلے اور کچھ ہی دیر میں گاڑی تک پہنچ گئے۔ تولی پیر سے بنجوسہ جھیل پہنچے تو قدرتی حسن اور مصنوعی جھیل کا ایک شاہکار منظر ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ سیاحوں کا رش زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں زیادہ رکنے کا دل نہ چاہا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا براستہ تراڑکھل یہ سفر نماز عصر کے ساتھ شروع ہوا۔تراڑ کھل بھی ایک قابل دید جگہ ہے۔چند منٹ کا قیام تھا تاہم خوبصورتی اور قدرتی ماحول نے پورے شہر کو چار چاند لگا رکھے تھے۔بلوچ،ہوتے ہوئے براستہ سہنسہ مسجدوں کے شہر کوٹلی پہنچے اور پھر راجدہانی کے مقام پر دوستوں کے ہمراہ سفر کا آخری دسترخوان سجا اور پھر چائے کی ایک ایک پیالی پی کر رات دو بجے اپنے اپنے آشیانوں میں ایک یادگار سفر کی یادیں لیے پہنچے اور سفری تھکاوٹ کی وجہ سے نیند کی وادیوں میں گم ہو گئے۔

Facebook Comments

وقار احمد
صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply