تتھاگت نظم (28)۔۔۔۔زنخا بھکشو

اور پھر جس شخص کو آنند اپنے ساتھ لے کر
بُدھّ کی خدمت میں پہنچا
اُس کا حلیہ مختلف تھا
سر پہ لمبے بال تھے، ہاتھوں میں کنگن
اور کانوں میں جھمکتی بالیاں تھیں
صنفِ نازک کی طرح ۔۔ پر
کھردرا ، مردانہ چہرہ
مونچھ داڑھی سے صفا چٹ
اک مخنّث !

’’اے مہا مانو، یہ آدھا پُرش ، آدھا استری ہے
ایک زنخا …..
شادیوں میں، میلوں ٹھیلوں کی تماشا گاہ میں
روزی کی خاطر ناچتا ہے
ناچ گانا
عورتوں کی طرح نخروں کی نمائش
روزی روٹی کا یہی واحد وسیلہ جانتا ہے ….‘‘

بُدھّ چوبی تخت پر آسن بچھائے
بند آنکھوں سے ہی نو وارد کے اگلے ، پچھلے جنموں
کو برابر دیکھتے ہی جا رہے تھے

’’آج یہ آیا ہے، ہم سے دیکھشا لینے کی خاطر
زندگی سے تنگ ہے ۔۔۔ کہتا ہے، کیا وہ
آنے والے اپنے سب جنموں میں زنخا ہی رہے گا؟
اس کی مُکتی بس اسی اک آس پر ہے … آشرم میں شرن لے، اور ….‘‘

ٹوکتے کب تھے تتھا گت….!
پھر بھی ان کی اک نظر کافی تھی بھکشو کے لیے …
آنند جب چُپ ہو گیا تو
آنے والے شخص سے پوچھا
’’بھلے مانس، بتاؤ، تم یہ کیسے جانتے ہو
آنے والے اپنے جنموں میں بھی تم زنخا رہو گے؟‘‘

’’جانتا ہوں … اے مہا مانو
میں اپنے پچھلے دو جنموں کی بھی پہچان رکھتا ہوں
کہ میں ان میں بھی اک زنخا تھا ، یعنی
پُرش یا ناری نہیں تھا !‘‘

ایک لمحے کے لیے تو چونک اٹھے بُدھّ
پھر شفقت سے اُس آدھے ادھورے شخص کو دیکھا، کہا ….
’’تم آگے آ کر بیٹھ جاؤ
تم بھی ، بھکشو، تم بھی اس کے ساتھ بیٹھو!‘‘

گیان داتا بُدھّ کی آنکھیں تو جیسے گڑ گئیں
اس شخص کے ماتھے پہ اس تحریر کو پڑھنے میں
جو نقشہ تھا حرفوں، آنکڑوں میں آنکڑوں : ہندسوں
ایک مالا سا پرویا ….
ٹوٹ کر پھر استوار ہوتا ہوا، بنتا بگڑتا
پھر کہا
’’دو جنم پچھلے تو اپنے جانتے ہو
اور ان دو سے پہلے کیا تھا تم
یہ علم تم سے چھِن گیا ہے
دو جنم اگلے بھی اپنے جانتے ہو
تیسرے، چوتھے … یا اس کے بعد کے جنمو ں کا تم کو
کوئی اندازہ نہیں ہے!‘‘

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

’’کیوں ہے ایسا؟
کیا تم اس کے کارنوں کو جانتے ہو؟‘‘ کارنوں : وجوہات

Advertisements
julia rana solicitors london

رو پڑا وہ
سسکیوں کے بیچ میں اتنا کہا پھر
پچھلے دو جنموں میں بھی میں اک نپُنسک ہی تھا ، سوامی ن پُ ن س ک۔ نپنسک۔ (زنخا)
میں تو اتنا جانتا ہوں۔
کیوں تھا؟ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے
جنس کی پہچان میری کچھ نہیں تھی
پچھلے دو جنموں سے پہلے کیا تھا میں؟
اک مرد ، یا عورت، یا زنخا؟
مجھ کو اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے!‘‘
(جاری ،جاری)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply