دکھی ایکسپریس “صحرائے تھر، ہائے تھر”۔۔۔۔۔طاہر حسین

فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کیسے ہوا کرتی ہے اس کا علم تو نہیں لیکن اقبال کا شعر سنتے ہی گردن اس غرور سے تن جایا کرتی کہ کسی حد تک بندہ کوہستانی تو میں تھا لیکن مردان صحرائی کے معمولات کے متعلق بالکل کورا۔ صحرا سے پہلا تعارف انتھونی کوئین کی فلم عمر مختار دیکھ کر ہوا لیکن اس میں ایسا کچھ نہیں تھا جو صحرا کی زندگی سے آشنا کرتا۔

اکیڈمی میں ایک روز جغرافیہ کے استاد صحرا کے متعلق بتاتے بتاتے کچھ دیر کو رکے اور صحرائے تھر کا ذکر چھیڑ دیا۔ پانی اور وسائل کی قلت، موسم کی سختیوں اور ریت کے طوفانوں کی باتیں کرتے کرتے صحرا کی وسعت اور چاندنی راتوں کے سحر کا قصہ چھیڑ بیٹھے اور میرے تخیل کے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔

قصہ مختصر موسم بہار کی ایک خوبصورت شام مجھے صحرائے تھر میں تعیناتی کا حکم نامہ تھما دیا گیا۔ پہلا سوال جو ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ وہاں تک پہنچا کیسے جائے۔ ناچار جغرافیہ کے انہی استاد سے ہی رابطہ کرنا پڑا۔

ان کے مطابق راستہ بہت آسان تھا۔ ریل کے ذریعے حیدرآباد پہنچو، وہاں سے میرپور خاص کا سفر تقریباً تین گھنٹے کا ہے۔ میرپور خاص اسٹیشن سے دُکھی ایکسپریس چلتی ہے جو کھوکھرا پار تک جاتی ہے۔ دُکھی ایکسپریس؟؟ یہ کیا ہے؟ جواب ملا کہ وہاں جا کر خود دیکھنا۔

سفر شروع ہوا، حیدر آباد سے میرپور خاص کی بس پکڑی اور دوپہر بارہ بجے کے قریب جا پہنچا میرپور خاص ریلوے اسٹیشن۔ پتہ چلا کہ دکھی ایکسپریس کی روانگی میں ابھی چند گھنٹے باقی ہیں۔ سامان اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں رکھا اور شہر کی خاک چھاننے نکل کھڑا ہوا۔ یہ شہر مجھے وسطی اور جنوبی پنجاب کے شہروں جیسا ہی لگا۔ وہی بھرے بازار، ٹریفک کا شور اور روائیتی ہٹو بچو والا ماحول۔ سکولوں کی چھٹی کا وقت اور ہنستے کھلکھلاتے بچے گھروں کو دوڑتے جا رہے تھے۔ ایک دکان پر سندھی رسم الخط میں “کیول رام ٹیلرز” کا بورڈ دیکھ کر اچنبھا سا ہوا لیکن آگے چل کر کئی دکانوں، شفاخانوں، وکیلوں اور ٹیوشن سنٹروں کے بورڈز دیکھے جن پر روائتی ہندو نام لکھے تھے۔

ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا اور رکشہ پکڑ کر واپس ریلوے اسٹیشن جا پہنچا۔ پتہ چلا کہ دکھی ایکسپریس کچھ دیر میں روانہ ہونے کو ہے۔ پلیٹ فارم ہر دکھی ایکسپریس روانگی کیلئے تقریباً تیار تھی۔ لیکن یہ کیا۔۔ ؟؟ اتنی ننھی منی سی ریل گاڑی۔۔۔ پرانا بھاپ سے چلنے والا چھوٹا سا انجن جس کا سائز عام ریلوے انجنوں کے مقابلے میں کہیں کم تھا۔ پٹڑیوں کی چوڑائی تقریباً سوا دو فٹ۔ ایک بڑی ویگن یا منی بس کے سائز کی چھوٹی چھوٹی بوگیاں جن میں لکڑی کی نشستیں تھیں اور خلقت کا ایک ہجوم جو کسی بھی طرح اس عجوبے ہر سواری کیلئے زور آزما تھے۔ انجن سے سیاہ دھوئیں کے مرغولے بلند ہوئے اور ایک وِسل کی آواز آئی اور دکھی ایکسپریس نے پلیٹ فارم چھوڑ دیا۔

ریل گاڑی میں ایک جہاں آباد تھا۔ اچانک ساتھ آٹھ برس کا ایک نابینا بچہ ایک عورت کا ہاتھ پکڑے بوگی میں داخل ہوا جو شائد حضرت شاہ لطیف کی کوئی “کافی” گا رہا تھا۔ ریل گاڑی جب کسی گاؤں یا قصبے کے پاس سے گزرتی تو بچوں کا ایک ہجوم اسکے ساتھ دوڑنے لگتا۔ اور ریل کا عملہ ایسا فیاض کہ کوئی راہ چلتا مسافر بھی رکنے کا اشارہ کرتا تو اسکے کئے گاڑی کی رفتار اتنی آہستہ کر دی جاتی کہ مسافر لپک کر سوار ہو جاتا۔ کچھ ہی دیر میں کھڑکی کے باہر کے لینڈ سکیپ ہر بھورا رنگ غالب آنے لگا اور محسوس ہوا کہ تھر کا علاقہ شروع ہو گیا ہے۔ لیکن یہ صحرا تو میرے تصوراتی صحرا جیسا نہیں تھا۔ اس میں جابجا درخت اور جھاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ لیکن جوں جوں گاڑی آگے بڑھتی رہی سبزہ غائب ہوتا گیا اور تاہ حد نگاہ بھوری ریت کے ٹیلے۔

دکھی ایکسپریس پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد اپنی منرل کھوکھرا پار پہنچ گئی۔
ریل گاڑی جب اسٹیشن میں داخل ہوئی تو کچھ گائیں، بکریاں اور کتے اور گدھے گاڑی کے ساتھ دوڑنے لگے۔ جب گاڑی رکی تو دیکھا کہ اللہ کی یہ پیاسی مخلوق انجن کے بوائلر سے رستے ہوئے پانی کی بوندوں سے اپنی پیاس بجھانے کو بے تاب تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب مجھے سمجھ آنے لگی کہ اس ٹرین کو دکھی ایکسپریس کیوں کہا جاتا ہے۔ پانی کی فروانی میں رہنے والے ہم لوگ کیا جانیں کہ پیاس کیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply