داستانِ زیست۔۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط28

یا وکیل” اللہ کریم کا صفاتی نام ہے، وکالت اللہ جل شانہُ کی سنت ٹھہرے گی۔ موجودہ زمانے میں وکالت کا پیشہ دنیا بھر میں عزت کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔ وکالت کی بھی دیگر پروفیشن کی طرح مختلف سپیشلائزیشن ہیں۔
آئین سے دیوانی ۔فوجداری تک اور مختلف صنعتوں ،سروسز،کارپوریٹ سیکٹر سے ہوتی آج کِل تو میڈیا اور امیج بلڈنگ
لابئینگ تک سب وکلاء کی دسترس میں ہیں۔ لیکن ان سب کی کریم ہمیشہ سے ٹیکسیشن رہی ہے۔ خاص طور پہ  ڈائرکٹ ٹیکسز   اور ان میں اِنکم ٹیکس۔
اِنکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد ہر ملک میں قلیل ہوتی ہے جب کہ دیگر ٹیکسز اکثریت دیتی ہے۔ ان میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز جنرل سیلز ٹیکس، ویلیو ایڈڈ ٹیکس ، کسٹم ڈیوٹی،امپورٹ ایکسپورٹ ، ایکسائز ڈیوٹی اور لوکل ٹیکسز و دیگر شامل ہیں۔
اِنکم ٹیکس کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے۔۔ یہ مخصوص قانون مخصوص ٹیکس مخصوص لوگوں سے وصولی کے لیے ہے۔
یہ واحد ٹیکس ہے “فرد ” یا ٹیکس گزار اپنی خالص آمدن میں سے سرکار کو ادا کرتا ہے اور یہ اس کے اخراجات میں شامل نہیں ہوتا۔ اس میں سرکار اور ٹیکس گزار کی شراکت بنتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے امین ہوتے ہیں۔
یہ نفیس بیان اس لیے ضروری تھا کہ جو کیس زیر بحث ہے بظاہر سیدھا سادھا سا ہے لیکن ٹیکس گزار کے تخصیصیاستحقاق کی اہمیت اجاگر ہو جائے گی۔
اسلام آباد میں تنخواہ داروں کے لیے اس زمانے میں دو سرکل تھے ایک سرکاری ملازمین کا ،دوسرا پرائیویٹ سیکٹر ایمپلائیز کے لیے۔ ایک سرکل کارپوریٹ سیکٹر کمپنیز کے لیے تھا۔
باقی شہر چار کمرشل سرکل میں تقسیم تھا۔ بنیادی دائرہ کار کی تقسیم سیکٹر , ایریا وائز تھی لیکن پراپرٹی اِنکم سرکل 29 میں شامل تھی اور ٹھیکیدار سرکل 27 کے دائرہ کار میں تھے۔ دیگر متفرقہ اور نئے کیسز سرکل 25 میں آتے تھے۔
اسی سرکل کے آفس میں ہماری ملاقات چوہدری صاحب سے ہوئی۔ تعارف دوستی میں بدل گیا۔ ۔کہہ سکتے ہیںچوہدری تو چوہدری کا جُٹ ہوتا ہے۔
انکی فرم کی ملکیت انڈسٹریل ایریا میں تین ملحق پلاٹ تھے۔ ایک پلاٹ میں الاٹ منٹ کی شرط پوری کرنے کو فیکٹری
لگائ گئی اور کچھ عرصہ چلائی گئی۔ دو پلاٹ ایک آئل کمپنی کو کرایہ پر دیئے گئے جہاں انہوں نے اپنا ویئر ہاؤس بنایا۔کرایہ ملا، مالی سال کے مطابق وصولی پر بیس فیصد مرمت اخراجات اور چھ فیصد کرایہ وصولی خرچہ منہا کر کےرجسٹرڈ فرم کے مروجہ ریٹ پہ  ٹیکس ادا کر دیا گیا۔ کاروباری آمدن Nil ظاہر کی گئی، So far so good !
دو سال کا کرایہ نامہ لکھا گیا تھا۔ آئل کمپنی کے پاس کمرشل ایریا میں بھی دفاتر کرایہ پر تھے ۔
اس کے بزنس میں مندی آئی ،وہ دفاتر بند کیے گئے۔ مین آفس دبئی منتقل ہوا۔
چوہدری صاحب مشہور شخصیت تھے۔ اِنکم ٹیکس آفس کے ایک اہلکار سے فرم کے گوشوارے بنوا کے جمع کراتے،فیملی کی ایک اور لمیٹیڈ کمپنی کے لیے ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کی مشاورت تھی۔
آئل کمپنی نے انکی فیکٹری کے گودام اور کمرے ان سے مزید کرایہ پر لیے، کرایہ نامہ چوہدری نے سائن تو کر دیا،لیکن کمپنی نے منظوری کے لیے دبئی بھیج دیا، اس دوران سی ڈی اے نے فیکٹری والے پلاٹ پر پراپرٹی کے ناجائز استعمال کا نوٹس جاری کر دیا۔ اسے خالی کرانے پہ  کمپنی سے جھگڑا ہوا۔ چوہدری نے اپنے پاس کرایہ نامہ کی فوٹو کاپی پہ  تنسیخ کا اندراج کرا کے نوٹ ایڈ کرا لیا۔
آئل کمپنی کی ٹیکسیشن سپیشل پروسیجر کے  تحت ہوتی ہے، ٹیکس انسپکٹر گاہے گاہے ان کے دفتر آتے تھے۔
چوہدری نے کمپنی کو ایگریمنٹ کے تحت دونوں پلاٹ خالی کرنے کا نوٹس دیا، تلخی بڑھ گئی ،کمپنی کے مینجر نے ٹیکس انسپکٹر سے ساز باز کر کے فیکٹری گودام اور کمروں کے کرایہ نامہ کی کاپی اسے دے دی۔ مالی سال ختم ہو چکا تھا پچھلے سال کے گوشوارے جمع ہو چکے تھے ان میں گودام وغیرہ کا کرایہ شامل نہیں  تھا، کہ وہ کرایہ نامہ چوہدری کے حساب سے کینسل ہو چکا تھا، لیکن محکمہ کے ہاتھ کاپی لگ چکی تھی۔ نوٹس جاری ہوئے اور آمدن چھپانے کے الزام میں کیس ری اوپن کر کے اس پر ٹیکس اور جرمانہ عائد ہو گیا۔ کمشنر کے پاس اپیل عدم پیروی کی وجہ سے خارج ہو گئی تھی۔
ٹریبیونل میں دوسری اپیل سی اے فرم کی وساطت سے فائل ہوئی  تھی، جب چوہدری جی سے ہمارا تعارف ہوا۔۔
ہم اپیلیٹ ٹرایبیونل میں ابھی تک پیش نہیں ہوئے تھے۔۔جھجک اور خوف تھا، کوشش کی کہ چوہدری کا کوئی  پرانا وکیل اس کیس میں پیش ہو ۔
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ صاحب سے ملے تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ وہ چوہدری کے رویے سے سخت نالاں تھے۔
جن وکیل صاحب نے کمشنر کے پاس اپیل فائل کی تھی جو عدم پیروی کی وجہ سے ریجیکٹ ہوئی  تھی، دوست تھے ،اُن سے ملاقات کی تو وہ اس بات پہ  ناراض تھے کہ انہیں فیس تو  دور،اپیل فائل کرنے کے اخراجات بھی نہیں ملے تھے۔
چوہدری کے ساتھ ایک اور وکیل صاحب کے آفس گئے ۔ وہ بھی کیس پڑھنے کے بعد پیروی سے انکاری ہوئے کہ اس میں جان ہی نہیں تھی۔ صاف آمدن چھپانے کا کیس تھا، جس کا تحریری ثبوت موجود تھا۔
ٹریبیونل میں کیس ہارنا تو وکیل کی سبکی کا باعث ہوتا ہے ۔
چوہدری سے دوستی کا تعلق نبھانا ایک طرف، ہماری چوہدراہٹ کا تقاضا تھا اور بڑے فورم پہ  پہلا کیس ہی ہارنا ہماری شہرت کے لیے شدید خطرہ ۔۔ شش و پنج میں تھے کہ کیس کی تاریخ نکل آئی ،چوہدری نے کہا ۔۔۔۔
یار چلو ہم دونوں خود ہی پیش ہوں گے، جو ہو گا دیکھ لیں گے۔۔
جب فرار کی کوئی  راہ ہی نہ رہی تو ہم نے چوہدری سے کیس کا سارا ریکارڈ اپنے پاس منگوا لیا۔
بنک میں پچیس روپے کی جگہ سو روپے فائل انسپکشن فیس جمع کرا کے ایک پورا دن لگا کے سرکل میں ریکارڈ کا معائنہ اور مطالعہ کیا۔۔
استاد محترم کی یہ نصیحت یاد تھی کہ سرکاری فائل کی آرڈر شیٹ کو بار بار پڑھنے سے محکمہ کی کوئی نہ کوئی غلطی مل ہی جاتی ہے۔
گودام اور آفس والے کرایہ نامہ کی کاپی کیسے موصول ہوئی، ریکارڈ پہ آئی، اس کا آرڈر شیٹ پہ کوئی  اندراج نہ تھا۔
سیکشن 65 میں کیس ری اوپن کرنے کی منظوری کا آئی  اے سی کا نوٹ تھا جس سے کاروائی شروع ہوئی  تھی۔
ہم ابھی تک پُر اعتماد نہیں  تھے۔ ہم نے اس انسپکٹر سے جس نے آئل کمپنی سے کرایہ نامہ لے کے فائل پہ لگوایا تھا اسے ڈھونڈ نکالا۔ وہ کمپنی سرکل میں پوسٹ تھا ، غائبانہ تعارف تھا، ہیلو ہائے ہوئی ہو گی کہ وہ جانتا تھا۔
ہم اسے لنچ کرانے اپنے ساتھ میلوڈی ہوٹل پہ  لے آئے۔
کھانا کھانے تک ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ قہوہ پیتے ہم نے چوہدری کے کیس کی بات چھیڑ دی۔
وہ تو پھٹ پڑا۔ ۔چوہدری کے خلاف شکایتوں کا ڈھیر لگا دیا۔
اس کے بقول ، جب یہ کاپی مینجر نے اسے دی تو کمپنی سے جگہ خالی کرانے کا معاملہ عروج پہ  تھا۔۔
اس نے وہیں پلاٹ پہ  چوہدری سے ملاقات کی، وہ تو کمپنی کے خلاف چوہدری کا ساتھ دینا چاہتا تھا لیکن چوہدری نے اسے کمپنی کا ہرکارہ سمجھ کے اس کی  بے عزتی کر دی۔ یہاں تک کہا کہ تم یہ کاغذ بیچنے آئے ہو۔ جاؤ جو کرنا ہے کر لو۔۔۔
میں سارے اِنکم ٹیکس کے محکمے کو جانتا ہوں۔
اب انسپکٹر نے مجھ سے پوچھا کہ، میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے ؟۔۔ظاہر ہے اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا ! الٹا اس سے مشورہ مانگا کہ کیس میں سٹینڈ کیا لیا جائے ؟

تجربہ کار بندہ حل بتا سکتا ہے۔ اس نے کہا ، آپ صفائی اور ثبوت دینے کا موقع  نہ دیئے جانے ۔۔کی دلیل دیں ،آرڈر set aside کرائیں ۔
کیس واپس سرکل میں آئے گا وہاں سیٹلمنٹ تو آپ کروا لیں گے، اب تو سب افسر آپکے دوست یار ہیں۔
اگلے روز ہم ٹریبیونل کے دفتر جو ایف سیون کی کوٹھی میں تھا وہاں چلے گئے، رجسٹرار اور عملے سے سلام دعا کی۔
ان کے ساتھ چائے پی، اپیل کے لیے کورٹ میں پیشی کے قوائد و ضوابط پوچھے، ممبران کا جغرافیہ معلوم کیا۔
کورٹ روم جب خالی ہوا اس میں بھی جھاتی ماری۔ وہاں ایک ممبر کا پیشکار آڑا بشارت ، چکوال کا نکل آیا،ہماری پریشانی کافی حد تک دور ہو گئی۔ یہ کنفرم ہوا کہ چوہدری کی اپیل دو دن بعد کی کاز لسٹ میں آخری نمبر پر ہے۔
اگلے روز ہم نے چوہدری صاحب کے ساتھ ان کے پلاٹس کا تفصیلی دورہ کیا۔ کمپنی والے تو جا چکے تھے۔
ڈبل کارنر کے تین جڑواں پلاٹوں کا نقشہ ہم نے ذہن نشین کر لیا،
چوہدری کو ہم نے زور دے کے کہا کہ وہ پنڈی جا کے کسی سینئر وکیل کو راضی کرے، میں ساتھ پیش ہو جاؤں گا۔
لیکن پیشی والے دن جب وہ مجھے گھر سے لینے آئے تو ان سب وکلا کو بڑی سی گالی دے کے کہا کہ ہم دونوں بھائی خود پیش ہوں گے، تو جناب ہم ہمراہ مؤکل بستہ اٹھائے اِنکم ٹیکس اپیلیٹ ٹریبیونل پہنچے۔ جہاں آٹھ دس اور وکیلکوٹھی کے ڈرائیو وے پہ  اپنی پیشی کی باری کے انتظار میں واک کر رہے تھے۔
ہم چوہدری کو اس کے گناہوں کا بستہ تھما کے ان وکلا کی معیت میں چھوڑ کے باتھ روم جانے کے بہانےاپنے گرائیں کے دفتر میں جا بیٹھے۔ اسے کڑک دودھ پتی بنوانے کا کہا۔ چکوال بارے گپ شپ میں وہ انتظار کی زحمت جو بندے کے اعتماد کو کمزور کر دیتی ہے ۔ اس سے بچ گئے۔۔
دیگر وکلا نے شاید اپنے کیسز میں التوا لیے کہ ہم ابھی دودھ پتی سُڑک رہے تھے کہ کورٹ کے بلارے نے ہمارے نام کی صدا دی۔ سیڑھیاں پھلانگتے کورٹ روم کے داخلی دروازے پر پہنچے ، چوہدری سے بستہ پکڑا ۔ کپکپاتی لرزتی ٹانگوں پہ چل کے روسٹرم پہ  جاکے سر جھکا کے ممبران کے سامنے سر نگوں ہو کے سلام کیا۔دائیں ہاتھ کرسی پہ سرکاری وکیل جنہیں ۔ ڈی آر۔ محکمے کا نمائندہ کہتے ،براجمان تھے انہیں بھی ٹائم وِش کیا، چوہدری بائیں ہاتھ کرسی پہ بیٹھ گیا۔
ہم پہلی پیشی کی تیاری میں نوبیاہتا دلہن کی طرح بن ٹھن کے گئے تھے، نکٹائی سے شوز تک ہر ملبوس میچنگ تھا۔
دونوں ممبر حضرات ہمیں بغور دیکھ رہے تھے۔ ہم نروس ہو رہے تھے، کہ ممبر قصوری صاحب نے مخاطب کیا۔
“ویلکم ینگ مین۔ ۔ آپ پہلی بار ہمارے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ چلیے بیسک فیکٹس لکھوائیے “۔
ہم نے فیکٹس شیٹ سے پڑھنا شروع کیا۔ دوسرے ممبر بخاری صاحب نے دو ایک سوال پوچھے یہ مرحلہ بخیر تمام ہوا۔
قصوری صاحب نے حوصلہ افزا لہجے میں گراؤنڈز آف اپیل پر دلائل دینے کو کہا۔
ہم نے فائل بند کی اور زبانی بیان دینا شروع کیا۔ پہلے پراپرٹی کی منظر نگاری کی، پہلے کرایہ نامہ سے کمپنی سے پلاٹس خالی کرانے تک کے فیکٹس تفصیل سے بیان کیے۔ سی ڈی اے کے بائی لاز کا ذکر کرتے پہلا قانونی نقطہ اٹھایا۔۔کہ جب ٹیکس گزار نے دولاکھ روپے ماہانہ کرایہ از خود ڈیکلیر کیا، اس پہ ٹیکس ادا کیا ،تو پچیس ہزار ماہانہ کرایہ اگر لیا ہوتا تو اسے چھپانے کی ضرورت کیا تھی۔ رینٹ ایگریمنٹ کی کاپی نائب کورٹ کے ہاتھ ممبران کو پیش کی جس میں اس کا کینسل ہونا بطور ضمیمہ لکھا تھا۔ آئل کمپنی کے مینجر کے دستخط موجود تھے۔ بخاری صاحب نے پوچھا کہ اس تحریر کے گواہ کوئی تھے؟ عرض کی کہ جن حالات میں رینٹ ڈیڈ کینسل ہوئی گواہ کا ہونا ممکن نہیں تھا۔
اب ہم کورٹ کے ماحول سے مانوس ہو کے فارم میں آ چکے تھے بیان میں روانی تھی۔ فی البدیہ بیان کا اثر بھی ہو رہا تھا۔ opportunity of being heard کو ہلکا سا ٹچ کیا، بولتے آدھ گھنٹہ گزر چکا تو قصوری صاحب نے کمنٹ دیا
ہم یہاں محکمے اور ٹیکس گزار دونوں کے حقوق کے ساتھ فرائض کو بھی دیکھتے ہیں، ٹیکس گزار کمزور پارٹی ہوتا ہے تو اس کی ہر ممکن قانون و حقائق کے اندر داد رسی ہمارا فرض ہے،
بخاری صاحب نے پوچھا کہ کیا کیس دوبارہ سماعت کے لیے اِنکم ٹیکس آفیسر کو واپس بھیج دیں۔
اس پر ڈی آر صاحب روسٹرم پہ آئے ۔ پہلے تو آرڈر کنفرم کرنے پر بولے، آخر میں دوبارہ اسسمنٹ کی درخواست کی۔
جواب الجواب میں ہم نے محکمہ اور ٹیکس گزار کی قانون میں برابری ثابت کی، اور عرض کی کہ ایک فریق کی غلطی ثابت ہونے کے بعد اسے دوبارہ موقع  نہیں  دیا جا سکتا کہ یہ فریق ثانی کی حق تلفی اور دوبارہ سزا دینے کے مترادف ہے۔
قصوری صاحب نے فرمایا کہ اگرچہ یہاں فیصلہ سنانے کا رواج نہیں۔ لیکن ہم اس نووارد جوان کی ہمت افزائی کے لیے
کہہ رہے ہیں کہ یہ اپیل کامیاب ہوئی، آئی ٹو او اور کمشنر اپیل کے آرڈر کینسل کرتے ہیں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply