لیاری۔۔۔۔ذوالفقار علی زلفی/قسط 4

اس سے پہلے کہ ہم ون یونٹ مخالف تحریک اور بی ایس او کی پیدائش پر بات کریں، پہلے آئیے لیاری کے چند ترقی پسند بزرگوں کو یاد کرتے ہیں۔

ویسے تو پورا لیاری ہی تاریکی کے خلاف جگنوؤں کی مزاحمت کا مرکز ہے مگر دو علاقے ایسے ہیں جنہیں اس مرکز کے مراکز کہا جا سکتا ہے۔

ان میں سے ایک ہے؛ “چاکیواڑہ” جسے کسی زمانے میں “انقلاب جنکشن” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ چاکیواڑہ برطانوی دور سے لے کر ماضی قریب تک ٹرام سروس کا آخری اسٹیشن ہوا کرتا تھا۔ ٹرام کے ذریعے شہر کے کسی بھی علاقے میں جانا انتہائی سستا پڑتا تھا۔ مانا جاتا ہے فوجی آمر اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف احتجاج سب سے پہلے چاکیواڑہ سے ہی شروع ہوا جسے بعد میں آتما رام پریتم داس روڈ جسے آج کل شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ کہا جاتا ہے، کی احتجاجی ریلی سے عروج ملا۔ مذکورہ احتجاجی ریلی جمہوریت پسند رقیہ سومرو کی قیادت میں نکالی گئی۔ چاکیواڑہ کی اثر پذیری دیکھئے ممتاز اردو ادیب محمد خالد اختر نے ناول لکھا، اردو زبان کے شہرہِ آفاق انقلابی شاعر فیض احمد فیض کے مشورے پر اس کا نام “چاکیواڑہ میں وصال” رکھا گیا۔ 80 کی دہائی میں انور بھائی جان کے بلوچ اتحاد کے عروج کے دنوں میں یہاں بلوچ اتحاد کا مرکزی دفتر کھلا چوک پر مینار بنا کر اس کا نام بلوچ چوک رکھ دیا گیا۔ بلوچ چوک …. بظاہر قومی جذبات کی تسکین کا ذریعہ مگر عوام نے اسے مسترد کر کے چاکیواڑہ کو ہی اپنائے رکھا۔

چاکیواڑہ ہمیشہ سے مزاحمتی تحریکوں کا من پسند چوک رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر جب سارا پاکستان بشمول لاڑکانہ دم سادھے خاموش تھا، چاکیواڑہ وردی سے نبرد آزما تھا۔ ضیا مارشل لا کے بدترین دنوں میں چاکیواڑہ بے نظیر بھٹو کو پناہ دینے کی پاداش میں لاٹھی گولی کا سامنا کرتا رہا۔ گینگسٹروں کے خلاف پہلی دفعہ عوامی ابھار کا سہرا بھی چاکیواڑہ کے ہی سر بندھتا ہے۔ اکبر خان بگٹی مشرف کو للکار رہے تھے، چاکیواڑہ غلام محمد بلوچ کے مزاحمتی جلسے سن رہا تھا۔

چاکیواڑہ کے بعد دوسرا علاقہ جس نے انقلابی تحریکوں کی میزبانی کی، “آٹھ چوک” ہے۔ آٹھ چوک کو لیاری میں “ہشت چوک” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ چوک کے معنی چار ہوتے ہیں مگر یہ لیاری ہے جہاں آٹھ چوک بھی ممکن ہے۔ آٹھ چوک؛ بغدادی ، گل محمد لائن اور شاہ بیگ لائن کا سنگم ہے۔ اسی چوک کے قریب لیاری کے عظیم انقلابی کارکن لالہ لال بخش رند کا مسکن تھا۔ گئے دنوں میں یہ چوک “لینن گراڈ” کے نام سے معروف تھا۔

لینن گراڈ؛ عظیم مارکسی استاد و انقلابی، کامریڈ ولادیمیر لینن کے لیاری نشین پیروکاروں نے یہاں نشست جمائی۔ وہ روزانہ شام کو یہاں بیٹھ کر انقلاب و معاشی انصاف کے حصول کی جدوجہد پر بحث کرتے ، منصوبے بناتے ، کتابوں کا تبادلہ کرتے ، عمل کرتے اور پھر اپنے عمل کو مارکسی تنقید کی بھٹی سے گزار کر اس کا جائزہ لیتے۔

لینن گراڈ غالباً پچاس کی دہائی کے اواخر میں بلوچی زبان کے انقلابی شاعر اور “روچ ءَ کئے کشت کنت” یعنی “سورج کو کون قتل کر سکتا ہے” نامی شعری مجموعے کے خالق اکبر بارکزئی نے قائم کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سرگرم کارکن اور فلسفے کی محبت میں گرفتار یوسف نسکندی ، مزاحمت کے روشن مینار لالہ لال بخش رند ، علم کے دریا رحیم بخش آزاد ، لیاری کا روشن چہرہ لطیف بلوچ سمیت ترقی پسند سیاست کے معروف نام یوسف مستی خان اور دیگر اس مجلس کے اہم ترین ارکان تھے۔

چاکیواڑہ عمل کا مرکز تھا، جب کہ آٹھ چوک عمل کے لیے غور و فکر کی جگہ تھی۔ یہی وہ آٹھ چوک ہے جہاں سے مزاحمتی دانش ور صبا دشتیاری کا جنازہ فلک شگاف نعروں کی گونج میں اٹھایا گیا۔ نصرت بھٹو نے میر مرتضیٰ بھٹو کی انتخابی مہم کی شروعات یہاں سے کر کے بلوچی نعرے کو مہمیز دی؛ “بجاں، بجاں …. مُشت بجاں” ۔ نواب اکبر خان بگٹی کے قتل کے بعد بی ایس او کے نوجوانوں نے چوک پر بلوچستان کا پرچم لہرا کر اس کا نام “بگٹی چوک” رکھا۔گینگسٹروں نے پرچم اتار کر اسے پاکستان چوک کا نام دینے کی کوشش کی۔ عوام نے نہ لینن گراڈ کو یاد رکھا اور نہ ہی بگٹی و پاکستان کو ، آج بھی یہ “ہشت چوک” ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

لینن گراڈ کے اراکین نے لیاری کے سماج کو بدلنے میں مؤثر کردار ادا کیا۔ وہ سوچتے تھے ، عمل کرتے تھے۔ شاید اس لیے کیوں کہ اس وقت فیس بک ایجاد نہیں ہوئی تھی!!۔

لینن گراڈ کے بیشتر اراکین نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی عوام میں جڑیں تھیں۔ وہ لیاری کی سماجی حرکیات اور محنت کشوں کے مفادات و ثقافت سے براہِ راست جڑے ہوئے تھے۔ اس لیے جب انہوں نے اپنے نظریات و خیالات کی ترویج کی تو عوام کی غالب تعداد ان کی پشت پر کھڑی ہوگئی۔ ان کی عوامی مقبولیت ہی وہ سبب ہے جس نے عطااللہ مینگل ، خیربخش مری ، گل خان نصیر ، غوث بخش بزنجو ، ولی خان ، مولانا بھاشانی ، رسول بخش پلیجو حتیٰ کہ شیخ مجیب الرحمان و ذوالفقار علی بھٹو تک کو لینن گراڈ کے اراکین سے رابطے استوار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر تک لینن گراڈ تین ترقی پسند دھاروں میں تقسیم ہوگیا۔

ان تین دھاروں پر فرداً فرداً بحث کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس بحث سے شاید لینن گراڈ کے اثرات اور چاکیواڑہ کے مزاحمتی کردار کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔

پہلا دھارا: جنرل ایوب خان کا مارشل لا عروج پر تھا۔ بلوچستان بطور ایک قومی وحدت پاکستان کے نقشے سے غائب ہو چکا تھا۔ قومی شناخت کا مطالبہ غداری سمجھا جاتا تھا اور نواب نوروز خان ، قلات کے پہاڑوں اور بعد ازاں حیدرآباد جیل میں قومی سوال اٹھانے کے جرم میں سختیاں برداشت کر رہے تھے۔ ایسے میں میر غوث بخش بزنجو کی کوششوں سے سردار عطااللہ مینگل اور سردار خیر بخش مری ، بلوچ سیاست کی جانب آئے اور انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ انقلابی شاعر گل خان نصیر پہلے ہی اس راہ کے مسافر بن چکے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے بلوچ حصے نے لینن گراڈ سے اپنے تعلق استوار کیے۔ لالہ لال بخش رند ، یار محمد یار ، اکبر بارکزئی ، یوسف نسکندی اس کارواں کے ساتھ ہو لیے۔ قوم پرست سیاست کا مضبوط شہری مرکز لیاری بن گیا۔

سرداروں نے اپنا سیاسی قد اونچا رکھنے کے لیے لیاری کے لینن اسٹ سیاسی کارکنوں کا سہارا تو لیا مگر چلتے چلتے ان کو یہ احساس بھی دامن گیر ہوا کہ غیرقبائلی اور شہری مزاج لینن اسٹ کارکن سوال کی حرمت کو بلوچستان کے دیہاتوں تک متعارف کرانے میں کامیاب ہوگئے تو کیا ہوگا؟۔ سردار کی طبقاتی حیثیت چھن جانے کے اس خوف نے 80 کی دہائی میں لیاری اور بلوچستان کے محنت کشوں کے طبقاتی رشتے پر کاری ضرب لگائی۔ اس پر آگے چل کر بات کی جائے گی۔

نیشنل عوامی پارٹی بالخصوص غوث بخش بزنجو نے ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں فاشسٹ شخصیت نواب آف کالا باغ کے ساتھ ہاتھ ملا کر لیاری کے عوام کا سودا کر کے وقتی سیاسی فائدہ اٹھانے کی جو غلطی کی، اس فاش غلطی نے بھی لیاری میں قوم پرست سیاست کو کافی زک پہنچائی۔ افسوس لینن گراڈ کے قوم پرست اراکین اس غلط سیاسی فیصلے کا درست ادراک کرنے سے قاصر رہے۔ لمحوں کی خطا نے نہ صرف لیاری بلکہ بلوچستان کو بھی سالوں کی سزا دی۔ چوں کہ فی الوقت موضوع تین دھاروں کے گرد گھوم رہا ہے، اس لیے بعد کے حالات و واقعات کا تزکرہ مستقبل پر چھوڑتے ہیں۔

دوسرا دھارا : کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور اس کی ذیلی طلبا تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن پر 1954 کو پابندی لگنے کے بعد سوشلسٹ طلبا کی اکثریت نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب چھلانگ لگائی۔ ان طلبا کی شمولیت کے بعد این ایس ایف بائیں بازوں کی مؤثر طلبا قوت بن گئی۔ اس زمانے کے لیاری میں اعلیٰ تعلیم کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ چند ہی نوجوان تھے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ لیاری کے ان چند نوجوانوں نے بھی ترقی پسند رجحانات سے متاثر ہوکر این ایس ایف میں شمولیت اختیار کر لی ـ

اسی دوران لیاری کے بعض طلبا جن میں لینن گراڈ کے رکن لطیف بلوچ بھی شامل تھے، نے لیاری اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی۔ بلوچستان بالخصوص مکران کے طلبا بھی اس وقت اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کراچی کا رخ کر رہے تھے۔ بلوچستان کے طالب علموں کی اکثریت نے بھی طلبا سیاست کے لیے این ایس ایف کے پلیٹ فارم کو چنا۔ بعض طلبا جیسے صدیق آزاد اور ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی وغیرہ نے غالباً 1962 یا شاید 1963 کو “بلوچ اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل آرگنائزیشن” بنائی جب کہ اسی دوران کوئٹہ کے طلبا نے عبدالحکیم بلوچ کی سربراہی میں اس تنظیم سے ملتی جلتی “بلوچ ورنا وانندہ گل” بنائی۔

جہاں تک میری ناقص معلومات کا تعلق ہے، مختلف تنظیموں سے منسلک یہ طلبا 1965 کو نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے توسط سے لینن گراڈ تک پہنچے۔ لینن گراڈ کے ساتھ سیاسی شراکت داری کے دوران ان کے رابطے لیاری کی ادبی تحریک کے سرخیل مولانا خیر محمد ندوی سے استوار ہوئے۔ مولانا خیر محمد ندوی کے بلوچ اسکول میں “بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن” نے جنم لیا۔

بی ایس او کی پیدائش نے نہ صرف لیاری بلکہ پورے بلوچستان کی سیاست کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ لینن گراڈ سے لیکن یہاں بھی چُوک ہوگئی ، سردار اور نام نہاد مڈل کلاس کے تضاد نے بی ایس او کو چند سالوں بعد تقسیم کی مستقل آگ میں جھونک دیا۔ بی ایس او نے مختصر مدت میں لیاری کی سماجی زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان نقوش کی تفصیل بھی اگلے صفحات میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔

تیسرا دھارا : پاکستان بھارت جنگ کے بعد شملہ معاہدے کی تھیلی اٹھائے ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان کا دلکش نعرہ لگا کر پنجاب سے کراچی پہنچے۔ ان کے نعرے نے لینن گراڈ کے رکن رحیم بخش آزاد کو شدید متاثر کیا۔ لینن اسٹ فلاسفی پر یقین رکھنے والے رحیم بخش آزاد محنت کشوں کو روٹی، کپڑا اور مکان دلانے کے لیے، بھٹو کی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو لیے۔ پیپلزپارٹی نے جلد ہی نہ صرف قوم پرستوں کو مات دی بلکہ اس نے ہارون خاندان کی سیاسی اجارہ داری کا بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔

لینن گراڈ کا غالب حصہ قوم پرستی کی جانب نکلا اور ایک مختصر گروہ نے پیپلز پارٹی کو بہتر جانا۔ یہ دونوں گروہ فکری لحاظ سے یکجا جب کہ عملاً دو الگ الگ کشتیوں کے سوار بنے۔ سوشلزم ہی ان کے درمیان سابقہ فکری دوستی کی واحد کڑی تھی۔ عجب لوگ تھے، ان کی یہ نظریاتی دوستی تاعمر قائم رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply