سوتیلی بیوی(قسط3)۔۔محمد خان چوہدری

گرداور صاحب تو انسائیکلوپیڈیا تھے، چھوٹے بڑے سب راجہ جی بلاتے اور جناب ہر عمر کے احباب کے ساتھ جہاں ہوتے محفل لگ جاتی، گفتگو کے فن میں اوج کمال تھا، چوہدری فیروز کے ڈیرے پر
ایک ٹانگے والے سے لفٹ لے کے صبح پہنچ گئے، چوہدری فیروز خان منتظر تھا اس نے ڈیرے کی انچارج ماسی کو راجہ جی کے آنے کا بتا دیا تھا، ناشتہ سپیشل تیار تھا، لنچ کی تیاری تھی، ناشتے کے بعد نوکر مارکہ اپنے اپنے کام لگ گئے تو بیٹھک میں نشست لگی.

راجہ جی نے فیروز کا دل ہلکا کرنے کو ماضی کے جھروکے کھولے، ابتدا اس یاداشت سے یوں کی،فیروز جی آپ کے والد نے آپ کے دادا کی محنت سنبھال رکھی اصل کمال آپکے دادا کے ہیں جو
اتفاق سے میرے دادا جو پہلے گزر گئے، ان جیسے انقلابی تھے انہوں نے بھی ایسے ہی کام کیے ۔ مربعے بیچ کے شہر میں ہم سب کے لئے پختہ مکان بلکہ ماڑیاں تعمیر کرائیں، تاکہ ہمارے پاس
روایتی کاشتکاری کے سبب ہی نہ ہوں ، تو ہمارے بزرگ اور ہم مجبور تھے کہ تعلیم حاصل کریں۔اور سرکاری ملازمت میں جائیں، یہی ہوا سوائے اس کے ہم خاندانی اطوار کی وجہ سے بے جا رعب
سہنے سے عاری تھی، فوج میں افسر تو بنے لیکن میجر سے اوپر نہ جا سکے، پولیس میں ڈی ایس پی حد رہی۔

بہرحال یہ تبدیلی راس آئی ، ہر محکمے میں ہمارا کوئی  نہ کوئی  عزیز مل جاتا ہے، چوہدراہٹ چلتی ہے،نقد تنخواہ اور پنشن تو ہر حال میں نقد نارائن کی کمی نہیں  ہونے دیتی،تمہارے دادا نے اس کے الٹ کیا، یوں سمجھو کہ انہوں نے اشتمال اراضی کی راہ اپنائی ۔۔جہاں انکے کھیت زرخیز تھے اور رقبہ کم تھا وہاں دوسرے شریک کھاتہ مالکان سے ادل بدل کرتے،اپنے کھیت وسیع کرتے ، اب یہاں کس زمیندار کے پاس اتنا زیرکاشت رقبہ ہے۔

فیروز دم بخود راجہ جی کا چہرے تکتا رہا ، راجہ جی نے مزید کہا۔۔
یہ کھُوہ تمہاری جدّی وراثت نہیں  تھی، یہ تو تبادلہ کر کے تمہارے دادا نے ساتھ والے گاؤں کی ملکیتی اراضی سابق مالکان کو دے کے یہ زمین لی، انکو گاؤں میں بچوں کے گھر بنانے تھے تو اسی طرح دوسرا کھُوہ جسکی زمین بھی چھ بیگھے ہے آپکے دادا نے بس اونے پونے ، دو بھینسیں اور چند ہزار نقد دے کر خریدا تھا، تو بھائی  ہم دونوں دادا گزیدہ ہیں بتاؤ تمہارا پروگرام کیا ہے ؟
فیروز کو یکدم اپنا دل کا بوجھ ہلکا ہوتا محسوس ہوا۔ وہ اٹھ کے اندر گیا اور سپیشل گائے کے دودھ کی تیز پتی والی چائے بنانے کا کہہ آیا۔
بڑے مؤدب ہو کے عرض کی،۔۔راجہ جی شکر ہے ڈیرہ اور زمیندارہ میری کمان میں ہیں پچھلے سال بھی گندم کی فصل اچھی ہوئی  اور اس کی بٹائی  حسب دستور دادا جی کی  تقسیم کے حساب سے ہوئی ، مزارعے، باقی دار، کمی، اور آپکے محکمے سمیت سب راضی اور خوش ہیں، تین ہل پکے چلتے ہیں ضرورت ہو تو اب ٹریکٹر بھی مل جاتا ہے۔

ڈرائیونگ سیکھ لی ہے، پہلا ٹارگٹ ٹریکٹر خریدنا ہے۔ راجہ جی نے شوشہ چھوڑا ، میں سمجھا شادی کرنا ہے،دونوں ہنس دیئے،
نوکرانی چائے لے آئی ، راجہ جی  نے کپ پکڑا اور اخبار جو ساتھ لائے تھے پڑھنے لگے جب تک فیروز نوکرانی اور ماسی کو کھانے اور کچھ دیگر احکام دیتا رہا۔

یہ راجہ جی کا کمال ہے کہ کسی کے گھر ہوں تو اہل خانہ کی نجی مصروفیات سے بالکل لاتعلق رہتے ہیں ،اخبار پر دھیان یہ پیغام تھا کہ کھل کے آپس میں بات کر لو، راجہ جی اخبار پڑھ رہے ہیں۔
فیروز بھی فارغ ہو کے چائے کی چُسکی لیتے اخبار دیکھنے لگا، کہ یکدم اسے اُچھو لگا،خیر منہ صاف کر کے کہنے لگا ، یہ ہمارے بنک کا اشتہار ہے ، جیپ برائے فروخت ، کا، راجہ جی نے دیکھا، وہ بولا یہ جیپ بہت اچھی ہے۔۔
میں نے خریدنی ہے، اسی بنک میں ہمارا اکاؤنٹ بھی ہے، راجہ جی مینجر سے ملتے ہیں ،آپکا تو جاننے والا ہو گا۔۔
بس آپ نے مجھے یہ جیپ لے کے دینی ہے،فیروز کا بچپنا اور بے تکلفی عود  آئے۔۔راجہ جی مسکرائے، باتھ روم کا پوچھا، فیروز نے نوکر کو آواز دی، وہ راجہ جی کو صحن کے کونے میں بنے باتھ
لے گیا، لوٹا پانی کا بھر کے پہلے اندر رکھا، دروازے کا تکلف نہیں  تھا بوری کا پردہ اس نے نیچے کر دیا،
راجہ جی نے واپس آ کے کہا ، بنک پانچ بجے تک ہوتے ہیں تیاری کرو آج ہی چلتے ہیں غلام علی مینجر ہے۔

غربی طرف بڑے اور پرانے گاؤں کا ہے اور پڑھے لکھے گھکڑ خاندان سے ہے !

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments