مجھے یاد ہے(قسط نمبر 1)۔۔حامد یزدانی

(والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں)
دسمبر کا مہینہ ہے اور اِدھر کرۂ ارض کے شمالی خطے میں سرمائی انجماد کا راج ہے۔باہر سرد ہوائیں برف باری کے ساتھ مل کر ساز باز کرنے میں مصروف ہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ باہر بھلے کوئی سا بھی موسم ہو میرے اندر تو ہر دم ایک ہی رُت کا ڈیرہ رہتا ہے۔اب آپ اسے ماضی پرستی کہہ لیجئے یا ڈھلتی عمر کا شاخسانہ، مگرحقیقت سے انحراف کیونکر ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے یاد ہے۔۔۔
نوے کی دہائی میں انتظار حسین صاحب ایک بین الاقومی اردو سیمینار میں شرکت کے لئے جرمنی تشریف لائے تو انہوں نے اپنے ناول ’’دن‘‘ پر یہ آٹو گراف عطا کیا تھا: ’’حامد اور طاہرہ یزدانی کے لیے، بہت محبت: برلن میں بستے رہو مگر دل میں پاکستان بسائے رکھو۔‘‘ انتظار صاحب جتنے دن وہاں رہے ہم مل کرپاکستان کی، لاہور کی ، حلقہ ارباب ذوق کی یادوں کے موسم تازہ کرتے رہے۔وہاں ایک تقریب میں ایک تارکِ وطن نوجوان پاکستانی گلوکار نے والد صاحب کی غزل (دولت ِ حُسن ِ یار مل نہ سکی۔یہ انوکھی بہار مل نہ سکی) یہ سمجھ کر کہ یہ میری غزل ہے سنانا شروع کی اور اشارہ بھی میری طرف کیا کہ ’’ یزدانی صاحب کی غزل پیش کررہا ہوں‘‘۔ انتظار صاحب جو میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھے تھے، میرے قریب ہوتے ہوئے بولے: ’’ یہ واقعی تمہاری غزل ہے ؟‘‘۔ میں نے جواب دیا: ’’ نہیں تو۔نوجوان فن کار کوضرور غلط فہمی ہوئی ہے یہ والد صاحب کی غزل ہے‘‘۔
’’اوہو، تو یوں کہوکہ یہ بڑے یزدانی صاحب کی غزل ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’ میں ابھی درستی کروائے دیتا ہوں‘‘۔
یہ سُن کرہنسے اور کہنے لگے:’’ چُپ کرکے بیٹھے رہو اور داد سمیٹو، والد کی اورچیزوں پر بچوں کا حق ہوتا ہے تو داد پر کیوں نہیں ۔بس ، لطف اٹھاؤ، یار۔
ایسی کتنی ہی پُرلطف یادوں کی گٹھڑی سنبھالے میں جرمنی سے پاکستان اور پھر پاکستان سے کرۂ ارض کے اس انتہائی سرد شمالی کونے میں آبسا۔یہاں لاہور سے جناب احمدندیم قاسمی کاجو پہلا خط موصول ہوا اُس میں لکھا تھا: ’’ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے اور جس مقصد سے آپ کرہ ٔ ارض کی پشت پر جا بسے ہیں، وہ ہر لحاظ سے پورا ہو۔‘‘سو، کرۂ ارض کی پُشت یعنی ادھر کینیڈا میں بسے اور اس خطہ کے رنگا رنگ موسموں کی شدتوں سے نمٹتے ہوئے بھی اب تو عشرے بیت چلے مگر دل میں تو گویا ایک ہی موسم ٹھہر گیا ہے؛ یادوں کا موسم جس میں ہر دم بیتے منظروں کی سنہری دھول اڑا کرتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ دھندلکا چھٹنے لگتا ہے اورایک کے بعد ایک منظرپردۂ ذہن پرفلم کی طرح فیڈ اِن ہونے لگتا ہے:
٭٭٭
مزنگ کی ایک گلی میں واقع دوکمروں کا مکان، دروازے سے باہر سرخ اینٹوں سے بنی کشادہ گلی، ایک طرف مکانوں کی قطار اور دوسری طرف تھانہ مزنگ کے عقبی میدان کی دیوار۔ بڑے بھائی خالد یزدانی نے مجھے اٹھا کر دیوار پر بٹھا دیا ہے۔سامنے ہمارے گھر کا دروازہ کھلتا ہے۔ والد صاحب دفتر جانے کے لیے باہر آگئے ہیں۔ امّی جان نیم وا دریچے میں کھڑی ہیں۔
’’دیکھو، یہ دیوار سے گر نہ جائے!‘‘۔ والد صاحب کہتے ہیں۔
خالد بھائی مجھے نیچے اتارتے ہیں اور ہم والد صاحب کے ساتھ گلی کی نکڑ پر واقع دکان تک آجاتے ہیں۔ میٹھی میٹھی گولیاں اور ٹافیاں جیبوں میں بھرتے ہیں۔ والد صاحب سلام کرتے ہوئے چوک صفانوالہ کی طرف مڑ جاتے ہیں اور ہم گھر کی طرف۔
٭٭٭
ہلکے نیلے پس منظر سے آگے ایک سبز سا منظر اور اس سے آگے روشن ہوتا ایک مہکتا ہوا، اجلاسا احساس اور ایک نرم آواز: ’’اُٹھیں، بیٹا۔۔۔بس کا وقت ہورہا ہے۔ ہمیں تیار بھی ہونا ہے۔‘‘ میں چارپائی پر لیٹے لیٹے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولتا ہوں۔ والد صاحب سامنے کھڑے مسکرا رہے ہیں۔ سفید شرٹ اور پینٹ پہنے، چہرے پر عینک کے شیشوں کے اندر سے جھانکتی شفقت بھری آنکھیں۔ان کے پیچھے’’ ابّا جی‘‘ یعنی ہمارے نانا جان سیّد شریف شاہ گیلانی صاحب کے گھر کے صحن میں ایستادہ پیڑ کی شاخیں جھول رہی ہیں اور سبز شاخوں میں سے آسماں کی نیلاہٹ جھانک رہی ہے۔
’’ کیسا روشن دن ہے !‘‘۔ میں سوچتا ہوں۔
بھائی صاحب، ابھی کل ہی تو آپ پہنچے ہیں لائل پور۔ایک توہماری آپا کوساتھ نہیں لائے اور اس پرآج ہی لاہور واپس جانے کی بات بھی کررہے ہیں اور اس پر ظلم یہ کہ ہمارے باغیچے کے ننھے ’’بوٹے‘‘ کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا !‘‘۔کڑھائی والے سبز دوپٹے کو سر پر ٹھیک کرکے خالہ راحت دوسرے کمرے کی دہلیز سے کچھ پرے دیوار کے ساتھ چکنی مٹی سے بنائی انگیٹھی پر دھری چائے کی دیگچی کا ڈھکن اٹھاتے ہوئے کہتی ہیں۔ایک نظر مجھے دیکھ کر ان کی نگاہیں کچے فرش پر ٹک گئی ہیں۔ادھ سوکھی لکڑیوں سے ابھرتی آگ کی لپٹیں چڑ چڑ کرتی انگیٹھی کی تین اطراف سے لپک لپک پڑ رہی ہیں۔دھوئیں کے سیاہ مرغولے دیوار پر منظر کشی کرتے ہوئے ہوا میں تحلیل ہوتے جارہے ہیں۔
ایک توصحافت میں چھٹی کم ہی ملتی ہے دوسرے اب اِس کے سکول کا بھی کچھ کرنا ہے، بڑا ہو گیا ہے۔‘‘ والد صاحب میری طرف دیکھتے ہوئے خالہ کی بات کا جواب دیتے ہیں۔
اِس کی پڑھائی کی فکر نہ کریں آپ۔ ہم اِسے یہیں سکول میں داخل کروا دیں گے جہاں سامنے والے شمس دین کے بچے جاتے ہیں۔ پاس ہی ہے۔چاہے تو ان کی نانی سے پوچھ لو۔ خوش رہے گا یہ یہاں، ہمارے پاس۔‘‘ اباّجی ( نانا جی) شفاف دھوتی کرتے میں ملبوس آرام کرسی پربیٹھے سامنے دھرے حقے کی نڑی کو اپنے منہ کے قریب لاتے ہوئے کہتے ہیں اور پھر سے حقہ گڑگڑانے لگتے ہیں۔
نہیں، میرے خیال ہے ہم اسے لاہور ہی میں سکول بھیجیں گے۔ آپ کی محبت اپنی جگہ لیکن ادھر گھر میں بھی توسب اسے یاد کرتے ہیں۔مجھے لگتا ہے یہ خود بھی میرے ساتھ جانا چاہے گا۔ ضرور اداس ہو گیا ہوگا۔
چلو، بیٹا ٹھیک ہے، جیسے تمہاری اور اِس کی خوشی۔ ہمارے پاس تو اب کوئی چھوٹا بچہ ہے نہیں سو اس کے ساتھ دل لگا رہتا ہے۔ پیدا بھی تو یہ ہمارے ہاں ہی ہوا تھا۔‘‘ اماں جی ( نانی جان) پرلے کمرے کے دروازے سے لگی کہتی ہیں۔
جی، شکریہ۔ یہ گرمیوں کی چھٹیوں میں آجائے گا آپ سے ملنے ،اپنی امی اور بھائیوں کے ساتھ، ان شا اللہ۔۔۔مجھے تو خیرکام ہوگا، نہیں آپاؤں گا۔‘‘ والد صاحب چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہتے ہیں۔
اچھا تو پھر میں اسے تیار کروا دیتی ہوں۔ ناشتہ کرلے تو کپڑے بھی تبدیل کردوا دوں۔ صاف ستھرا بنا کر بھیجوں گی ورنہ لاہور والی آپا کیا کہیں گی !‘‘ خالہ چائے رنگ دارپیالوں میں ڈالتے ہوئے قدرے شوخی سے کہتی ہیں۔
٭٭٭
خالد، شاہد، ساجد،راشد، ماجد، انیسہ اور میں۔۔۔ہم سب کریم سٹریٹ نمبر ۴۰والے مکان نمبر ۲ کے صحن میں بیٹھے ہیں ۔ چولہے کے گردا گرد۔۔۔ جس پر امی جان روٹیاں بنا رہی ہیں۔ سالن کی ہنڈیا مٹی کی پلیٹ سے ڈھکی پاس ہی پڑی ہے۔ ہم منتظر ہیں گرما گرم روٹیوں اور سالن کے۔
یہ کس کو اس قدر بھوک لگی ہے؟ دیکھو، روٹی کیسے پُھول رہی ہے، دیکھو !‘‘ امی جان توے پر کُپا سی روٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور مسکراتے ہوئے پوچھتی ہیں۔اور ہم سب ایک دوسرے کو تکنے لگتے ہیں۔ شاید دن بھر کے کھیل کود سے سب کی حالت یکساں ہے۔
پاپا کب آئیں گے دفتر سے؟‘‘ انیسہ امی جان سے پوچھتی ہے۔
اب تک تو آجانا چاہیے تھا۔ بیٹھ گئے ہوں گے کہیں شعر وشاعری کرنے۔ چائے پر چائے اور سگریٹ پر سگریٹ چل رہی ہو گی۔‘‘ امی جان ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔
تو کب آئیں گے ؟‘‘ میں بےچینی سے پوچھتا ہوں۔
ہاں، اسے فٹا فٹ بتائیں ۔ پاپا سے زیادہ اسے مٹھائی کا انتظار ہوتا ہے۔ شاید وہی لینے راستے میں رک گئے ہوں مُلّا کی دکان پر۔‘‘ ساجد بھائی کہتے ہیں۔
مٹھائی لینے تو ہمیں ان کے ساتھ جانا ہے ، کھانے کے بعد۔ پہلے کیسے لے آئیں گے؟‘‘راشد کہتا ہے۔
’’امی، ان کے دانت پہلے سے خراب ہورہے ہیں مگر مٹھائی۔۔۔۔‘‘
اچھا، اچھا۔۔۔اب تم میری بات سنو، تم لوگ دس تک گنتی گننا شروع کرو۔ جب دس پر پہنچوگے تو تمہارے پاپا آجائیں گے ۔یہ کیسا رہے گا؟‘‘امی جان روٹی پلٹتی ہیں اور شاہد بھائی کی بات کاٹتے ہوئے ، کن اکھیوں سے بیرونی دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے کہتی ہیں۔
لیکن آپ کو کیسے معلوم؟‘‘ ماجد پوچھتا ہے ۔
’’ بس معلوم ہے۔۔۔اب تم لوگ گنتی شروع کرو گے یا پھر۔۔۔۔‘‘
ایک،دو، تین، چار، پانچ۔۔۔‘‘ ہم امی جان کی دھمکی مکمل ہونے سے پہلے ہی دروازے کی طرف نظریں جمائے بآوازِ بلند گنتی شروع کردیتے ہیں۔۔۔’’چھ، سات، آٹھ، نو۔۔۔اور۔۔۔دس۔۔۔
اور سب کھلکھلا اٹھتے ہیں ۔ پاپا بیرونی دروازے کی اوٹ سے برآمدے میں داخل ہوتے ہیں، ایک دھیمی مسکان کے ساتھ۔
لیجیے، آگئے آپ کے شاعر پاپا۔اب سب کچھ وزن میں ہو جائے گا۔‘‘ امی جان ہنس کر استقبالیہ جملہ کہتی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مجھے یاد ہے(قسط نمبر 1)۔۔حامد یزدانی

Leave a Reply