• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تسامح، مبانی کا اختلاف اور دیگر امور کا شیعی علومِ حدیث پر اثر

تسامح، مبانی کا اختلاف اور دیگر امور کا شیعی علومِ حدیث پر اثر

تسامح، مبانی کا اختلاف اور دیگر امور کا شیعی علومِ حدیث پر اثر
امجد عباس
اہل تشیع محدثین کے ہاں، مقبول احادیث کے تعین میں اختلاف رہا ہے۔ قدماء کے نزدیک قابلِ عمل حدیث کو صحیح سمجھا جاتا تھا، خواہ سند جیسی بھی ہو۔ اِس کے مقابلے میں ہر اُس حدیث کو چھوڑ دیا جاتا تھا جس پر قدماء نے عمل نہ کیا ہو، خواہ سند کیسی جید ہو۔
متاخرین میں دو ،رجحان سامنے آئے، ایک توثیقِ عام، جیسے ایک خاص کتاب کی سبھی روایات کو درست مان لینا، مثال کے طور پر کامل الزیارات اور کتبِ اربعہ کے متعلق بعض محدثین کی رائے۔
دوسرا ناقلِ حدیث کے اعتبار سے حدیث کو قبول یا رد کرنا، یُوں حدیث کو صحیح، حسن، مؤثق اور ضعیف میں تقسیم کرنا، کہا جاتا ہے کہ اِس رجحان کو سید ابنِ طاؤوس اور علامہ حلی نے رواج دیا، یہ رجحان پھر عام ہوگیا، جمہور شیعہ علماء نے اِسی روش کو اپنایا، الکافی کی شرح “مراۃ العقول”میں علامہ مجلسی نے بھی ناقلِ حدیث کے اعتبار سے احادیث کو صحیح، حسن، موثق، قوی اور ضعیف میں تقسیم کیا ہے۔ معاصر فقہاء میں آیۃ اللہ الخوئی نے اسی اُسلوب کو اپنایا۔ آیۃ اللہ آصف محسنی نے اسی روش پر “مشرعۃ بحار الانوار”کو مرتب کیا ہے۔ معاصر شیعہ فقہاء اسی روش پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔ یاد رہے اس رجحان کے قائل علماء کے نزدیک حدیث کی صحت کے قرائن میں سے ایک قرینہ راوی کا قابلِ اعتبار ہونا ہے۔ دیگر قرائن کو بھی پیشِ نگاہ رکھا جاتا ہے۔ (کتب اربعہ کو دیکھا جائے تو مرتبین کے سند کے اہتمام سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک بھی راوی کی بڑی اہمیت ہے)۔
زمانے کی سختی، حالات کی تلخی، مخالف حکمرانوں کے جبر، شیعہ علماء و محدثین کے تقیے اور ایسی دیگر مشکلات کی بنا پر آئمہ اہلِ بیت علیھم السلام کے ارشادات و روایات کو مکمل محفوظ نہ کیا جا سکا۔ آئمہ کے اصحاب کی کتب ضائع ہو گئیں، النجاشی کی “الرجال”اور الطوسی کی “الفھرست” کو دیکھیں تو اصحابِ آئمہ کی بہت سی کتب کے نام ملتے ہیں لیکن آج وہ کتب موجود نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی شیعی علمی میراث میں ایک سلسلہ گُم ہے، تب ہی اِس کا آغاز بظاہر تیسری اور چوتھی صدی ہجری سے ہوتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ، چوتھی اور پانچویں صدی کے عظیم شیعہ محدث، شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسی، نے بغداد میں قدیم اور نایاب شیعی علمی میراث کو جمع کرلیا تھا۔ الطوسی کی لائبریری میں نایاب ترین کتابیں تھیں۔ بدقسمتی سے بغداد میں فرقہ وارانہ تصادم کے نتیجے میں الکرخ نامی محلے میں الطوسی کی نادر و نایاب لائبریری کو نذرِ آتش کردیا گیا، یُوں شیعی علومِ قرآن و علومِ حدیث کی قدیمی کتب ضائع ہو گئیں۔ اِس کے علاوہ، قدیم شیعہ محدثین کی بچ جانے والی کتب، تحریروں نیز اطراف میں موجود محدثین سے، باآسانی دستیاب احادیثِ اہلِ بیت سے تیسری اور چوتھی صدی ہجری تک، “کتبِ اربعہ”کو ترتیب دیا جا چکا تھا، جن پر بڑے بڑے علماء اعتماد کرتے تھے۔شیعہ محدثین نے آئمہ اہل بیت سے کثرت سے احادیث نقل کی ہیں کہ اُن پر لوگ جھوٹ بولتے ہیں، فُلاں فُلاں راوی جھوٹے ہیں لیکن الگ سے من گھڑت احادیث پر کام نہیں کیا گیا۔
تیسری صدی ہجری سے تیرہویں صدی ہجری تک، میرے علم کے مطابق، کسی شیعہ محدث نے من گھڑت (موضوع) احادیث کو الگ نہ کیا۔ چودہویں اور معاصر صدی میں چند علماء نے اپنے انداز سے کسی قدر موضوعات پر قلم اُٹھایا لیکن یہ کام انتہائی ابتدائی نوعیت کا ہے۔میری دانست میں شیعی حدیثی میراث میں موضوع روایات کے ساتھ، موضوع کتب بھی موجود ہیں، جیسے “الفقہ الرضوی”جسے “فقہ الرضا” بھی کہا جاتا ہے، بظاہر “تفسیرِ قمی”اور “تفسیرِ حسن عسکری”نامی کتب بھی جعلی (وضعی/من گھڑت) ہیں۔
حدیث کو لینے کے حوالے سے شیعہ علماء تسامح سے کام لیتے رہے ہیں۔ ہاں مبانی کا اختلاف بھی موضوع روایات کی تعیین میں مانع رہا ہے۔ میری ذاتی رائے میں اثنا عشری شیعی نظریات بھی کسی قدر اسماعیلی باطنیت سے متاثر ہوئے ہیں، شاید ذخیرہء احادیث سے من گھڑت احادیث کو الگ نہ کرنے اور احادیث کو لینے میں تسامح سے کام لینے میں بھی باطنیت اثر انداز رہی ہے کہ ہو سکتا ہے حدیث ظاہری پہلو سے نادرست لیکن کسی باطنی تاویل سے درست ہو، یا ہم اس کی حقیقت سے آشنا نہ ہوں، لہٰذا اسے رد نہ کرنا ہی بہتر ہے، ہاں اس کا علم، ہمیں نہیں، یُوں من گھڑت احادیث جدا نہ کی گئیں۔
شیعہ جمہور علماء، عقائد میں خبر واحد کو قبول نہیں کرتے لیکن عملی لحاظ سے خبر واحد کیا، بلا سند روایت کو بھی عقائد میں بطورِ نص پیش کیے جانے کا رواج عام ہے، جیسے لولاک لما خلقت الافلاک، قابلِ قبول لیکن لولا علی لما خلقتک، لولا فاطمۃ لما خلقتکما۔۔۔ ایک ضعیف السند خبر واحد ہے لیکن عوامی سطح پر اِس پر عقائد کی بنیادیں استوار کی گئی ہیں۔ اصول فقہ میں حجیتِ خبر واحد کی طولانی مباحث آج بھی شاملِ درس و تدریس ہیں لیکن عملی طور پر فقہ میں آج بھی ضعیف اخبارِ آحاد کی بھرمار ہے۔ شیعی اصولِ فقہ اور فقہ میں بظاہر ایک بڑا گیپ ہے، اسی کی بابت المجلسی نے بحار الانوار میں اجماع کی بحث کے ذیل میں لکھا کہ الاصولیون اذا رجعوا الیٰ الفقہ نسوا ما بنوا علیھا فی الاصول کہ اصولی علماء، جب فقہ میں آتے ہیں تو اپنے اُن قواعد کو بھول جاتے ہیں جنھیں اصولِ فقہ میں بیان کرتے ہیں۔
عصرِ حاضر میں علومِ حدیث کے مبانی پر از سر نو، بحث کر کے، حجیت کو طے کر کے صحیح کو سقیم سے، من گھڑت کو اصل سے جُدا کرنا ہوگا۔ موضوع احادیث، غریب الحدیث، شرائط قبولِ حدیث پر بھی کام کیا جانا چاہیے نیز فقہ و اصول فقہ میں دوریوں کا جائزہ لیکر اِنھیں حل کرنا بھی ضروری ہے ۔ یہاں پر ایک مثال عرض کروں گا کہ معاصر فقہاء کی اکثریت، شہرت (روائی و فتوائی ہر دو) کو حجت نہیں مانتی لیکن استاذ الفقہاء البروجردی سے معاصر آیۃ اللہ السبحانی نے الموجز میں نقل کیا ہے کہ آج بھی شیعی فقہ میں تقریباً 1100 ایسے مسائل ہیں جن پر شہرت کے علاوہ کوئی دلیل موجود نہیں۔
مجموعی طور پر اصول فقہ سے ایسی مباحث نکالنا ہوں گی جن کا عملی ثمرہ نہیں یا جو دیگر علوم سے مربوط ہیں۔اسی طرح اسلامی فقہ کو بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کی ازحد ضرورت ہے۔

Facebook Comments

امجد عباس، مفتی
اسلامک ریسرچ سکالر۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply