قصہ حاتم طائی جدید 2۔۔

قصّہ حاتم طائی جدید 2—
ظفرجی
حاتم نعرے مارتا ہوا اس بزرگ سے رخصت ہوا اور سرگودھا کی راہ پکڑی- سو ،دو سو کوس ہچکولے کھانے کے بعد اس نے ٹکٹ فروش سے اخلاقاً دریافت کیا:
" اے اس بدبخت لاری کے کم بخت کنڈکٹر !!! سرگودھا کب آئے گا ؟"جواباً کنڈکٹر بھی اسی شیریں زبانی سے مخاطب ہوا :
"بیٹھا رہ … جدُوں کَن تے کِنّوں وجیا سمجھ لئیں سرگودھا آگیا … "بہرحال تین دن اور تین رات کی مسافت کے بعد لوکل بس ایک شہر میں داخل ہوئی جہاں ہر طرف یہ صدا تھی:
"سٹھ روپئے درجن سٹھ روپئے درجن !"
حاتم نے سر اٹھا کر دیکھا تو فضاؤں میں اڑتے ہوئے شاہین بھی مالٹے کھا رہے تھے-حاتم نے بس چھوڑی اور کئی روز تک شہر میں مٹرگشت کرتا رہا- کچھ روز وہ " چوکی بھاگٹ" میں چوکڑی مارے بیٹھا رہا ، پھر "بھیرہ"کا پھیرا لگایا لیکن مراد بر نہ آئی- ایک روز وہ "جھال چکیاں" میں بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا کہ اچانک غیب سے نداء آئی:
"; کسے دا نئیں کوئی——ایتھے یار سارے جھوٹے نیں"
اس نے چونک کر پہلے تو ادھر ادھر دیکھا پھر جھٹ جیب سے موبائل نکالا- دوسری طرف پیرِ فرتوت تھے- حاتم نے کہا:
اے کی کیتا جے پِیرو ؟؟
جواب آیا " کی ہو گیا وِیرو ؟؟"
حاتم سسک کر بولا :
"چرخ و فلک اس فراڈ پر قہقہہ فغاں ہیں جو آپ نے مجھ سے فرمایا ہے"
جواب آیا:
"غم نہ کر بیٹا — فراڈ جمہوریت کا حسن ہے — اور اسی میں قوم خوش رہتی ہے —- بتا کیا مسئلہ ہے— ؟؟"حاتم بولا :
"یا وحشت …. یہ کون سا دیس ہے ؟؟ نہ تو یہاں کوئی مولوی ہے نہ ہی کسی کو شادی کا خیال- ہر شخص ایک عدد شکاری کُتّا اور ایک مرغِ اصیل بغل میں دبائے پھرتا ہے- گاہ گاہ شام پگاہ اسی کی خدمت گاری ہے —- لوگ خود مونگ پھلی پھانکتے ہیں اور بادام کُکّڑوں کو کھلا دیتے ہیں- "
بزرگ نے کہا:
"اے حاتم یہ سرگودھا ہے — دُنیا کے خالص ترین "مَلک"یہاں بستے ہیں- بہرحال تو یہاں سے دس قدم سیدھے اور بیس قدم اُلٹے چل — وہاں تجھے ایک چِٹّا اصیل کُکڑ نظر آئے گا– اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہ ، نصف کوس پر گوہرِمقصود ہاتھ آوے گا — نام اس کا مولوی مقصود ہے — اسے ہمارا سلام دیجئو — اور اشٹوری کی فرمائش کیجیو —- "
حاتم خدا کا نام لیکر اٹھ کھڑا ہوا- ابھی نو قدم ہی چلا تھا کہ اسے ایک مرغ اصیل ابیض دکھائی دیا— ادھر حاتم نے آستین چڑھائی ادھر اس کُکّڑ نے دوڑ لگائی… !!!ابھی دونوں نو کوس ہی بھاگے تھے کہ اچانک مرغ نے بریک لگائی اور پیچھے مڑ کر گویا ہوا:
"اے حرص و ہوّس کے پجاری — اگر تیرا مقصود محض ایک انڈہ ہے ، تو کسی مرغی کا دروازہ کھٹکٹا — کیوں میرے پیچھے خوار ہوتا ہے؟؟ "
حاتم نے کہا : اے مرغِ بادِ نماء !!! تیرا خدشہ بے جاء ہے — بخدا حکومت سے بجلی اور مرغ سے انڈے کی امید رکھنا خواری ہے — اور جو ایسا کرے نرا پٹواری ہے —"
( ہونا حاتم کا مُرغِ اصیل پر سوار اور پہنچنا ایک ہرے بھرے باغ میں ، جہاں مولوی مقصود حُقّہ پیتے ہوئے ہر کش پر یہ صدا لگاتا تھا "مافی مافی مافی —- شادی ایک ہی کافی" )
حاتم کو دیکھ کر وہ کپڑے جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا ، پھر حُقّے کا پانی سر پر انڈیلتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رویا اور آخر میں کھانس کھانس کر ہنسا-
جواباً حاتم بھی کھانس کھانس کر رویا اور پھوٹ پھوٹ کر ہنسا-
اس پر وہ شخص بولا:
"—- سن اے آدم زاد —- میں رویا اس لئے ہوں کہ سالوں بعد آج ہی بازار سے ایک پاؤ کٹّے کا گوشت منگوایا تھا ، اوپر سے تُم بن بلائے مہمان بن کر آ گئے ہو — اور ہنسا اس لئے ہوں کہ تمہاری آمد سے پہلے ہی میں کَٹّا چٹ کر چُکا ہوں "
حاتم نے کہا: اے پیرِ مرد، میں رویا اس لئے ہوں کہ جسے تو کٹّاکٹ سمجھ کر لپیٹ گیا ہے ، وہ کٹّا نہیں کھوتا تھا ، اور ہنسا اس لئے ہوں کہ شکر ہے سرگودھے میں ایک کھوتا تو کم ہوا"
اس پر دونوں دھاڑیں مار مار کر ہنسے یہاں تک کہ پیٹ میں بل پڑ گئے- پھرحاتم نے سو کا مڑا تڑا نوٹ دکھا کر کہا:
"چل ہن اپنی کہانی سُنا"

Facebook Comments

ظفرجی
جب تحریر پڑھ کر آپ کی ایک آنکھ روئے اور دوسری ھنسے تو سمجھ لیں یہ ظفرجی کی تحریر ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply