خورشید بہ روزنے در افتاد و برفت۔۔۔عاطف ملک

بوڑھے کوہستانی نے دور سامنے نظر آتے پہاڑوں پر نظر ڈالی۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ دور پہاڑ جن کی چوٹیاں گرمیوں میں لکیر دار ہوجاتی ہیں، دھوپ جہاں جیت جائے وہاں برف پگھل جاتی ہے، پانی کی لکیر بن کر نیچے کو بہہ جاتی ہے۔ اور اس لکیر کے آس پاس برف جمی رہتی ہے۔ پہاڑ سے نیچے اترتی  راہ، گہری  راہ مگر برف سے بھری رہتی  ہے، سفید برف سے بھری  راہ جس پر نیلا آسمان اپنا رنگ ڈالتا ہے۔

پہاڑ کے اوپر کے آسمان کو دن میں دیکھو تو کچھ زیادہ ہی نیلا لگتا ہے، اور رات کو دیکھو تو ایسا ستاروں سے بھرا ہوتا ہے کہ کسی معصوم کی جھلملاتے تاروں سے سجی اوڑھنی ہو۔

بوڑھا کوہستانی مسکرا رہا تھا، یہ پہاڑ اس کی زندگی کا حصہ تھے۔ اس کی داڑھی برف کی مانند سفید تھی، جھاگ کی مانند سفید، اور وہ خود دھوپ کی مانند اُجلا تھا۔ وقت کی دھوپ نے اس کی داڑھی کے رنگ کو پگھلا کر سفید کر دیا تھا مگر وہ اب بھی جب کھڑا ہوتا تھا تو ایک رعب ساتھ لے کر کھڑا ہوتا تھا۔ اس کے سر کے اوپر آسمان کچھ زیادہ ہی نیلا لگتا تھا۔ بوڑھے کوہستانی کے چہرے پر وقت نے لکیریں ڈال دی تھیں۔ لکیر ۔۔۔جہاں سے کبھی آنسو بہے ہونگے مگرآس پاس لاعلم رہا۔

اُس وقت بھی جب اُس نے جوان بیٹے کی لاش کو دفنایا تھا، اس کی آنکھیں پتھرائی تھیں۔ آس پاس کے پتھریلے پہاڑوں کی مانند پتھرائی ہوئیں، بغیر کسی ہریالی کے، سیاہ مٹیالے سخت پتھر کی مانند، پتھرائی، سخت پتھرائی، بغیر کوئی احساس دیتیں۔ مگر کبھی تو پانی بہا تھا، کسی اندھیری رات میں، جب ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے، جب کوئی ستارہ نہ چمکے، جب مسافر اپنی راہ بھول جائیں، جب عفریت ان راہیوں کو نگل جائے، جو اپنا راہ بھول چکے ہوں اور کوئی پھر تمام عمر ان کے انتظار میں ایسا بیٹھا رہے کہ چہرے لکیر دار ہوجائیں۔ اُس کے چہرے کی لکیریں بتاتی تھیں کہ کبھی تو پانی بہا تھا۔

کوہستانی ،پہاڑ کی مانند تھا۔ لکیردار چہرہ، سفید داڑھی اور کاندھوں پر سفید اُون کی بنی شال دونوں بازوؤں اور کمر کے گرد خوب لپٹی ہوئی۔ وہ گھر کے برآمدے میں بیٹھا تھا۔ برآمدے میں لکڑی کی جالیاں لگی تھیں۔ سبز رنگ، ترچھی لکڑیاں جو ایک دوسرے کو ایسے کاٹتی جاتی تھیں کہ ان کے درمیان ترچھے چوکور خانے بنے تھے۔ دھوپ ان سے چھن چھن کر آرہی تھی۔ فرش پر سایہ بن رہا تھا، روشن چوکور ڈبیاں، ایک دوسرے سے جڑی، فرش پر ٹیڑھی پڑی ہوئی دھوپ۔

بوڑھا کوہستانی مسکرا رہا تھا۔ دھوپ ڈھلنے لگی۔ بوڑھا کوہستانی اٹھا۔ ایک طرف پڑے بستر پر لیٹا۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور مسکرا دیا۔

از موت و حیات چند پرسی آخر
خورشید بہ روزنے در افتاد و برفت

Advertisements
julia rana solicitors

ترجمہ : زندگی اور موت کے بارے میں کیا پوچھتے ہو۔ بس یہ سمجھو کہ دھوپ روزن سے اندر آئی اور گزر گئی۔

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل ، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ یہ تحاریر ان کے ذاتی بلاگ پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply