کشمیر کا سچ،گراؤنڈ رپورٹ(قسط 1)

ڈاکٹر قمر تبریز کا تعلق سیتا مڑھی بہار سے ہے۔ آپ معروف صحافی اور قلم کار ہیں اور راشٹریہ سہارا، عالمی سہارا، چوتھی دنیا، اودھ نامہ اور روزنامہ میرا وطن سمیت مختلف اخبارات سے وابستہ رہ چکے ہیں۔

دیگر صحافیوں کی طرح میں بھی یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر پچھلے دو سالوں میں کشمیر کے اندر ایسا کیا ہوگیا کہ لکھنے والے وہاں سے لوٹ کر یہ لکھ رہے ہیں کہ ’’کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے‘‘۔ اب تقریباً 15 روز کشمیر میں گزارنے کے بعد بڑی حد تک یہ بات سمجھ میں آئی ہے، جسے میں اپنے اس کالم کے تحت بتانے کی کوشش کروں گا۔”یہ تمہارا جھنڈا ہے، وہ ہمارا”۔۔۔۔ سرینگر کی عالمی شہرت یافتہ ڈل جھیل میں شکارہ چلاتے ہوئے، 18 سال کے نوجوان محمد عارف نے جب مجھ سے سامنے پہاڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ تمہارا جھنڈا ہے، وہ ہمارا‘‘، تو اس کے الفاظ یہ سمجھانے کے لیے کافی تھے کہ آج کشمیر کے حالات کتنے بدل چکے ہیں ۔

عارف ڈل جھیل کے ٹھیک سامنے مشرقی جانب پہاڑ پر موجود ہندوستان اور پاکستان کے جس جھنڈے کی طرف اشارہ کر رہا تھا، اس کے بالکل درمیان سے ایک سڑک اوپر کو جاتی ہے، جس کا نام ہے ’گوپکر روڈ‘۔ یہیں پر فاروق عبداللہ اور ان کے صاحبزادے عمر عبداللہ کی رہائش گاہ ہے۔ گھنے جنگلات سے گھرے پہاڑ کے اوپر ڈل جھیل سے مجھے کوئی جھنڈا تو نظر نہیں آیا، کیوں کہ وہاں سے دوری کافی تھی، ہاں اس وقت اگر میرے پاس دوربین ہوتی تو شاید میں اس جھنڈے کو دیکھ پاتا۔ لیکن، میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وی آئی پی ایریا کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کے لحاظ سے نہایت حساس علاقہ ہونے کی وجہ سے ڈل جھیل کے آس پاس چوبیسوں گھنٹے ہزاروں کی تعداد میں جموں و کشمیر پولیس اور فوج کے جوان تعینات رہتے ہیں ۔

پھر اگر عارف کی اس بات میں سچائی تھی کہ وہاں گوپکر روڈ کے دائیں جانب ’پاکستان کا جھنڈا‘ لہرا رہا ہے، تو یہ نہ صرف میرے لیے حیرانی کی بات تھی، بلکہ دہلی میں رہتے ہوئے میں اب تک کشمیر کے موجودہ حالات کے بارے میں جو رپورٹیں پڑھ رہا تھا ان کی تصدیق بھی ہو رہی تھی۔ میں بات کر رہا ہوں 16 جون، 2017 بروز جمعہ کی۔ اس دن مقدس ماہِ رمضان کا 21واں روزہ تھا۔ ویسے تو میں نے کشمیر جانے کے لیے پہلے سے ہی ٹرین کا ٹکٹ بک کروا رکھا تھا، لیکن درمیان میں جب پتہ چلا کہ پچھلے سال کی ہی طرح اس سال بھی حالات خراب ہونے کی وجہ سے ملک و بیرونِ ملک کے سیاح وادیٔ کشمیر کا رخ نہیں کر رہے ہیں اور فضائی کمپنیوں نے ہوائی جہاز کا ٹکٹ کافی سستا کر دیا ہے، تو میں نے بھی ٹرین کو چھوڑ کر ہوائی جہاز سے سفر کرنے کا ارادہ کیا۔

خوش قسمتی سے دہلی سے سرینگر تک کا صرف دو ہزار روپے میں مجھے ’ایئر ایشیا‘ کا ٹکٹ مل گیا، حالانکہ عام طور سے مئی – جون کے مہینے میں دہلی سے سرینگر تک کا ہوائی ٹکٹ 10-30 ہزار روپے تک کا پڑتا ہے۔ بہرحال، صبح 6:15 بجے میں دہلی کے اندراگاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ٹرمینل 3 سے روانہ ہوا اور سوا گھنٹے بعد، یعنی 7:30 بجے میں سرینگر ایئرپورٹ پر موجود تھا۔ وہاں سے مجھے اننت ناگ (مقامی لوگ اسے ’اسلام آباد‘ کے نام سے پکارتے ہیں ) جانا تھا۔

جمعہ کا دن ہونے کی وجہ سے اس بات کا خطرہ تھا کہ کہیں پتھر بازی نہ شروع ہوجائے اور پھر سڑکیں وغیرہ بند ہوجائیں تو میرے لیے سرینگر سے باہر نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن، ایک دن پہلے دہلی کے اخباروں سے پتہ چلا تھا کہ جمعہ کو کوئی ہڑتال نہیں ہے، بلکہ جی ایس ٹی کی مخالفت میں کشمیر کے تاجروں نے اس کے اگلے دن، یعنی 17 جون بروز ہفتہ کو ہڑتال بلائی ہے۔ پھر بھی، ٹیکسی ڈرائیور رُخسار نے مجھے آگاہ کیا کہ یہاں حالات کب خراب ہوجائیں ، کسی کو پتہ نہیں چلتا اس لیے بہتر ہوگا کہ ہم سرینگر سے جلد از جلد نکل جائیں ۔ لیکن، میں نے اس سے ضد کرتے ہوئے کہا کہ ہم 2-3 گھنٹے ڈل جھیل اور اس کے اطراف میں ضرور گزاریں گے۔

مجھے معلوم تھا کہ پتھر بازی عام طور سے جمعہ کی نماز کے بعد ہی شروع ہوتی ہے۔ سرینگر ایئرپورٹ سے باہر نکل کر ڈل جھیل کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ہر جگہ جموں و کشمیر پولیس اور فوج کے جوان بھاری تعداد میں دکھائی دیے، جو اِس بات کی تیاری کر رہے تھے کہ انھیں کس جگہ ڈیوٹی دینی ہے۔ ان کے سازو سامان اور لباس و ہتھیار کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا گویا کہیں کرفیو لگنے والا ہے۔ لیکن، میں جیسے ہی ڈل گیٹ کے علاقے میں شامل ہوا، وہاں کی ویرانی دیکھ کر حیران رہ گیا۔

گزشتہ تقریباً 20 برسوں سے میرا کشمیر میں آنا جانا رہا ہے۔ ڈل جھیل کے علاقے میں ایسی ویرانی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ صبح کا وقت ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ دکانوں سے دودھ، بریڈ وغیرہ خرید رہے تھے۔ باقی دکانوں کو 10 بجے تک کھل جانا چاہیے تھا، لیکن تب تک بہت کم دکانیں ہی کھلی تھیں ۔ ڈل جھیل میں ہاؤس بوٹ خالی پڑے ہوئے تھے، شکارہ کی سیر کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ مغلوں کے ذریعے بنائے گئے نشاط اور شالیمار باغ، چشمہ شاہی اور پری محل وغیرہ میں چاروں طرف سناٹا پسرا ہوا تھا۔ حالات کو قریب سے جاننے کے لیے میں نے وہیں 2-3 گھنٹے گزارنے کا فیصلہ کیا اور ڈل جھیل کے کنارے اُس جگہ آکر رکا، جہاں تقریباً 10 شکارے لگے ہوئے تھے۔ وہاں میری ملاقات عبدالماجد سے ہوئی، جو 1982 سے ڈل جھیل میں شکارہ چلا رہے ہیں ۔ یہ سبھی 10 شکارے انھیں کی نگرانی میں چلتے ہیں ، ان کا اصلی مالک کوئی اور ہے جس کے پاس حکومت سے حاصل کردہ لائسنس ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ ایک شکارہ کی قیمت اس وقت تقریباً 2 لاکھ روپے ہے اور اس کی مرمت پر سال میں ایک بار تقریباً 45 ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں ۔

عبدالماجد سے میرا پہلا سوال یہی تھا کہ ’’اس ویرانی کا ذمہ دار کون ہے؟‘‘ چھوٹتے ہی انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ٹی وی چینل ذمہ دار ہیں ، جو کشمیر کے بارے میں غلط خبریں دکھارہے ہیں اور سیاحوں کو یہاں آنے سے روک رہے ہیں ۔ یہ بات بہت حد تک صحیح ہے، لیکن اس کے لیے اور بھی کئی عناصر ذمہ دار ہیں ، جس کا ذکر آئندہ قسطوں میں آئے گا۔ خیر، عبدالماجد سے مول تول کرنے کے بعد میں نے ڈل جھیل میں ایک گھنٹہ سیر کرنے کے لیے 300 روپے کرایے پر ایک شکارہ لیا۔ شکارہ کو چلانے کے لیے انہوں نے ہمارے ساتھ 18 سالہ عارف کو بھیجا، وہی نوجوان جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے۔ غصے سے بھرا ہوا عارف، ایک کشمیری نوجوان جب مجھے پہاڑ کے اوپر اشارہ کرکے یہ کہتا ہے کہ ’’یہ تمہارا جھنڈا ہے، وہ ہمارا‘‘ تو ظاہر ہے مجھے بھی اس پر اتنا ہی غصہ آتا ہے، جتنا کسی غیر مسلم کے ذریعہ مجھے ’پاکستانی‘ کہے جانے پر۔

یہ بات سچ ہے کہ میں مسلمان ہوں ، لیکن بہار میں پیدا ہوا، اترپردیش میں تعلیم حاصل کی اور جے این یو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دہلی میں گزشتہ تقریباً 20 برسوں سے صحافت سے جڑا ہوا ہوں ۔ پہلے نہ تو بہار میں کبھی کسی نے مجھے ’پاکستانی‘ کہا اور نہ ہی اترپردیش میں ، اور کہتا بھی کیوں جب میرا ’پاکستان‘ سے دور دور تک کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔ لیکن، میرے خیال سے ان 20 برسوں میں ٹی وی چینلوں اور ’فرضی دیش بھکتوں ‘ نے جس طرح لوگوں کا ذہن خراب کیا ہے، اسی کی وجہ سے آج ہندوستان کے ہر مسلمان کو ’پاکستانی‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس پر دوہری مار یہ کہ جب آپ کشمیر جاتے ہیں ، تو وہاں کے لوگ آپ کو ’ہندوستانی‘ کہہ کر پکارتے ہیں ۔

ٹی وی چینل والے تو اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ ’’کشمیری ہمارا نمک کھاتے ہیں اور پاکستان کے گُن گاتے ہیں ، اِن نمک حراموں کو سبق سکھانا چاہیے‘‘۔ اس ذہنیت نے مسئلہ کشمیر کو مزید اُلجھا دیا ہے۔ بہرحال، میں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے اگلے ایک گھنٹہ کے دوران شکارہ سے ڈل جھیل کی سیر کرانے والے عارف کے غصے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے ہم دونوں کا مذہب ایک ہی تھا، اور شاید اسی لیے وہ مجھ سے اپنی ساری باتیں شیئر کر سکا، جو وہ کسی غیر مسلم سے نہیں کر پاتا۔ میں نے عارف سے سیدھا سوال کیا، تمہارے اندر ہندوستان کے خلاف اتنا غصہ کیوں ہے؟ ’’فوج نے ہم پر بہت ظلم کیا ہے،‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’تم پر کیا ظلم ہوا ہے؟‘

جب میں نے اس سے یہ پوچھا تو وہ تھوڑا جذباتی ہو گیا اور بتایا کہ 2014 میں ایک حادثہ میں اس کے بڑے بھائی کی موت ہو گئی تھی۔ گھر میں ماں باپ کے علاوہ دو بہنیں ہیں اور بڑا بھائی ہی گھر کا سارا خرچ چلاتا تھا۔ مجھے لگا، شاید کسی فوجی کارروائی میں اس کے بڑے بھائی کی موت ہوگئی ہو، لیکن اس نے بتایا کہ فوجی کارروائی میں نہیں ، بلکہ ایک سڑک حادثہ میں اس کی موت ہوئی تھی۔ بھائی کی موت کا اسے کافی صدمہ تھا۔ عارف ناخواندہ ہے اور ڈل جھیل میں شکارہ چلا کر پانچ ہزار روپے جو اسے ماہانہ تنخواہ کے طور پر ملتے ہیں ، اسی سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچ چلاتا ہے۔ وہ یہ کام گزشتہ 7-8 برسوں سے کر رہا ہے۔

اس نے بتایا کہ پچھلے دو سال سے ڈل جھیل میں روزانہ صرف 5-8 سیاح ہی شکارہ کی سیر کے لیے آتے ہیں ، جس سے شکارہ مالکوں کا کاروبار پوری طرح ٹھپ ہو چکا ہے۔ ڈل جھیل کی سیر کرنے کے دوران ہی جب دوسرے شکارے سے کچھ دکاندار ہمارے پاس آئے اور میرے ذریعے سوال پوچھے جانے پر کہا کہ ’’ہم جو بتائیں گے، وہ تم لکھ نہیں پاؤگے‘‘۔ اس کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ آئندہ قسط میں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(مضمون میں بیان کردہ حقائق مصنف کی ذاتی رائے ہے)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply