ہر بیٹی قوم کی بیٹی ہے۔۔فاخرہ گُل

کل عمران خان نے مریم نواز کیلئے جو بھی کہا وہ قابلِ مذمت بھی ہے اور قابلِ افسوس بھی ۔۔ اور یہ سب کچھ اتنا نیا بھی نہیں کیونکہ بات تو تلخ ہے لیکن ہمارے مُلک کے عام گلی محلوں میں بھی ذرا سی تکرار کے بعد سامنے والے کی ماں بہن کو غلط القابات دینا معمول کی بات ہے لیکن یہاں بات اس لئیے بھی زیادہ قابلِ مذمت ہے کہ عمران خان عوام کے منتخب نمائندے اور ایک بڑی جماعت کے لیڈر ہیں
اور مزید قابلِ مذمت بات یہ کہ اُنکے سپورٹرز اس عمل کی مذمت کے بجائے کئی برس پرانی باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے فخر سے اُنہیں اور خود کو درست ثابت کر رہے ہیں حالانکہ یہ جانبداری درست نہیں کہ صرف دوسری جماعتوں میں ہی کیڑے تلاش کئے جائیں اور اُنکی ہی برائیاں اور کمزوریاں اچھالی جائیں

جو کچھ مسلم لیگ نواز نے ماضی میں کیا ، عمران خان نے اپنے جلسوں ، مولوی حمد الّلہ نے ٹاک شو ، فواد چوہدری اور شہباز گِل نے ٹوئٹر پر ، شیخ رشید نے اسمبلی میں ، جاوید لطیف نے مراد سعید سے ، رانا ثناءالّلہ نے پریس کانفرنس میں ، خواجہ آصف نے اسمبلی میں ، علی امین گنڈا پور نے الیکشن مہم میں یا دیگر کسی نے بھی جو کچھ بھی غلط کہا اُسے ہر غیرت مند شخص بغیر کسی اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے غلط ہی کہے گا اور کہنا بھی چاہئیے۔

ہم میں سے کون نہیں جانتا ہو گا کہ جانوروں میں سے کُتا ایک ایسا جانور ہے جو اپنے مالک کی وفاداری میں اس حد تک آگے نکل جاتا ہے کہ پھر وہ گلی سے گزرنے والے ہر شخص پر بھونکتا ہے یہ سوچے سمجھے اور اس بات کی تمیز کئے بغیر کہ ان میں سے کون راہگیر ہے اور کون چور لُٹیرا۔
لیکن الحمد اللہ ہم انسان اور اشرف المخلوقات ہیں اور ہمیں کسی طور جانوروں کی خصلتیں اپنانا زیب نہیں دیتا۔

آپ کسی بھی جماعت کو سپورٹ کریں یہ آپکا حق ہے لیکن خدارا کسی کی بھی ناحق وفاداری میں اس حد تک آگے نہ نکل جائیں کہ پھر آپکو انکا کیا گیا ہر غلط عمل بھی درست معلوم ہو۔

سوشل میڈیا کا بدمست ہاتھی کل رات سے گالیوں ، لعنتوں ، بدلحاظی ، گھٹیا زبان اور صرف مخالف کو ہی غلط ثابت کرنے کی دُھن میں جس طرح ہر اخلاقی حد کو روندتا ہوا اس کیچڑ میں آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے ، وہ افسوسناک تو ہے لیکن اکثر لوگ جس جوش و خروش سے اس کیچڑ میں خود کو زیادہ سے لت پت کرنے کی دھُن میں ہیں ، وہ اس سے زیادہ افسوسناک ہے کہ یہ سب اُن رہنماؤں کے عشق میں کر رہے ہیں جن کو اُنکے نام تک نہیں معلوم۔

اوروں کو چھوڑئیے لیکن آپ خود فردِ واحد کے طور پر تو اس جوش میں ذرا سانس لیجئیے ، رُک کر سوچئیے تو سہی کہ کیا یہی ہماری اقدار ہیں؟ ہمارے معاشرے میں تو بچپن ہی سے بڑوں کا ادب کرنا سکھایا جاتا ہے پھر یہ سب کرنے والے لوگ کون ہیں ؟ کن گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ؟ اپنی بری حرکتوں سے اپنے والدین کی تربیت اور خاندان پر انگلیاں اٹھانے کا موقع  کیوں دیتے ہیں؟
اُنکے نزدیک صرف اُنکے گھر اور اُنکی ہی سیاسی جماعت کی خواتین قابلِ عزت کیوں ہیں؟
اور اگرکبھی کوئی ان کے لیڈران کی بیویوں یا بیٹیوں کے بارے میں بات کرے تو ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑ ڈالتے ہیں۔تب یاد دلایا جاتا ہے کہ کیا تمہاری ماں بہن نہیں جو تم ان کے لئے غلط زبان استعمال کررہے ہو؟
یعنی اب اصول یہ اپنایا جا رہا ہے کہ ہم خود تو دوسروں کیلئے جتنا ہو سکے گھٹیا باتیں کر لیں لیکن اگر ہماری بہن بیٹی کیلئے کوئی غلط زبان استعمال کرتے تو سامنے والا نہایت احترام سے ہاتھ باندھ کر کہے
“قبلہ یہ جو ناشائستہ زبان آپ نے میری بہن /بیٹی کے متعلق استعمال کی ہے تو میں آپ سے یہ کہنے کی اجازت لینا چاہتا/چاہتی ہوں کہ میری بہن ایسی ہر گز نہیں ہیں آپ کو کوئی شدید غلط فہمی ہوئی ہے اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ جناب آئندہ اس طرح چوک چوراہے میں میری بہن / بیٹی کا نام اچھالنے سے گریز برتئیے گا کیونکہ اس سے میرے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔”
کیا بہنیں اور بیٹیاں اتنی ہی ارزاں ہوتی ہیں کہ مخالف کےجذبات بھڑکانے کیلئے اُسے اُسکی ماں بہن یاد دلائی جائے؟

ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے عہدیداران اور وہ کارکنان جو ان خواتین کی تصاویر کو گھٹیا طریقے سے فوٹو شاپ کر کے پھیلاتے ہیں یا انکی من گھڑت اور اخلاق سے گری وڈیوز خود تخلیق کر کے عوام میں عام کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ان کے اپنے گھر میں بھی بہن یا بیٹی تو ہو گی۔کبھی فوٹو شاپ کر کے نیم برہنہ جسم پر اپنی بہن اور بیٹی کی بھی تصویر لگا کر دیکھیں اور بتائیں کہ انہیں کیسا محسوس ہوتا ہے؟ اور پھر سوچیں اگر وہی تصویر سوشل میڈیا کے ہتھے اُسی طرح لگ جائے جس طرح وہ دوسروں کی بہن بیٹیوں کی تصویریں جذبات کو بھڑکانے والے انداز سے پھیلاتے ہیں توُ انہیں کیسا لگے گا؟
اور مزید پھر اُن پر اُسی انداز میں اور اس سے بڑھ کر کمنٹس پاس کئے جائیں تو اُنکا ردِّ عمل کیا ہو گا ؟؟

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذا درخواست ہے کہ سیاست ضرور کیجئیے لیکن بہنوں بیٹیوں کی لفظی تجارت سے گُریز کیساتھ ، اور لیڈر خواہ نواز شریف ہو یا عمران خان ، جے یو آئی سے ہو یا پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی جماعت سے، آئندہ اُنکی کسی بھی غیر اخلاقی بات اور خصوصاً خواتین سے متعلق اُنکے کسی بھی غلط بیان یا عمل کی حمایت کرنے سے پہلے اپنے گھر کی خواتین کو بھی دھیان میں لائیے تاکہ تحقیر کی جو گرد آپ دوسروں پر اڑا رہے ہیں خود آپ کی آنکھوں میں بھی پڑے اور اگر ایسا کرنے کی جرات نہ ہو تو دوسرے گھروں کی عزت پر بھی سوشل میڈیا کے چوراہے پر آوازیں نہ کسیں کیونکہ ہر بیٹی قوم کی بیٹی ہےاور یہی احساس خوبصورت بھی ہے اور حقیقت  بھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply