بینکس اور اے ٹی ایم بھی ناقابلِ رسائی/ثاقب لقمان قریشی

پاکستان میں رہنے والا ہر شخص اس ملک کا باعزت شہری ہے۔ جب تک ملک میں رہنے والے ہر شخص کو رنگ، مذہب، قومیت، علاقائیت، جنس اور معذوری سے بالاتر ہوکر یکساں انصاف اور آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ملیں گے اس وقت تک وہ ملک کی ترقی میں اپنا موثر کردار ادا نہیں کر سکے گا۔ اسی مقصد کے حصول کیلئے میں نے قلم اٹھایا ہے اور ہر طبقے کی آواز بننے کی کوشش کی ہے۔

معذور افراد ملک کی آبادی کا بیس فیصد حصہ ہیں۔ تعلیم، صحت اور روزگار کی نامناسب سہولیات کی وجہ سے معذور افراد ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے ملکی معیشت پر بوجھ بن گئے ہیں۔ بوجھ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ ملکی معیشت پر دس سے پندرہ ارب ڈالر کا اضافی بوجھ۔ جس گھر میں کوئی معذور شخص موجود ہے اسکے اخراجات عام گھرانوں سے زیادہ ہیں۔ نامناسب سہولیات کی وجہ سے گھر کے ایک یا دو افراد کو اسکی دیکھ بھال سے جڑنا پڑتا ہے۔ دیکھ بھال کرنے والے والدین کی وفات ہوجائے یا ایسے بھائی، بہن کی شادی ہو جائے تو معذور رل کے رہ جاتا ہے اور سسک سسک کر مرجاتا ہے۔

تعلیم، صحت اور روزگار ہی وہ بنیادی سہولیات ہیں جن کی فراہمی سے معذور افراد کے مسائل کو کم کیا جاسکتا ہے اور انکے ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

برطانیہ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد سے معذور افراد نے اپنے حقوق کیلئے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جبکہ امریکہ میں ساٹھ کی دہائی سے معذور افراد کے حقوق کی تحریک کا آغاز ہوا۔ مغربی ممالک جنھیں انسانی حقوق کا چیمپئن تصور کیا جاتا ہے وہاں انسانیت پر سب سے زیادہ مظالم ڈھائے گئے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی ممالک میں مظلوم طبقات نے بھر پور احتجاج کیئے جن کے نتیجے میں حکومتیں ان کے حقوق تسلیم کرنے پر مجبور ہوئیں۔

پاکستان میں معذور افراد کی دیسی این-جی-اوز اور انٹرنیشنل این-جی-اوز کا گٹھ جوڑ بڑی خوبصورتی سے کام کر رہا ہے۔ ہر چند ہفتوں میں پورے ملک سے پانچ چھ مند پسند این-جی-اوز کو اسلام آباد میں بلایا جاتا ہے۔ فائیوسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ میٹنگز ہوتی ہیں سیمینار ہوتے ہیں۔ فنڈز دیئے جاتے ہیں۔ نتیجہ ڈھاک کے تین پات۔ مزے کی بات یہ ہے معذور افراد کے لیڈر کہلانے والے لوگوں کے نام سے بھی معذور افراد واقف نہیں۔

چند روز قبل مجھے لاہور سے عائشہ گلریز کی کال آئی۔ عائشہ نے ایم-فل تک تعلیم حاصل کی۔ سپیشل ایجوکیشن میں سولہویں سکیل کی ٹیچر ہیں۔ سائن لینگویج اور بریل پر عبور رکھتی ہیں۔ عائشہ معذور افراد کے انٹرویوز بھی کرتی ہیں اسکے علاوہ معذور افراد کے حقوق کے حوالے سے سوشل میڈیا پیجز بھی چلا رہی ہیں۔

عائشہ کی اپنی کہانی بھی بہت زبردست ہے۔ ریڑھ کی ہڈی میں پیدائشی گیپ تھا۔ اس مرض کو سپائن بیفڈا کہا جاتا ہے۔ علاج تو بہت ہوا لیکن خاص افاقہ نہ ہوسکا۔ والد صاحب سکیورٹی ادارے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ پھر انھیں اٹک ریفائنری میں ملازمت مل گئی۔ عائشہ نے ابتدائی تعلیم اٹک ریفائنری کے سکول سے حاصل کی۔ راولپنڈی کے ماڈرن پبلک سکول سے میٹرک کیا۔ سی-بی کالج راولپنڈی سے ایف-ایس-سی کی۔ گورنمنٹ کالج فار وومن سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی سے کالج کی تعلیم حاصل کی۔ پھر لاہور کی یونیورسٹی سے ڈگری کی۔

عائشہ کو پورے تعلیمی سفر میں کہیں بھی ریمپ اور قابل رسائی باتھ روم نہیں ملے۔ والد صاحب عائشہ کو پڑھانا چاہتے تھے۔ اس لیئے پہلے تو تعلیمی اداروں سے درخواست کرتے۔ وہ نہیں مانتے تو اپنے پیسوں سے ریمپ بنوا دیتے۔ اس طرح والد صاحب نے عائشہ کے تعلیمی سفر میں خلل نہ آنے دیا۔

عائشہ دس سال سے زائد عرصے سے سپیشل ایجوکیشن میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ چند روز قبل عائشہ نے اس بنک کی تصویر شیئر کی جہاں سے وہ اپنی تنخواہ نکلواتی ہیں۔ بنک میں ریمپ نام کی چیز نہیں۔ عائشہ کہتی ہیں کہ میں متعدد بار شکایت درج کروا چکی ہوں لیکن شنوائی نہیں ہوئی۔ میں نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ بنک کی کسٹمر کیئر میں شکایت درج کروائیں اور انھیں لکھ دیں کہ مسئلہ حل نہ ہوا تو میں اسکی کاپی سٹیٹ بنک بھیج دونگی۔

مجھے بھی انہی مسائل کا سامنا ہے میں شائد پوری زندگی میں دس مرتبہ بھی بنک نہیں گیا ہونگا۔ میں نے ابھی تک اے-ٹی-ایم کارڈ نہیں بنوایا اسکی وجہ یہ ہے کہ اے-ٹی-ایم پر ریمپ نہیں ہوتی اس لیئے کارڈ بنوانے کا فائدہ نہیں۔

یہ معاملہ معمولی نوعیت کا نہیں ہے۔ بینکس اور اے-ٹی-ایم پر ریمپس نہ ہونے کی وجہ سے معذور افراد کو معاشی سرگرمیوں سے دور کر دیا گیا ہے۔ جسکی وجہ سے معذور افراد ملک کی معیشت میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے۔

میں معذور افراد کے حقوق کیلئے بنے سوشل میڈیا کے بڑے بڑے گروپس کا اعزازی ایڈمن بھی ہوں۔ میری پڑھے لکھے معذور افراد سے یہ گزارش رہتی ہے کہ آن لائن کاموں پر توجہ دینے کی کوشش کریں۔ اسکے علاوہ میں کم پڑھے لکھے معذور افراد سے کہتا ہوں کہ کوئی ہنر سیکھنے کی کوشش کریں۔ گھر کی دہلیز پر چپس، پکوڑے، چاٹ یا پھر جوتے سینا ہی شروع کریں۔ پانچ سو، ہزار کی دیہاڑی لگا کر گھر جائیں پھر دیکھیں گھر والے آپ کو کس طرح سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں سمجھتا ہوں کہ سٹیٹ بنک کو ملک کے تمام بنکس اور اے-ٹی-ایم  کو قابل رسائی کرنے کی ہدایت جاری کرنی چاہیئے۔ اسکے علاوہ حکومت کو معذور افراد کیلئے بلا سود قرضے اور بلا معاوضہ ہنر سکھانے کے پروگرام شروع کرنے چاہئیں۔ تاکہ معذور افراد بھی ملک کے اکنامک سائیکل کا حصہ بن کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply