• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن “سوانحِ سر سید- ایک بازدید” پر ایک نظر۔۔۔حافظ صفوان محمد

تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن “سوانحِ سر سید- ایک بازدید” پر ایک نظر۔۔۔حافظ صفوان محمد

سر سید احمد خاں اپنی Deliverance کی گوناگونی کی وجہ سے نہ صرف نوآبادیاتی دور میں “ہندو مسلمانوں” کی مرکزی قومی شخصیت تھے بلکہ مابعد نوآبادیاتی دور میں بھی قومی و ملّی ترقی کی پیمائش کا اہم ترین اشاریہ ہیں اور وہ شخص ہیں جنھوں نے ہماری تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ مصنفین سر سید کو کتابیں لکھ کر یاد کرتے ہیں اور یہ سلسلہ 1885ء میں شائع ہونے والی کرنل گراہم اور 1901ء میں حالی کی کتابوں سے چلتا چلتا آج تک کبھی رکا نہیں۔ 2017ء میں سر سید کے دو سو سالہ یومِ پیدائش کی یاد کے حوالے سے کئی کتابیں دوبارہ شائع ہو رہی ہیں جن میں سے ایک پروفیسر شافع قدوائی کی “سوانحِ سر سید- ایک بازدید” ہے جو 2018ء میں مجلسِ ترقیِ ادب کی مہربانی سے پاکستان میں سامنے آئی۔

پروفیسر شافع قدوائی کا قدیمی تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغیات سے ہے اور وہ اُن لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے آج کے زندہ محاورے اور مسائل میں سر سید کی Relevance کو موضوع بنایا۔ اُن کی کتاب Forging Bond with Modernism: An Assessment of Sir Syed’s Periodicals جرمنی سے شائع ہوئی اور اس کا ہندوستانی ایڈیشن Cementing Ethics with Modernism: An Appraisal of Sir Syed Ahmad Khan’s Writings کے نام سے شائع ہوا۔ ان دونوں کتابوں کی اشاعت کو ایک عشرہ بیت چکا ہے۔ یہ کتابیں دراصل سر سید کے صحافیانہ کیریر اور “علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ” اور “تہذیب الاخلاق” کی کارگزاری کا ایک جائزہ ہیں جنھوں انیسویں صدی کے ہندوستان میں متوسط طبقے پر جدیدیت کے گہرے اثرات مرتسم کیے۔ واضح رہے کہ ہفتہ وار کثیر زبانی اخبار “علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ” کا نام “اخبارِ سائنٹفک سوسائٹی” بھی لکھا جاتا ہے اور “تہذیب الاخلاق” کا انگریزی نام “محمڈن سوشل رفارمر” ہے۔ یہ دونوں نظریاتی اخبار تھے جن میں کے زیادہ تر مضامین خود سرسید کے تحریر کردہ ہوتے تھے اور اِن کتابوں میں اِسی حوالے سے سر سید کے ذہن کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ (کتابیں سامنے نہیں ہیں اِس لیے صرف اِن معلومات کی تکرار پر اکتفا ہے۔)

“سوانحِ سر سید- ایک بازدید” میں پروفیسر شافع قدوائی کی متذکرۂ بالا کتابوں میں سے وہ حصہ شامل ہے جو سر سید کے سوانح سے متعلق ہے۔ یہ باریک بینی سے کیا گیا وہ مطالعہ ہے جو گزشتہ سوا سو سال میں سر سید پر لکھی گئی کتابوں میں اُن تسامحات کی نشان دِہی کرتا ہے جو اُن کی سوانحی معلومات میں در آئی ہیں اور مسلّمہ صداقت کے طور پر تسلیم کرلی گئی ہیں۔

اِس کتاب کے ہمدست ہونے سے پہلے بھی راقم اِس نتیجے پہ پہنچ چکا تھا کہ سر سید کی سوانحی معلومات کی پراگندگی کی وجہ کاتبوں کی کارستانیاں نہیں بلکہ مصنفین کی لاعلمیاں، کم کوشیاں اور کتمانِ شہادت، وغیرہ وغیرہ، ہیں۔ پروفیسر قدوائی نے جہاں سر سید کے دیگر سوانح نگاروں کی مجبوریوں کا لحاظ کیا ہے وہاں حالی کو بھی یہ لائسنس دیا ہے کہ “سوانحِ سر سید کے ضمن میں حالی نے تحقیقی معروضیت کا لحاظ نہیں رکھا”، اور یہ بات بالکل درست ہے۔ واضح بات ہے کہ حالی سر سید کی بطور ایک قومی کردار کے تعمیر یا تصویر کشی (Image Building) کر رہے تھے نہ کہ انھیں بطور باپ بیٹا بھائی یا شوہر دکھانا اُن کا مقصد تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے صاحبِ سوانح کے قومی، ملّی، سیاسی اور تعلیمی نیز مذہبی جہات ہی سے علاقہ رکھا، اور سوانحی معلومات صرف اُسی قدر دیں جو اُنھیں فراہم کی گئی تھیں۔ یہ بات تعریف کے لائق ہے کہ قریب قریب ایک ہزار صفحے کی کتاب میں حالی اپنے مقصد سے ایک انچ اِدھر اُدھر نہیں ہوئے۔ برائے گفتگو صرف ایک مثال پیش ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق حالی کی مرتّبہ “حیاتِ جاوید” کا تقریبًا اسّی فیصد حصہ کسی نہ کسی طور مذہبیات مرکز (Religion-centric) ہے، جو سب کا سب سیاسی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی وقعت اور حیثیت کی بحالی/ واگزاری سر سید کا اہم ترین کام ہے جس پر بوجوہ ایک دبیز دھند مستولی ہے۔ سر سید کی ایک آواز پر ہندوستان کے لکھوکہا مسلمانوں نے انڈین نیشنل کانگرس میں عدم شرکت کے کاغذوں پر آنکھیں بند کرکے دستخط کر دیے تھے۔ میں اِس واقعے کو سر سید کی سیاسی و صحافیانہ کارفرمائی کا اہم ترین حاصل سمجھتا ہوں جس کے کارن برِ عظیم کے مسلمان آج اپنی شناخت کے ساتھ زندہ ہیں۔

پروفیسر قدوائی کہتے ہیں کہ بیشتر ماہرینِ سر سید نے “حیاتِ جاوید” کو کبھی تحقیقی Cross Reference کا معروض نہیں بنایا، لہٰذا حالی کے اندراجات، بطورِ خاص سر سید کی سوانح سے متعلق اُن کے بیانات، مسلّمہ صداقت کے طور پر معروف ہوگئے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے، اور ہمارے مصنفین اور محققین کی نالائقی اور کم کوشی پر سنگین ترین تبصرہ ہے۔ حالی اپنی کتاب سمیت وہ کسوٹی ہیں جن پر اِن کے کاموں کو جانچا جاسکتا ہے۔ جب خود سر سید اپنی لکھی “سیرتِ فریدیہ” (1896ء) میں بعضی سوانحی معلومات کی فراہمی میں گڑبڑا گئے ہیں اور جن کو یہ کہہ کر لائسنس دیا جانا ضروری ہوا کہ “سیرتِ فریدیہ سر سید نے 80 برس کی عمر میں لکھی تھی لہٰذا نصف صدی قبل کے کسی واقعے کے اندراج میں غلطی کا احتمال رہتا ہے” تو یہ لائسنس باقی سوانح نگاروں اور سر سید شناسوں کو بھی ملنا چاہیے۔ واضح بات ہے کہ سر سید جب آخرِ عمر میں خود بھی کبھی کبھی نسیان و تسامح کا شکار ہوجاتے تھے، جس کا ذکر حالی نے اپنی کتاب میں کیا ہے، تو اُن کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر لکھی حالی کی کتاب میں اِس قسم کی معلوماتی کمیاں در آنا لازم تھا۔ کتاب لکھنے کے لیے حالی کو دیا جانے والا سارا تحقیقی لوازمہ سر سید اور اُن کے علی گڑھ کے مخلص احباب ہی کا بلاواسطہ فراہم کردہ تھا، اور اِس کتاب کا بہت سا حصہ زیادہ تر لکھا بھی علی گڑھ ہی میں بیٹھ کر گیا تھا۔ نیز جب سر سید اپنے حینِ حیات لکھی گئی تحریروں میں در آنے والے سوانحی تسامحات کا محاکمہ خود بھی نہیں کر رہے، جن کا ذکر پروفیسر قدوائی نے کیا ہے، تو حالی یا کوئی اور شخص اُنہی معلومات کو درست نہ جانتا اور کیا کرتا؟ القصہ اب جب کہ بہت وقت گزر چکا اور معلومات کے کئی کئی مواجہ مہیا ہیں، تو سر سید کی سوانحی معلومات کی درستی کا یہ کام بہتر طور پر ہوسکتا ہے۔

سوانحی معلومات کے یہی وہ علاقے ہیں جن میں گزشتہ سوا سو سال میں راہ پاگئی اغلاط کی درستی کی شاندار کوشش پروفیسر قدوائی نے “سوانحِ سر سید- ایک بازدید” میں کی ہے اور سر سید کے سوانحی ریکارڈ کو جہاں تک ممکن ہوا درست کر دیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہر درستی باحوالۂ ثبوت ہے۔ امید ہے کہ اب کے بعد ہونے والے مطالعاتِ سر سید میں اِن ضروری معلومات سے صرفِ نظر نہیں ہوگا۔ اِس خدمت کے لیے ساری علمی دنیا ہمیشہ کے لیے پروفیسر قدوائی کی شکر گزار رہے گی۔ اُن کی یہ کتاب سر سید کی ہر سوانح کے ساتھ بطور ضمیمہ شامل ہوگئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں عرض ہے کہ “سوانحِ سر سید- ایک بازدید” میں پروف کی بعض غلطیاں ہیں جن کو درست کرنا ضروری ہے۔ مثلًا ص 131 پر منشی سراج الدین کے مسودے کی تکمیل کا سال 1883ء لکھا ہے، جسے 1893ء ہونا چاہیے۔ وغیرہ۔

Facebook Comments