1951ءمیں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو آبادی سے 209167 زیادہ تھی۔ جوکہ 43 فیصد زیادہ بنتی ہے ۔
1961ءمیں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو آبادی سے214217 زیادہ تھی۔ یہ 49 فیصد زیادہ ہے ۔۔
1972ءمیں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو سے 306532 زیادہ تھی۔ یہ بھی 49 فیصد زیادہ بنتی ہے ۔
1981ءکی افراد شماری میں شیڈول کاسٹ کا خانہ ہی نہیں تھا،اور پھر 1998 میں ہندو آبادی شیڈول کاسٹ سے 1826059زیادہ ہو گئی۔ پھر 2017ءمیں ہندوں کی آبادی 3595256ہو گئی۔ یہ شیڈول کاسٹ آبادی سے 2745642 زیادہ تھی ۔اب 2023کی آبادی کے اعداد و شمار پبلک ہوئے ہیں, تو پتہ چلا ہندو آبادی اب 3849487 ہے اور شیڈول کاسٹ آبادی 1349487 ہے۔ اب بھی شیڈول کاسٹ آبادی ہند و آبادی سے 2518242 کم ہے ۔۔۔ اس طرح پہلی تین مردم شماریوں میں شیڈول کاسٹ آبادی ہندو آبادی سے اوسطاً 47فصید زیادہ تھی ۔وہ چوتھی مردم شُماری میں 100فیصد ہی ہند وسے کم ہوگئی کیوںکہ شیڈول کاسٹ آبادی کا خانہ مردم شُماری سے نکال دیا گیا۔ جب کہ 1998،2017,2023 والی تین مردم شماریوں میں یہ آبادی اوسطاً 75 فیصد زیادہ ہوگئی ۔ اسی طرح مسیحیوں کی آبادی پہلی پانچ مردم شماریوں میں دو دفعہ مجموعی ہندؤ آبادی سے دو دفعہ اوسطاً 21 ہزار زیادہ اور تین دفعہ 2 لاکھ اوسطاً کم تھی لیکن پھر 2017 کی مردم شُماری میں جب حکومت ن لیگ کی اور وزیر شماریات مسیحی اور چیئر مین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے شماریات ہندؤ تھے تو اچانک مسیحیوں کی آبادی مجموعی ہندو آبادی سے 18 لاکھ کم ہوگئی ۔۔ عام مسیحیوں نے بہت شور مچایا لیکن 2023 کے اعداد و شمار باہر آنے کے بعد پتہ چلا اب بھی تقریباً وہ ہی حال ہے ۔ اب مسیحی آبادی ہندو آبادی سے تقریباً 19 لاکھ کم ہے ۔ مجموعی ہندؤ آبادی 52 لاکھ 17ہزار2سو 16 جبکہ مسیحی آبادی33 لاکھ 7سو 88 ہے۔ یہ بہت ہی حیران کن ہے کہ ایک کمیونٹی میں بہت ہی کمی اور دوسری میں بڑی تیزی سے اضافہ ہے ۔ اس سے بھی حیران کن صورتحال یہ ہے کہ مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ آبادی میں لاکھوں کی کمی کا فائدہ ایک ہی کمیونٹی کو ہی ہوا ہے ۔ جس کی سینکڑوں وجوہات اور عناصر پر بات ہو سکتی ہے ۔لیکن سب سے نمایاں عنصر جو اس اضافے میں فرق ڈال رہا ہے ۔ایک کمیونٹی کی بے تحاشا پیسے کی طاقت ہے ۔جس میں سے بڑی دولت کا منبع سندھ میں 80 کے قریب شراب کی دکانوں کے ذریعے پیدا ہونے والی بے تحاشا دولت ہے ۔ جن میں سے زیادہ تر یا ساری ہی ہند برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ملکیت ہے ۔ اس کمی و اضافے والے کہانی کا ایک اور المناک پہلو ہے ۔ شیڈول کاسٹ اور مسیحیوں میں سیاسی ،سماجی کارکن وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں، لیکن وہ ایسے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دیتے ۔اگر وہ سماجی کارکن ہیں تو وہ این جی اوز بناتے ہیں۔ یا پھر ان میں نوکری کرتے ہیں ۔اگر وہ سیاسی کارکن ہیں تو پھر وہ اسلام آباد ،چاروں صوبائی دارالحکومتوں، میں یا پھر کسی بڑے پارٹی لیڈر کے گھروں کے چکر لگاتے رہتے ہیں ۔تاکہ کسی نہ کسی طرح ترجیحی فہرست میں نام آ جائے یا جس کا نام آیا ہے, میرا اُس کے ساتھ نام آجائے ۔ ان کو اس طرح کی ناانصافیوں پر آواز اٹھانے میں اپنا کوئی فائدہ ہی نظر نہیں آتا ۔۔ہاں مسیحیوں میں مذہبی ورکر بھی بہت ہیں۔جو اکثر اقلیتی انتخابی نظام نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی ورکروں کی غیر موجودگی میں ان کا خلا پورا کرتے نظر آتے ہیں ۔لیکن اس طرح کے اجتماعی مسائل کو فہم و فراست سے اجاگر کرنا ان کی بھی ترجیحات میں نہیں ۔ وہ ایسی تقریبات کو بطور مارکیٹنگ استعمال کرتے ہیں ۔ شیڈول کاسٹ سیاسی ،سماجی ورکروں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں اس طرح کے مسائل کو آجاگر کرنے سے آپکی جمہوری غلامی کے لئے دی ہوئی درخواست کی قبولیتِ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نہ ہی کوئی این جی اوز والا اس وجہ سے نوکری سے نکالتا ہے ۔ نہ ڈونرز برا مناتے ہیں ۔ اٹھو ہمت کرو اپنی اجتماعی شناخت کے لئے آواز بلند کرو ۔۔۔ بہت سادہ سے کاموں سے یہ مسئلہ حل ہوسکتاہے۔ ہے ۔ مثلاً،الیکشن کمیشن کو لکھو یا شعیب سڈل کمیشن کو لکھو کہ جب شماریات میں ہمارا خانہ الگ ہے، تو ووٹرز لسٹ میں کیوں نہیں۔؟ ایسے دیگر چھوٹے چھوٹے کاموں سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ بس ذرا سا خلوص تھوڑی سی ہمت اور اس میں بھی تھوڑی سی فہم و فراست درکار ہے ۔۔ مُجھے شک ہے کہ کچھ شیڈول کاسٹ لیڈر اس پر بھی ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیں گے دیکھوں ہم 13 لاکھ ہو گئے جب کہ ماضی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں،انھیں کم ازکم کم مجموعی ہندوآبادی کا 60 فیصد جو کہ( 5217216) باون لاکھ سترہ ہزار دو سو سولہ ہے ۔ میں سے31 لاکھ 30ہزار بنتی ہے ۔۔اور 2000 کے بعد پرائیویٹ میڈیا کے آنے اور سوشل میڈیا کی آگاہی کی بدولت شناختی کارڈ بنوانے کے رحجانات میں اضافے کی وجہ سے ان کی تعداد کم ازکم مجموعی ہندو آبادی کا 70فیصد جو 52 لاکھ میں سے 36 لاکھ 52 ہزار بنتی ہے۔اور اگر ان کے دعوؤں کو سچ مان لیا جائے تو ان کی آبادی مجموعی ہندو آبادی کا 80فیصد ہونی چاہیے جو کہ 52 لاکھ میں سے 41 لاکھ 73 ہزار بنتی ہے۔۔لیکن کیا کیا جائے سارا گھر لٹا کر اگر مدعی ہی بھاگتے چور کی لنگوٹی پر خوش ہے۔ تو ” مدعی سست گواہ چست” کے مترادف ہمیں بھی خاموش ہی رہنا چاہیے۔ بلاوجہ جے کمار دھیرانی ، ڈاکٹر جے پال چھبریا ،رمیش کمار،راجہ اسر مل،کھیل داس ، لال ملہی اور ایسے دسیوں دیگر جاننے والوں سے تعلقات نہیں بگاڑنے چاہئیے، یہ بیچارے جب خؤد جمہوری غلامی کی آس اور این جی اوز کی نوکریاں بچانے کے لئے بھیم جی امبیدکر جیسے اپنے محسن کے دوہرے ووٹ کو ان کے لئے طاقت اور شناخت کا منبع سمجھنے والے نسخے کی موجودہ معروضی حالات کے مطابق مہم میں دو قدم آگے چار قدم پیچھے والا رویہ رکھتے ہیں، تو یہ اعداد و شمار کی کیا بات کریں گے ۔۔ حالانکہ اس طریقہ انتحاب میں یہ مسلہ خود بخود حل ہو جائے گا ۔۔خیر یہ ایک بے ضرر سا گلا ہے۔۔ جو ان کی مجبوریاں سمجھنے کے بعد مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔لیکن سچ کہہ دینا چاہیے اور مصوم لوگوں وہ چاہے وہ اپنے آپ کو جتنا مرضی چالاک سمجھیں انھیں حقائق سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے یہ ہی تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کا محور و مرکز ہے ۔۔ آخر میں ریاست کے تینوں آئینی ستونوں انتظامیہ،مقننہ ،عدلیہ، کے بالترتیب وزیراعظم گورنمنٹ کالج گریجویٹ ،ایاز صادق ایچسونینین، یوسف رضا گیلانی ،پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل رکھوالوں اور چوتھے روائتی ستون میڈیا کے ذمہ داروں تم جو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ہو ۔۔اگر تم میں سے کسی ایک کو بھی یہ بات سمجھ آ جائے کہ شفافیت شہری اور ریاست کے رشتے کو مضبوط کرتی ہے۔خصوصاً پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے معاملے میں شفافیت پاکستان کی ریاست کو دنیا میں نیک نامی سے نواز سکتی ہے۔۔ لیکِن پتہ نہیں کیوں ریاست اور حکومتیں مسیحیوں اور شیڈول کاسٹ جو مجموعی اقلیتوں کا 80سے 85 فیصد ہیں دھتکار کر صرفِ مجموعی اقلیتی آبادی کے دولتِ مند ہندو جاتی گروہ میں سے صرفِ دو فیصد کے جھانسے میں آکر ریاست اور 80سے 85 لاکھ مذہبی اقلیتی شہریوں کے رشتے کو کمزور کرنے کے درپے ہے ۔۔ ان دو فیصد امیر ہندؤں بھائیوں کو بھی سمجھنا چاہیے اس طرح کی چالاکیوں سے کچھ فائدہ نہیں ہونے والا آپکی مجموعی ہندو آبادی بڑی اقلیت ہے وہ تو رہے گی ہی لہذا باز رہے کسی بڑے مقصد کے لئے مل جل کر کام کریں اس طرح چندوں اور خوشامدوں سے بڑے سیاسی مقاصد نہیں حاصل ہوتے برصغیر کے بڑے ہندو لیڈروں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان پسے ہوؤں کے لئے بڑا سوچیں ۔۔ زندگی ایک بار ملتی ہے اسے ہوس زر کے پجاری بن کر گزار دینا بالکل مناسب رویہ نہیں ہے ۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں