یہ دلخراش واقعہ پیش آیا کھاریاں شہر کے نواحی گاؤں بدر مرجان میں ۔ جہاں غریب گھرانے کا ایک 8 سالہ بچہ علی رضا نزدیکی د کان سے کچھ لینے کے لئے گھر سے نکلا،راستے میں اسی گاؤں کے 3 لڑکے کھڑے تھے جو غالباً زمیندارہ وغیرہ کرتے ہیں۔ان لڑکوں نے راہ جاتے ہوئے اس معصوم کو روکا اور حکم دیا کہ یہ کانٹے دار جھاڑیاں اٹھا کر ایک طرف رکھتے جاؤ،
علی رضا نے انکار کر دیا۔۔
بس یہی اس کا جرم تھا ،ایک غریب اور گاؤں کے کمی کا بیٹا ہو کر ہمیں انکار ۔۔یہ کب گوارا تھا گاؤں کے مالکوں کے بیٹوں کو۔انکار سنتے ہی یہ اس پر پل پڑے اور کلہاڑی کے وار سے اسے لہو لہان کر ڈالا۔
اس کی آنکھ اور پیشانی پر گہرے زخم آئے ،ماں نے بتایا کہ ایک گھنٹہ تک اس کا خون بہتا رہا اور گوشت کے لوتھڑے اس کے زخم سے نکلے۔
علی رضا کا والد عرصہ پہلے وفات پا چکا ہے اور اس کی ماں گھروں میں کام کاج کر کے اپنے بچوں کو پال رہی ہے، یوں اس یتیم بچے کو زخمی حالت میں اٹھائے اس کی ماں تھانے اورہسپتال اکیلی ہی خوار ہونے پہ مجبور تھی۔
کیسا منظر تھا یہ بھی۔۔
نجانے یہ بیچاری کیسے رکشہ لے کر ہسپتال تک پہنچی ،کوئی بھی تو نہیں تھا اس کے ساتھ،ہاں اگر منظر یہی ہوتا کردار بدلتے۔۔ جی ہاں،
بدر مرجان کے کسی کھاتے پیتے بندے کے بچوں کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہوتا، تو آپ دیکھتے سول ہسپتال میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی ،لمبی لمبی لینڈ کروزروں کی لائن اور انتظامیہ کی دوڑیں لگ جاتیں۔۔لیکن یہ تو ایک یتیم بچہ تھا جس کی ماں کے پاس شاید اس گھڑی رکشے کا کرایہ بھی نہ ہو۔
کاش میں بتا سکوں کہ جب ٹانکے لگائے جا رہے تھے تو اپنے جگر گوشے کی پیشانی پہ لگے کئی انچ گہرے زخم سے ابلتے ہوئے خون کے فوارے دیکھ کر ایک بے بس ماں نے کیسے منہ پھیر کر اپنے پلو سے آنسو پونچھ ڈالے تھے۔
بچے کے حوصلے اور صبر کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی، کمال ضبط کا مظاہرہ کیا اس نے ،کوئی چیخ و پکار ،کوئی شور شرابا نہیں،شاید اسے پتہ چل گیا ہو کہ ہماری چیخیں اثر نہیں رکھتیں۔
یہاں پولیس والوں کو شاباش بھی بنتی ہے کہ اس ماں اور بچے کو یہ فی الفور کاغذی کاروائی پوری کر کے اس کے میڈیکل کی خاطر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کھاریاں لے آئے ،ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں اس بچے کی داد رسی ہو اور ہسپتال کی ایمر جنسی میں موجود ڈیوٹی ڈاکٹر فیصل اور ڈسپنسر محمد عرفان سیالوی نے کمال محبت سے اس بچے کو طبی امداد دی ،اس کے زخم سیے، اور اس کا میڈیکل تیار کیا۔
آخری خبریں آنے تک تاحال اس بچے کے ساتھ بیتے ظلم کا مقدمہ درج نہیں ہو سکا ،تھانے والے کہتے ہیں ہمیں ایکسرے رپورٹ کا انتظار ہے یعنی اب ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کر کے راہ ہموار کی جا رہی ہے کہ غریب بے سہارا عورت پر دباؤ ڈال کر معاملہ لپیٹ دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ آخر اس بچے کا قصور کیا تھا ؟ صرف حرف ِ انکار ؟جس کی اتنی بھیانک سزا دے دی گئی ،خدا خدانخواستہ اس کی آنکھ پر کلہاڑی لگ جاتی تو عمر بھر کے لئے بینائی سے محروم ہو جاتا۔
چلیں ایک لمحے کو گمان کر لیں اس سے کوئی خطا سرزد بھی ہوئی ،تو کیا ایک 8 سالہ بچے پر کلہاڑی کے وار کئے جاتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ تھپڑ مکے ٹھڈے بس لیکن یہاں تو اس کی جان لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔
اگلا سوال اس سے بھی زیادہ تلخ ہے۔۔
کون ہے جو اس بیوہ خاتون اور یتیم بچے کا ساتھ دے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اپنی برادری کی مخالفت مول لے کر اپنے دھڑے کو چھوڑ کر پورے گاؤں کے سامنے آ کر اس بچے کو انصاف دلانے کے لئے کوئی ساتھ چل سکے؟
کوئی نہیں ایک بھی نہیں
اور ایف آئی آر کے اندراج سے کیس کی پیروی تک سارے مراحل اتنے جان جوکھوں والے ہیں کہ ایک اکیلی بے بس ماں کے بس کا روگ نہیں۔
وہ مجبور ماں دو وقت کا نوالہ اپنے بچوں کو دینے کے لئے جدوجہد کرے یا تھانے کچہری کے چکر کاٹے۔ہاں ہمیشہ کی طرح ایک خوش فہمی،کہ ۔۔ریاست اس یتیم بچے کا مقدمہ لڑے۔۔
کمال کرتے ہیں آپ بھی
ڈی پی او ڈی سی صاحب بہادر کے پاس کیا اب یہی کام رہ گیا ہے؟
تو پھر؟
بہتر یہی ہے علی رضا کی ماں اپنے لال کا مقدمہ منصف اکبر کی عدالت میں دائر کر کے گھر چلی جائے اور اپنے بچوں کے رزق کی فکر کرے
پورا سچ یہی ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں