کرشن چندر کے ناول ’’ دوسری برف باری سے پہلے‘‘ کا تجزیہ :(2،آخری حصّہ)-یحییٰ تاثیر

اسی طرح کرشن چندر’’ لفظوں‘‘ کی اہمیت کے توسط سے بھی گاؤں اور شہر کا موازنہ کرتے ہیں کہ شہر میں اگرچہ لفظوں کی ریل پھیل زیادہ ہوتی ہے، لفظوں کا تبادلہ اور مختلف انواع و اقسام کے الفاظ ملتے ہیں لیکن یہ اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ ان میں معنویت اورگہرائی نہیں ہوتی۔ ان لفظوں کا کوئی مطلب نہیں۔ بس شہروں کے لوگ اپنے اندر کے خلا کو پُر کےلیے لفظوں کےانبوہ کا سہارا لیتے ہیں مگر ان میں کوئی مٹھاس نہیں ہوتی۔ شہر کی بہ نسبت اگرچہ گاؤں میں لفظوں کا تبادلہ کم ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ گہری معنویت کے حامل ہوتے ہیں، یہ کھرے اور سچے ہیں۔ ان پر دوغلے پن کی دبیز تہیں نہیں چڑھ سکتیں کیوں کہ ان کے بولنے والوں کے چہرے بھی کھرے اور سچے ہوتے ہیں۔
کرشن چندر نے اس ناول میں جاگیرداریت کے ظلم و جبر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ جاگیردارانہ نظام میں نہ صرف مال و زر پر جاگیردار کا قبضہ ہوتا ہے بل کہ نچلے طبقے کی عزت و ناموس بھی ان لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ناول کے اندر اگرچہ انھوں نے ذرا مختلف انداز میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن جاگیرداریت کی اصل روح یہی ہے۔ ہردیال سنکھ (ٹھاکرسنگھ کے والد کا بزرگ دوست) ، ٹھاکر سنکھ کو اس وقت اس بات کے متعلق بتاتا ہے جب اس کی بیوی درشنا اپنی مرضی سے نرسنگھ راج کے ساتھ راج محل جاتی ہے :
’’تمھارے باپ نے بڑی غلطی کی جو تمھارے لیے ایک خوب صورت بہو لے کے آیا۔ جو لوگ راج محل کے آس پاس رہتے ہیں، وہ کبھی خوب صورت بیویاں نہیں رکھتے۔عام سیدھی سادھی گھریلو بیویا ں ہونی چاہئیں ہماری۔ورنہ پالکی آجاتی ہے اور کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔‘‘(۴)
یہاں ایک طرف تو جاگیردارانہ نظام کی طرف اشارہ ہے لیکن عورت کی نفسیات بھی بڑی گہرائی کے ساتھ یہاں بیان ہوئی ہے۔ عموماً خواتین اپنی ذاتی(موجودہ) زندگی میں خوش نہیں ہوتی۔ اس میں طرح طرح کی قباحتیں نکالتی ہیں اور محرومیوں کا ذکر کرتی ہے اور سہولتیں نہیں گنواتیں۔ اپنی زندگی میں سکون کی تلاش کے بجائے دوسروں کی آشائشوں پر نظر رکھتی ہیں، اور آسائشیں بھی وہ جو ان کی زندگی کا حصہ نہیں ہوتیں کیوں اسے اپنی آسائشیں نظر کہاں آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ یہی شکوہ کرتی ہے کہ ہم آشائشوں سے محروم ہیں اور دوسروں کی طرح آسودہ حال نہیں، تاہم حال یہ ہے کہ جن کو وہ آسودہ حال سمجھتی ہے، وہ خوداپنی زندگی کو محرومیوں کا مرقع سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں، کوئی دوسرا آسودہ حال ہوتا ہے۔درشنا بھی ٹھاکر سنکھ کی محرومیوں سے بھری زندگی کے بجائے راج محل کی (بظاہر) آسودہ حال زندگی کا انتخاب کرتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ کیا وہ وہاں آسودہ رہ سکے گی؟عورت کی یہ نفسیات اس ناول سے بہ خوبی واضح ہوجاتی ہے جو کام درشنا اپنی غربت کی دنیا میں سرانجام دیتی ہے وہی کام عظیمہ اپنی آشائشوں سے بھرپور زندگی میں کرلیتی ہے۔
جاگیردارانہ نظام اور اس کے مظالم کی طرف متعدد اشارے اس ناول میں کیے گئے ہیں۔ایک سامراجی نظام تو وہ ہے جو ٹھاکر سنگھ اور گورگانی پر دنیا تنگ کرتا ہے۔ مظلوم ہونے کے باوجود وہ قاتل تصور کیے جاتے ہیں۔ سرکار کی طرف سے انصاف کے بجائے انھیں قاتل گردانا جاتا ہے۔ اس لیے ٹھاکر سنگھ کہتا ہے کہ خوشی وہاں ہوتی ہے جہاں راجہ نرسنگھ راج نہ ہو۔ دنیا نے ترقی کی لیکن خود کو نرسنگھ راج سے چھڑا نہ سکی۔ مصنف کے مطابق جاگیرداریت کی جدلیات ازل سے جاری ہے۔ اس کا ذکر وہ کچھ یوں کرتے ہیں:
’’ سردار گئے تو بادشاہ آگئے، بادشاہ گئے تو ڈکٹیٹر آگئے، ڈکٹیٹر گئے تو بزنس مین آگئے، پرائم منسٹر آگئے، پارٹی لیڈر آگئے، پردے کے پیچھے تار ہلانے والے بادشاہ گر آگئے ۔وہ لوگ جن کو دوسروں سے زیادہ کھانا، زیادہ کپڑے زیادہ دولت زیادہ آسانیاں زیادہ خوشحالی دی جاتی ہے۔جن کےلیے باڈی گارڈ مہیا کیے جاتے ہیں۔ ایک قلعہ، ایک محل، درجنوں نوکر چاکر، اسٹیٹ اسپیشل چارٹرڈ ہوائی جہاز، اکیس توپوں کا سلیوٹ ایک اونچا پلیٹ فارم جس پر کھڑے ہوکر مرغوں کی طرح گردن پھلا کر وہ بانگ دے سکیں۔ باقی کیا رہا۔ یوں کہنے کو یہاں سے بھی گورا راج جائے گا ایک دن، ایک دن یہ ریاستیں بھی ختم ہوں گی مگر نرسنگھ راج بھیس بدل کر پھر آجائے گا تمھاری درشنا کی عصمت اگر کسی راج محل میں نہیں تو کسی دفتر کے کیبن میں لٹے گی جرم کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں، جرم رہتا ہے وہی کا وہی، سمجھے؟۔‘‘(۵) صفحہ
فطرت کے حوالے سے اس ناول میں ایک مربوط تصور ملتا ہے۔انسان بنیادی طور پر فطرت پسند ہے اور اس میں سکون محسوس کرتا ہے کیوں کہ انسان کا اصل مسکن ہی فطرت ہے۔ تخلیقِ کائنات کے وقت انسان اور فطرت ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ گویا ایک جسم دو جان تھے۔ فطرت انسان تھی اور انسان فطرت۔ یہی کھلا آسمان، پہاڑ، دریا، صحرا، بیابان، غار اور جنگل وغیرہ انسان کے گھر تھے۔صنعتی انقلابات نے انسان کو فطرت سے دور کردیا۔انسان نے مادی ترقی حاصل کرکے خود کو فطرت سے برتر سمجھا اور اس احساس برتری کو ثابت کرنے کےلیے فطرت کی تسخیر کا ارادہ کیا۔انسان نے درختوں، جنگلوں، دریاؤں، پرندوں وغیرہ کو مسخ کیا اور یوں انسان اور فطرت کے مابین دراڑیں آگئیں۔ آج بھی ہم اس فطرت شکن دور میں جی رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بے چینی اور عدم سکون کی لپیٹ میں ہیں۔
ناول کے اندر جب ٹھاکر سنکھ اور گورگانی فطرت شکن اور مادہ پرست انسانوں کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں تو وہ انسانوں کی دنیا سے دور پہاڑوں اور جنگلوں کا رخ کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ دونوں اس مادہ پرست دنیا سے زیادہ فطرت کے قریب دنیا یعنی پہاڑوں اور جنگلوں کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ٹھاکر سنگھ جب جنگل کا نظارہ کرتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے حتیٰ کہ اپنی بیوی درشنا کو بھی فراموش کردیتا ہے۔ دیکھیے:
’’اس نے اپنے آپ کو چیڑھ کے درختوں کے نیچے بچھے ہوئے خشک سنہرے جھومروں کے غالیچے پرگرا دیا۔آہ جنگل۔۔۔جنگل۔۔۔اس کے چاروں طرف اور اس کا میٹھا منوہر سناٹا اور جنگل کی مدہم مدہم مہک نرم گرم دلائی کی طرح اس کے بدن سے لپٹی ہوئی۔یکایک درشنا اس کے دل سے نکل گئی جنگل نے بانہیں پھیلا کر اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور اس کے بند آنکھوں والے چہرے پر ایک ایسی معصوم موہنی مسکراہٹ آئی جیسے برسوں کے بعد گھر آنے پر آتی ہے۔‘‘(۶)صفحہ
ٹھاکر سنگھ کا جنگل پر یہ گمان آنا کہ گویا وہ اپنے اصل گھر لوٹا ہے اس بات کی دلیل ہے کہ فطرت کی آغوش میں انسان پلا بڑھا۔اس کا اولین مسکن یہی فطرت ہے۔ یہ فطرت انسان کے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہے۔ دیپالی کو بستی کے لوگ قبول نہیں کرتے کیوں کہ وہ اسے نیچ ذات سمجھتے ہیں، گورگانی اسے اپنے ساتھ گھر لاتا ہے اور فطرت دیپالی کو ایسا قبول کرتی ہے کہ وہ فطرت ہی کی ہوجاتی ہے۔ اس ناول میں دیپالی وہ منقش فطرت ہے جس میں فطرت کے اسرار و رموز اور رنگینیاں سمٹ کر یکجا ہوگئی ہیں گویا وہ فطرت کی تجسیمِ مجسم ہے۔ اسی طرح لالی(مونث بھیڑیا) کا دیپالی اور ٹھاکر سنگھ سے مانوس ہونا اس بات کی علامت ہے کہ فطرت انسان کی دوست ہے کیوں کہ انسانوں کے ٹھکرائے ہوئے لوگ فطرت اور مظاہر فطرت کے دامن میں زندگی گزار رہے ہیں۔
’’ناول “دوسری برف باری سے پہلے” میں کرشن چندر کا پیش کردہ تصور فطرت کوئی سطحی تصور نہیں بل کہ اس کو “فطرت کا نامیاتی” تصور قرار دیا جاسکتا ہے کہ انسان اور فطرت ایک دوسرے سے الگ نہیں بل کہ ایک وجود ہیں۔ فطرت انسان سے ہے اور انسان فطرت سے۔ کرشن چندر انسانی شعریات اور فطرت کی جمالیات کو ایک ہی چیز تصور کرتے ہیں۔ اس کے تصور فطرت کا لُب لُباب یہی ہے کہ اس فطرت شکن دور میں انسان اپنے اصل مسکن یعنی فطرت کی طرف مراجعت کرلے کیوں فطرت کی آغوش میں اس کی بقا مضمر ہے۔
اس ناول میں کرشن چندر نے انسان کے اندورن کو پیش کیا ہے۔ گویا یہ ناول شعور کے بجائے انسانی لاشعور کو زیادہ پیش کرتا ہے۔ گورگانی، جب پہلی مرتبہ ٹھاکر کو دیکھتا ہے تو اس کے بازو کو نشانہ بناتا ہے۔ ناول نگار کے مطابق اس کی بہ نسبت اگر ٹھاکر سنکھ گورگانی کو پہلے دیکھتا تو اسے ایسی جگہ گولی سے داغ دیتا کہ وہ مرجاتا۔ گورگانی اس لیے ٹھاکر سنکھ کو مارنا نہیں چاہتا کیوں کہ وہ مادہ پرست انسانوں کا ٹھکرایا ہوا ہے لیکن فطرت نے اسے قبول کیا ہے، فطرت نرمی اور انسان دوستی سکھاتی ہے۔ فطرت تخریب کے بجائے تعمیر کا سبق دیتی ہے۔ گورگانی، ٹھاکر کو کندھے پر اٹھا کر کہتا ہے کہ اگر میں چاہتا تو تمھیں کسی گہری کھائی میں پھینک دیتا اور تم گِدھوں کی خوراک بنتے۔ لیکن میں ایسا نہیں کروں گا، میں تمھارا علاج کروں گا، تمھیں، صحت مند ہونے تک اپنے گھر میں رکھوں گا۔ لیکن جب تم ایک دن چلنے پھرنے لگوگے تو۔۔ آگے وہ انسانی فطرت کا نقشہ یوں کھینچے ہیں :
’’تو ایک دن میرے ہی گلے پر چھری رکھ دوگے، یہ انسان کی فطرت ہے۔ وہ کچھ اور کر ہی نہیں سکتا۔ وہ فطرتاً احسان فراموش ہے۔ احسان فراموشی دراصل کوئی بری بات نہیں۔ وہ ایک جبلی خواہش کا اظہار ہے کہ اس احسان کے باوجود بھی تم سے کسی طرح کم نہیں ہوں۔ پانی کی طرح آدمی کی فطرت بھی اپنی سطح ہموار رکھتی ہے‘‘ (۷)
انسانی کی ایسی جبلی خصلتوں کا ذکر کرشن چندر نے ناول میں بار بار نفسیاتی انداز میں کیا ہے۔ آج کل دنیا جس چیز کے شکنجے میں جھگڑ گئی ہے وہ ہے دولت یا مادہ۔ انسان اپنی کامیابی کا راز دولت اور شہرت کو سمجھتا ہے۔ کرشن چندر ناول کے اندر زندگی اور کامیابی کا فرق بہت خوب صورتی سے واضح کرتے ہیں۔ مصنف کے مطابق آج کل لوگ جیتے بہت کم اور کامیابی کے پیچھے بھاگتے زیادہ ہیں۔ دولت اور شہرت نے انسان کو زندگی نہیں دی بل کہ اس کی زندگی کو ایسے چیزوں کے پیچھے لگا دیا کہ آخر میں انسان پر خود یہ راز کھل جاتا ہے کہ میں جس کو زندگی سمجھتا تھا وہ زندگی نہیں، وہ مادہ پرستی تھی، شہرت کا نشہ تھا۔جب کہ مصنف کے مطابق زندگی کسی ایک ڈگر پر چلنا نہیں بل کہ زندگی امکانات و ممکنات کا نام ہےاور اصل زندگی وہی جیتا ہے جو ان امکانات و ممکنات کے بھید کو جان لے۔ لیکن جدید فرد اس کے متضاد چل رہا ہے اور زندگی کے اصل معنویت سے بہت دور ہے۔ ناول کے اندر گورگانی کی زبانی، کرشن چندر کہتے ہیں :
’’صرف آخر میں، بہت آخر میں پتہ چلتا ہے کہ ہم کتے تھے اور اپنی ہی دم کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔۔۔سب، زیادہ تر لوگ، اسی سگ کے فلسفے پر عمل کرتے ہیں۔ ساری زندگی ایک ہی دائرے میں کاٹتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ جی لیے۔ یکایک میں نے اپنی ساری کامیابی پر تھوک دیا اور اس جنگل میں چلا آیا۔ “(۸)
کرشن چندر کا ناول” دوسری برف باری سے پہلے‘‘ انسانی احساسات و جذبات کی اصل ترجمانی کرتا ہے۔ ایک جگہ وہ خوشی جیسے مجرد چیز کی فلسفیانہ وضاحت بہت خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں دنیا خوشی کی اصل سے نالاں ہے کہ خوشی کیا ہے؟ دنیا خوشی کو سامان تعیش میں ڈھونڈتی ہے۔ ان کی نظر میں خوشی آسائشوں اور سہولتوں کے حصول میں ہے۔ وہ بڑی بڑی چیزوں میں خوشی تلاش رہی ہے۔ لیکن خوشی نہ اہرامِ مصر میں ہے، نہ آشوکا کے کتبوں میں اور نہ پہلی جنگ عظیم میں ہے۔ بل کہ یہ سب خوشی کی کوششیں ہیں۔ جب ایک غریب خاندان اکٹھے بیٹھا ہوا کھانا کھاتا ہے تو کرشن چندر خوشی کی تعبیر یوں نکالتےہیں:
’’خوشی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ آپ اس کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں کرسکتے۔ دوسری بڑی پہچان یہ ہے کہ یہ بہت ہی معمولی اور بظاہر حقیر اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں پائی جاتی ہے۔ جیسے ایک شرمیلی نگاہ، ایک ہاتھ محبت کا لقمہ لیے سرکتا ہوا!ایک بچے کا منہ چوگے کےلیے کھلا، کچھ سمجھے خوشی کیا ہوتی ہے۔ “ (۹)
دراصل خوشی کے اس فلسفیانہ توجیہہ کے پیچھے کرشن چندر کی اجتماعیت پسندی کا تصور پڑا ہے۔ آج کا دور انفرادیت کا درس دیتا ہے ہر کوئی اپنی ذات کے خول میں مقید ہے اور صرف اپنی ذات کےلیے محو کوشش ہے۔ خوشی اور سہولت کی غلط تعبیر کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ کرشن چندر کے مطابق خوشی انفرادی کے بجائے اجتماعی رہ کر حاصل کی جاسکتی ہے۔جب گورگانی اور ٹھاکر سنگھ ایک گاؤں “ڈونگری” میں ایک خاندان کے ہاں قیام کرتے وقت اس خاندان کو اکٹھے کھانا کھاتے دیکھتا ہے تو خوشی کی اصل مفہوم تک پہنچ جاتا ہے۔ جب کسان کی بیوی اپنے بچوں کے منہ میں لقمہ ڈالتی ہے تو اس کی آنکھیں روشن ہوجاتی ہے اور وہ بچے چڑیا کے بچوں کی طرح اپنی ماں سے چوگے (وہ غذا جو پرندے پوٹے(تھیلی) میں سے نکال کر بچوں کو دیتے ہیں) کے منتظر ہوتے ہیں۔ کرشن چندر اس منظر سے “خوشی” کا یہ تاثر لیتے ہیں :
’’دراصل ہماری پیچیدہ اور مرکب شہری زندگی کے الجھے ہوئے تانے بانے میں خوشی مکڑی کے شکار کی طرح لٹک کر رہ جاتی ہے۔ ہر شخص خوشی کے پیچھے دوڑتا ہے، حاصل بھی کرلیتا ہے پھر بیٹھ کر اسے مکڑی کی طرح کھاتا ہے مگر خوشی کھانے کی چیز نہیں ہے، استعمال کرنے کےلیے نہیں ہے، وہ محسوس کرنے کی شے ہے اور بڑی اور عظیم باتوں میں نہیں پائی جاتی۔‘‘ (۱۰)
یقیناً خوشی محسوس کرنے کی چیز ہے۔ مصنف کے مطابق شہری زندگی میں ہر کوئی خوشی کے پیچھے بھاگ رہا ہے مگر اس کے پانے سے قاصر ہے کیوں کہ شہر انفرادی زندگی کی علامت ہے، جب کہ خوشی کا صحیح ادراک اس تصور کے پیش نظر گاؤں کے ماحول میں صحیح طور پر ہوسکتا ہے کیوں کہ گاؤں اجتماعیت کی علامت ہے۔
کرشن کے اس ناول میں انسان کے تہذیبی اور تمدنی ارتقا کے حوالے سے بھی مواد ملتا ہے۔ ناول میں موجود اعلا تعلیم یافتہ اور زندگی کے بدلتے رجحانات سے باخبر کردار گورگانی کے ذریعے کرشن چندر نے کافی تصورات پیش کیے ہیں۔ گورگانی انسانی ارتقا کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انسان ابتدا میں جنگلوں اور پہاڑوں کا باسی تھا۔ لیکن ان جنگلوں میں خون خوار جانور بھی تھے اس لیے انسان نے یہاں خود کو غیرمحفوظ محسوس کیا۔اس نے جنگلوں سے نکلنے کی ضرورت محسوس کی اور یوں بستیاں اور گاؤں آباد کرنے لگا۔ یوں انسانی معاشرتی زندگی سے آشنا ہونے لگا پھر انھوں نے قصبے آباد کیے اور وہ مادی و جسمانی ضروریات میں مزید مصروف ہونے لگا۔ جب گاؤں اور قصبوں میں بھی انھوں نے تشنگی محسوس کی تو یوں شہر وجود میں آگئے۔ شہروں کو محفوظ بنانے کےلیے انسان نے اس کے ارد گرد اونچی اونچی فصیلیں تعمیر کیں۔ شہر اگرچہ انسانی ضرورت اور خوب صورت ایجاد ہے مگر اس نے انسان کو فطرت کی تسخیر سے آشنا کیا۔ اس ارتقائی صورت حال کا بیان گورگانی کے ذریعے کرشن چندر یوں کرتے ہیں :
’’ دھیرے دھیرے شہر بڑے ہوتے گئے۔ پہلے چند ہزار کی آبادی والے شہر تھے پھر شہروں کی آبادی لاکھ سے اوپر گئی۔ آج کل شہر دیوزاد ہیں۔ اکثر ایک پورے صوبے کی آبادی ایک ہی شہر میں سمٹ آتی ہے۔ جدھر دیکھو گلیاں ہی گلیاں، سڑکیں ہی سڑکیں، لوگ ہی لوگ، دکانیں ہی دکانیں، گھر ہی گھر، ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ جڑے ہوئے میلوں تک چلے جاتے ہیں۔ کہیں گھاس نہیں، پتی نہیں، پودا نہیں۔ مسلسل شہروں میں رہنے سے انسان کا رشتہ فطرت سے کٹ سا گیا ہے اور یہ بری بات ہے بڑے شہروں کا ہونا کوئی بری بات نہیں ہے۔ بری بات یہ ہے کہ شہر بے ترتیب، بے ڈھنگے اور بے روک ٹوک بنتے جارہے ہیں۔۔‘‘(۱۱)
اس لیے کرشن چندر کے مطابق اگر یہ بے ترتیب ترقی یوں جاری رہی تو وہ دن دور نہیں کہ انسان پر یہ دنیا تنگ ہوجائے اور اس کا جینا مشکل ہوجائے۔ زندگی جینا محض زندہ رہنا نہیں بل کہ بھرپور زندگی کا مقصد ضروریات کے مطابق وسائل کا موجود ہونا ہے۔ اگر ضروریات بڑھ جائے اور وسائل کی قلت ہو تو یہ انسان کی بقا کےلیے ایک بڑا خطرہ ہے۔اس لیے مصنف کے مطابق انسان کو اس منظرنامے پر غور کی ضرورت ہے۔
’’دوسری برف باری سے پہلے‘‘ متنوع جہات کا حامل ناول ہے۔اس میں بدلتی زندگی کے رجحانات و تصورات کا بیان عرق ریزی سے بیان ہوا ہے۔کرشن چندر کا فکر و فن اس ناول میں مجتمع ہوا ہےگویا یہ مصنف کے فکر و فن کا حسین امتزاج ہے۔
حوالہ جات
۱ ) کرشن چندر، دوسری برف باری سے پہلے، بک کارنر، جہلم، پاکستان، ستمبر ۲۰۲۰ء،ص ۱۱۸
۲ )ایضاً، ص ۲۴۸،۲۴۹
۳ ) ایضاً، ص۶۴، ۶۵
۴ ) ایضاً، ص ۷۰
۵ ) ایضاً، ص ۱۴۲
۶ ) ایضاً، ص ۷۷، ۷۸
۷ ) ایضاً، ص ۱۰۸
۸ ) ایضاً، ص ۱۲۶
۹ ) ایضاً، ص ۱۳۹، ۱۴۰
۱۰ ) ایضاً، ص ۱۳۹
۱۱ ) ایضاً، ص ۱۹۸، ۱۸۷

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply