جونک۔۔شاہین کمال

اس وقت میں دنیا سے بیزار اور بور ترین شخص ہوں۔ گو میرے چاروں طرف کھلکھلاتے، چہکتے لوگوں کا مجمع ہے ۔
بھئ اب دلوں کے بھید تو اللہ ہی جانے ، پر بظاہر سب ہی کی باچھیں چری کھلیں ہیں۔ میں اپنی توجہ آنے والے خوش کن لمحات کی طرف مرکوز کرنے کی کوشش میں مزید جھنجلاہٹ کا شکار ہو رہا ہوں۔ یہ کمبخت ہار بھی تو گلے میں چبھ رہا ہے اور درزی کے بچے نے شیروانی کا کالر کتنا تنگ کر دیا ہے۔ جی چاہ رہا ہے کہ پہلا بٹن کھول کے، مچھلی کی طرح منہ کھول کر لمبے لمبے سانس لوں۔

آج میری وہ شادی ہے جس کا خواب میری پژمردہ جوانی کی واحد شادابی تھا، پر وائے قسمت کہ وہ خواب شرمندہ تعبیر تب ہو رہا ہے جب صبر کا پھل پک کر میٹھا تو کیا ہی ہوتا، البتہ سڑنے کے قریب ضرور ہے۔ چوالیس سال، چوالیس طویل صبر آزما سال۔ جذبوں کی تپش پر صبر کی سل رکھتے رکھتے ، میرا پورا وجود ہی برف کی سل بن چکا ہے۔ اس حد تک کہ پرانے شادی شدہ دوستوں کے گھسے پٹے فحش لطائف بھی کسی قسم کی  تپش و تحریک پیدا کرنے سے قطعی قاصر ہیں ۔ہر چیز اس قدر اوپری اور اکتائی ہوئی لگ رہی ہے کہ حد نہیں۔ میرا نامراد ذہن اپنی منکوحہ یعنی عورت نما دلہن کو سوچنے کے بجائے، شادی ہال کے سستے ڈیکور پر تنقید اور ساتھ ہی ساتھ پرسوں  ہونے والے ولیمے کے انتظامات میں ممکنہ بچت کے امکانات کی ادھڑ بن میں مصروف  ہے۔

اس وقت اس بھری محفل میں، کھڑکھڑاتے لٹھے کی گھیر دار شلوار پر دو گھوڑا بوسکی کی قمیص اور اس کے اوپر رو سلک کی کوٹی پہنے، پیشانی پر شکنیں ڈال کر نخوت سے باتیں کرتا شخص مجھے سب سے زیادہ زہر لگ رہا ہے اور بد قسمتی سے وہی میرا باپ  ہے۔

نہ، نہ   ! میں بالکل بھی درس اور لیکچرز سننے کے موڈ میں نہیں۔ اتنے تو میرے سر پر بال نہیں، جتنے اپنی چوالیس سالہ زندگی میں، میں نے والدین کی فرمانبرداری اور تابعداری پر لیکچر سن لیے ہیں۔ میرے تو آج تک یہی سمجھ میں نہیں آیا کہ کمبخت محکمہ بہبود آبادی کم بچے خوش حال گھرانے کا سلوگن بنانے کے علاؤہ اور کرتی کیا ہے ؟

وسائل ہیں نہیں اور مسائل  ! الاماں الاماں ! ان کی تو کوئی تھاں ہی نہیں۔ مجھ سے بڑی ایک بہن اور چھ چھوٹے بھائی، بہن۔ میں کُل چار بھائی اور چار بہنیں، اور میں بد نصیب بھائیوں میں سب سے بڑا۔ ابا نے تمام حیات ایک ہی کام جم کے کیا اور وہ تھا آبادی میں اضافہ کہ ہمارے گھر ، ہر سال کا ایک نمونہ موجود ۔ ابا مکمل بے نیازی سے اس اضافی بوجھ کو میرے کندھوں پر منتقل کرتے چلے گئے۔ میں جب بھی پلٹ کر پیچھے دیکھتا ہوں تو اپنے آپ کو کبھی چھپر ہوٹل کا ویٹر، تو کبھی پنکچر لگاتے ہوئے اور کبھی گیراج کے چھوٹے کے روپ میں ہی پایا، میں، جو بچپنے میں پانا تھا اب اپنے وقت کا اسکرو ڈرائیور بن چکا ہوں ، مگر اس تمام سفر میں بچپنا اور سادگی کہیں کھو گئے۔

اٹھارہ سال کی عمر میں کچھ تگڑم اور کچھ اللہ کی مہربانی سے میں قطر آ گیا تھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ گیراج کا قطری مالک مجھ پر مکمل بھروسہ کرنے لگا اور محنت شاقہ کی بدولت انہیں تیل اور کالک سے سنے ہوئے ہاتھوں سے میں نے اپنی چاروں بہنوں کو رخصت کیا اور تینوں بھائیوں کو پڑھانے کی کوشش بھی کی، جس میں دو کُند ذہنوں نے پڑھ کے نہ دیا ۔ ابا کے اصرار پر، اوور ٹائم کی مشقت کے حاصل وصول سے منجھلے کو کریانے کی دکان کھلوا دی۔ وہ سارے کام جو میرے کرنے کے نہ تھے ، مجھ سے کروائے گے۔ نہ میں نے بچپن دیکھا اور نہ ہی نوجوانی سہم کر میرے نزدیک آئی۔

نوجوانی میں اگر قسمت کی مہربانی سے کسی شادی بیاہ میں جانا ہو جاتا اور میری نظریں کسی نازنین کی طرف دوسری یا تیسری بار اٹھ جاتی تو گھر آ کر اماں وہ لتے لیتی ، وہ لتے لیتی کہ آئندہ کے لیے عبرت ہو جاتی۔ وہ لتاڑ کر اس قدر  شرمندہ کرتیں کہ جی چاہتا آنکھوں کے ڈھیلے ہی نکال کر ان کی ہتھیلیوں پر رکھ دوں کہ خس کم جہاں  پاک۔

پہلے پہل تو میں گھر والوں کی چاہ میں قطر سے چھٹیوں پر ہر سال کراچی آتا تھا۔ یہاں سب جوش اور جذبے سے میرا استقبال کرتے تھے، مگر یہ دکھاوے کی محبت بس بکس کے کھلنے تک ہی ہوتی کہ تحفہ وصول کرتے ہی گویا تو کون اور میں کون۔ اس پر مستزاد یہ کہ فرمائشوں پر لائے گئے تحفوں میں سو سو نقص نکالے جاتے۔ بہنوئی کے مزاج نہ ملتے اور بہنیں اپنے اپنے بد مزاج خاوندوں کی جی حضوری میں میرے لائے گئے تحفوں کی مٹی پلید کر دیتیں۔ عجیب بے ثمر زندگی تھی میری، جب تک چارو ں بہنوں کی شادیاں نہیں ہوئیں، میں نے اپنی شادی کے  لیے منہ سے بھاپ بھی نہیں نکالی۔ مگر جناب کہاں؟

بہنوں کی شادیوں کے بعد ان کی زچگیاں، ان کی سسرالی شادیاں، کیا کیا نہ بھگتا میں نے۔ یہ ذمہ داریاں تو شاید میرے نصیب میں میری پیدائش کے ساتھ ہی رقم کر دی گئی تھیں۔

میرے ہزار اصرار پر اماں نے بادل ناخواستہ میرا رشتہ طے کر دیا۔ میں عرصے تک ان ماہ جبینوں کی تصاویر سے یہی کہہ کہہ  کر دل بہلاتا رہا کہ ” تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی ” مگر دونوں بار میری منگنی ٹوٹ گئی  اور بقول اماں ابا کے، لڑکی والے بہت لالچی تھے، دس تولے سونا اور ساٹھ جوڑوں کا مطالبہ تھا۔ پتہ نہیں میری ہونے والی سسرال حقیقتاً لالچی تھی یا ابا اماں کا بڑھاپا بلا کا خود غرض۔ میں نے چھبیس سال قطر میں کام کیا اور اپنی کڑی مشقت سے کمایا ہوا ایک ایک پیسہ بنا کیسی چوں چراں کے ابا کی ہتھیلی پر دھر دیا۔ میری آنکھوں سے پردہ چار سال پہلے ہی ہٹا۔

میں چھٹیوں پر پاکستان آیا تھا اور اماں اور بہنیں مجھے بطور ٹرافی، لڑکی والوں کے گھر لیے  گھوم رہیں تھیں مگر میں نے واضح طور پر لڑکی والوں کی آنکھوں میں اپنے لیے تحقیر محسوس کی۔ کچھ نے تو برملا میری بڑھتی عمر پر ظالمانہ تبصرے بھی کیے۔ بات تو حق گو تلخ، مگر یہ سچ ہے کہ میری بڑھتی عمر اور قطر کے کھارے پانی کے سبب سفید ہوتے بالوں کو نہ بڑھیا خضاب چھپا سکا اور نہ ہی میری جھلسی رنگت کو ممدو بیوٹی سیلون والے کا فیشل ہی صیغہ راز رکھ سکا۔ میں جن گھروں میں پھرایا گیا تھا، وہ سب کی سب لڑکیاں، حسین ،کم عمر اور طرح دار تھیں اور ان کی تمسخر اڑاتی آنکھوں سے واضح تھا کہ ” بابا جی یہاں کہاں؟”
میں پیاس سے تڑخہ، چٹخا ہوا عمر کے جس گرداب میں ڈوب رہا تھا ، اس مقام پہ عورت کا حسن اضافی کہ اس عمر میں تو فقط جنس عورت ہی شافی۔ میں نے شرمندگی و بے بسی کو جھنجھلاہٹ کے پردے میں چھپاتے ہوئے مزید لڑکیاں دیکھنے سے انکار کردیا۔ اماں اور ابا کے چہروں پر پھیلتے سکون نے لمحے بھر کو مجھے چونکایا مگر اسے میں نے اپنا وہم جانا۔

میری چھٹیوں کے آخری تین دن تھے اور آپا مجھے الوداع کہنے آئی ہوئی تھی۔ پورے خاندان میں واحد آپا تھی جس کے کبھی کبھار کے بھولے بھٹکے خطوط یا فون کالز فرمائشوں سے عاری ہوتے تھے۔ نیند تو خیر میری برسوں سے روٹھی ہوئی تھی سو جب میں کروٹیں بدل بدل کر تھک گیا تو سوچا چلو آج اماں اور آپا کے خالص زنانہ غیبت سیشن سے ہی استفادہ کر لوں۔ میرا گمان یہی تھا کہ آپا اپنے سسرال کا دکھڑا رو رہی ہوگی کہ بہنوں کا یہی معمول تھا۔

میں دبے قدموں لاؤنج کی  سمت بڑھا، آپا، اماں کو مورد الزام ٹھہرا رہی تھیں کہ اگر وقت پر میری شادی کر دی گئی ہوتی تو اب تک اماں کی گود میں دو، تین پوتے پوتی ہوتے۔ جواب میں اماں نے کہا کہ تم چاروں کی شادیوں میں سارا جمع جتھا ختم ہو گیا تھا۔ منجھلے کو منور سے کہہ سن کر کریانے کی دکان کروائی مگر وہ اتنا کائیاں کہ  پیسہ روپیہ گن گن کر دیتا ہے، تیسرا آوارہ و لاپروا اور چوتھے نے تو پڑھ لکھ کر الگ ہی چاند چڑھا دیا۔ نامراد کسی جوگے ہوا تو ہم سب سے قطع تعلق ہی کر لیا۔ آخر ہمارے بڑھاپے کا بھی تو کوئی سہارا، آسرا ہو  !

اماں، اولاد کی ذمہ داری تو ابا کی تھی، پر ساری زندگی ابا نے خود تو جم کر کوئی کام نہ کیا مگر منور کو بچپن سے ہی کمائی کی بھٹی میں جھونک دیا۔ تم لوگوں نے بڑا ظلم کمایا ہے اماں۔
اماں نے چھالیا کترتے ہوئے آپا کو ڈپٹا کہ
بی بنو جب سر پر پڑے گی تب پوچھوں  گی۔ آدمی درخت بھی سائے اور پھل کی امید میں لگاتا ہے، یہ تو پھر اولاد ہے۔
اے ہے  ! کیا ماں باپ کا اتنا بھی حق نہیں؟
نہیں اماں، یہ حق نہیں بلکہ منور کے حق پر ڈاکہ  ہے۔
آپا نے چوکی سے اُٹھتے ہوئے دلگیری سے کہا۔

میں کسی سے کچھ بھی کہے بنا اپنے مقررہ وقت پر قطر واپس آ گیا۔ اب میں پاکستان صرف اماں ابا کی ضرورت بھر پیسے بھیجتا ہوں۔ ابا نے بہت شور مچایا اور میں نے صرف اتنا کہا، “اتنا ہی، ورنہ یہ بھی نہیں۔ ”
بہت دفعہ میرا جی چاہا کہ کسی فیلوپینو ہی سے شادی کر لوں مگر کمبخت زبان آڑے آ جاتی تھی۔ دیر سے ہی سہی پر اوپر والے کی مہربانی سے یہ نیّا کنارے لگ ہی گئی اور ایک ملنے والے کی وساطت سے میرا رشتہ طے پا گیا ۔ روشن ، عمر میں مجھ سے کوئی تین ، چار برس چھوٹی اور جتنا بے ڈھب میں، اتنی ہی ڈب کھڑب وہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس شادی کو رچانے میں قطر سے کراچی پہنچا ہوں اور ابا جی میری خودسری پر سخت برہم و کبیدہ۔ میں آئندہ زندگی کے متعلق سخت فکرمند اور امید و بیم میں ڈوبتا، ابھرتا کہ ،
آگے نخلستان ہے یا صحرا، جانے میرا مولا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply