اور میں نم دیدہ نم دیدہ (14)-ابوبکر قدوسی

ہمیں حرم آئے چوتھا دن ہوا تھا کہ جدے سے ابوالحسن علی قدوسی کا فون آ گیا ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ صبح آتا ہوں اور طائف کو چلتے ہیں ۔ ظہر کے وقت ابوالحسن آ گئے اور کچھ ہی دیر میں ہم مکے کی  سڑکوں پر طائف کی طرف عازم سفر تھے ۔ ہم مکے کی سر بکف عمارتوں کے بیچ سے گزرتے ہوئے شہر سے باہر نکل گئے ۔طائف کو جاتی ہوئی دو رویہ سڑک مجھے اس مسافر کی یاد دلا رہی تھی کہ جو کبھی اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ طائف کو نکلا تھا ، اس کی جھولی میں اہل طائف کے لیے خیر کی خیرات تھی ، اس کا جی تھا کہ وہ طائف والوں کے ہاں جائے اور ان کو عافیت کی یہ دولت دان کرے ۔اس مسافر کے نقوش ہائے قدم پر ہم بھی طائف کو چل رہے تھے ۔ ہائے وقت کی قلت اور اجنبی دیار ، کچھ قدم تو کاش ہم بھی ویسے ہی سفر کرتے ۔ اونچے نیچے راستے ہوتے ، کہیں پہاڑ کہیں کھائیاں ، کہیں غار اور کبھی اترائی آتی ۔ ہمیں اس ایک نقش قدم کی تلاش ہوتی ،اور پھر وہ نقش قدم مل جاتا تو ہم وہاں ہونٹ رکھتے ۔
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
ابو الحسن گاڑی چلا رہے تھے اور میں سوچوں میں گم ڈیڑھ ہزار برس پیچھے سفر کر رہا تھا ۔ راستے میں سڑک کنارے ایک بہت بڑی دکان تھی جو شاید ہمارے ہاں کے حساب سے ایک کنال رقبے پر پھیلی ہوگی ۔ عموماً چھوٹی دکانوں کو یہاں ” بقالہ” کہتے ہیں اور بہت بڑی دُکانوں کو شاپنگ مال ۔
سو یہاں سے ہم نے کافی لی ، ابو الحسن نے اپنے بچوں کے لیے ان کے مزاج کے مطابق ہلکی پھلکی کھانے کی چیزیں لیں اب ان کا چھوٹا بیٹا سعد ضد کر رہا تھا کہ مجھے کوئی کھلونا لے کے دیں سو اس انوکھے لاڈلے کو کھیلن کے لیے چاند لے کے دیا اور ہم آگے سفر کو چل دیے ۔

میں نے دیکھا کہ ایک سعودی شہری شاندار قسم کی ہیوی بائک لیے ہماری گاڑی کو تیزی سے عبور کرتا ہوا نکل گیا ۔اور کچھ ہی دیر میں  آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ۔ کچھ ہی دیر میں نسبتاً اونچے پہاڑ شروع ہو گئے ۔ عموماً خشک پہاڑ تھے ، کہیں کہیں ہریالی تھی ۔ اچھی خاصی چڑھائی تھی مکہ کی نسبت طائف خاصا بلند ہے سطح سمندر سے اس کی بلندی سترہ سو میٹر ہے یعنی پانچ ہزار چھ سو فیٹ ۔ اس سبب یہاں کا موسم خوشگوار ہوتا ہے ۔ شدید گرمیوں کے موسم میں  اس خوشگواری کے سبب بہت سے سعودی دفاتر یہاں منتقل ہو جاتے ہیں یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا ہمارے ہاں انگریزوں کے دور میں گرمیوں کے موسم میں دلی سے سرکاری دفاتر شملہ میں منتقل ہو جاتے تھے اور اسے سردائی دارالحکومت بولا جاتا تھا اور وائسرائے یہاں بیٹھا کرتا ۔

پہاڑیوں کی چوٹیوں سے گزرتے نسبتاًہموار ستم اور کچھ اونچے نیچے مگر ہموار علاقے دکھائی دے رہے تھے ۔ سڑک کنارے چھوٹے چھوٹے گھاس کے قطعے اور کچھ کھجوروں کے درخت دکھائی دینے لگے ۔ میں دیکھ رہا تھا کہ جگہ جگہ سعودی خاندان گاڑی سڑک کنارے کھڑی کر کے اس گھاس پر بیٹھے ہوئے ہیں ، پاس بچے کھیل رہے ہیں ۔ ابو الحسن بتا رہے تھے کہ گھاس کے اعتبار سے سعودی جنم جنم کے پیاسے ہیں ۔ جہاں چھوٹا سا بھی گھاس کا قطعہ دیکھتے ہیں وہیں دستر خوان بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں کھجوریں سج جاتی ہیں قہوے نکل آتے ہیں ۔

جوں جوں میں آگے بڑھ رہا تھا ایسے مناظر زیادہ دکھائی دے رہے تھے ۔ پھر ایک جگہ ہم رک گئے ، یہاں   ایک بڑا پارک تھا جو سڑک کے کنارے تھا ، اس میں تین چار مختلف مقامی خاندان اپنی منڈلی سجائے اور دھونی رچائے بیٹھے تھے ۔ ہم بھی وہاں رک گئے ، کچھ دیر بچے وہاں کھیلتے رہے ۔ موسم خوشگوار تھا ، ٹھنڈی تیز ہوا چل رہی تھی لیکن ایسی سردی نہ تھی کہ بہت حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہوتی حالانکہ مکہ میں ابو الحسن نے ہمیں کچھ ڈرایا بھی تھا اور ہم نے اپنی دانست میں سردی سے بچاؤ کے لیے کچھ گرم کپڑے ساتھ رکھ لیے تھے ۔ اب میں ابو الحسن سے مذاق کر رہا تھا ” یہاں پہ تو کوئی ایسی سردی نہیں یار ” لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب اگر ابھی بادل آ جائیں اور بارش شروع ہو جائے گی تو موسم ایک دم ہی بدل جائے گا ، تب پھر ایسے کپڑوں کی ضرورت رہے گی ۔ ہم وہاں سے آگے نکلے اور قدیم شہر دیکھنے لگ گئے۔۔معمولی سی اونچی نیچی اور زیادہ تر ہموار ، گلیاں سڑکیں ہمارے سامنے تھیں ۔ لیکن جہاں جہاں میں گیا ایک دم صاف ستھرے گھر اور محلے کہ دیکھ کر رشک آئے ۔

بدقسمتی سے ہم اس دیس میں رہتے ہیں کہ جہاں اپنے گھر کو صاف کر کے کوڑا سامنے ہی گلی میں پھینک دیا جاتا ہے ۔پلازوں کی سیڑھیوں میں جائیں تو ہر موڑ پر کونے میں پان کی پیک سے دیواریں خون رنگ ہوئی ہوتی ہیں ۔

آخرش ہماری گاڑی وہاں رکی کہ جہاں کہا جاتا ہے کہ آپ کچھ وقت ٹھہرے تھے ۔ وہاں زائرین کی ایک بس آئی ہوئی تھی ۔ ایک طرف بورڈ لگا ہوا تھا کہ جس میں عربی میں نصیحتیں درج تھیں کہ مقامات محترم اور تاریخی ضرور ہوتے ہیں لیکن تبرک کا حصول رکھنا ان مقامات سے درست نہیں ہے ۔

میں اس تصور میں تھا کہ یہاں میرے حضور آئے تھے اور آ کر انہوں نے ان لوگوں کو توحید کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے رسول مکرم کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تھا۔
آپ کہ مکے کے معزز ترین انسان تھے ۔
اور آپ کہ ان کی فلاح کے واسطے پہنچے تھے ۔
اور آپ کہ ان کو توحید کی دعوت دینے پہنچے تھے ۔
اور آپ نے جب اپنی بات کہہ سنائی تو ان کی زبان پہ طعنے تھے اور طنز کے تیر کہ ۔۔
“کیا اللہ کو تمھارے سوا کوئی نہیں ملا تھا ؟”
اس جملے نے دل پر کیا کیا نہ تیر چلائے ہوں گے ، کیا کیا قیامتیں نہ گذر گئی ہوں گی ۔۔لیکن پھر بھی دعا ہی لبوں سے نکلی –
پتھر کھا کے ، جسم و جاں زخمی کروا کے ، لہو لہو ہمارے حضور دیوار سے ٹیک لگاۓ سر جھکائے بیٹھے تھے، نا جانے دل پر دکھوں کیا کیا کیفیت ہو گی
دعوت دین کا کام شروع ہوئے دس برس بیت گئے تھے ، طویل دس برس اور دل کی مراد بر نہ آئی۔ جب انسان کو کوئی نعمت ملتی ہے تو فورا ً گھر کو بھاگتا ہے کہ اپنے پیاروں کو اس میں شریک کرے ۔ ہمارے نبی پاک کو بھی جب ایمان کی نعمت ملی ، تو گھر کو نکلے مگر مکے والے کچھ ایسے  شقی تھے کہ آپ کو ہمیشہ جھٹلایا ،تو آپ ایک روز نجران کی راہ نکلے اور طائف جا پہنچے ۔

طائف کے سرداروں کے پاس پہنچے  ، یہ ثقیف کے سردار تھے اور تینوں بھائی – زمانے کی سب سے بڑھی ہوئی نعمت آپ نے ان کے سامنے رکھ دی کہ ” لو ایمان قبول کر لو۔۔اور جہانوں کے مالک ہو جاؤ۔۔”
ایک بولا کہ ” اگر تم ہی نبی ہو تو میں کعبے کا پردہ ہی پھاڑ دوں گا ”
دوسرا بولا کہ ” اللہ کو تمھارے علاوہ کوئی اور نہ ملا تھا ” تیسرا ذرا سیانا تھا ، کہنے لگا ” اگر تم سچے نبی ہو میں کیوں تمھارے خلاف بات کروں اور اللہ کے غضب کا حق دار ہو جاؤں اور اگر جھوٹے ہو تو مجھے تم سے بات بھی نہیں کرنی ”
آپ وہاں سے نکلے اور دوسرے لوگوں کے پاس چلے ، بازاروں میں نکل گئے ، عام لوگوں کو دین کی دعوت دی ۔۔لیکن یہ تو نصیبوں کے فیصلے ہوتے ہیں ضروری تو نہیں ہر ایک کے بھاگ جاگ جائیں ، اس روز طائف والوں کے مقدر بھی سوۓ پڑے تھے ۔

دس دن ، دس طویل دن آپ وہاں رہے اور اہل طائف کی ہٹ دھرمی کے بعد واپس نکلنے کے ارادے سے مکے کی راہ ہو لیے تو سرداروں نے اپنے اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا ، اب ظالموں نے آپ پر پتھر برسانا شروع کیے ، توہین اور تذلیل کی خاطر بد زبانی کر رہے تھے ،آپ زخمی پاؤں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے اور سیدنا زید بن حارثہ ڈھال بنے آپ کے پیچھے پیچھے ۔۔۔ سیدنا زید کے سر پر پتھر لگ رہے تھے ، آپ نے یہ پڑھا ہو گا نا کہ ہمارے حضور کو سیدنا زید سے بہت پیار تھا ، اور آپ کو یہ بھی علم ہو گا آپ کے بیٹے سیدنا اسامہ سے بھی بہت پیار تھا ، خبر ہوئی کیوں پیار تھا ؟
کیسا سفر تھا کتنا عجیب سفر تھا ، کون جانتا تھا کہ ڈیڑھ ہزار برس بعد اس سفر کو لکھتے ، پڑھتے ہزاروں میل دور کچھ اکھیاں برس رہی ہوں گی ، کہیں دور بن بادل برسات ہو رہی ہو گی ۔
۔۔۔ کون جانتا تھا کہ کبھی ان لہو کے قطروں سے محبت کے موتیوں کی مالا پروئی جائے گی اور ایمان کی صورت ارب ہا ارب لوگ اسے گلے کا ہار بنائیں گے ،پانچ کلومیٹر تک یہ سفر صعوبت دراز ہوا جا رہا تھا کہ ایک باغ آ گیا ۔ یہ عتبہ اور شیبہ کا باغ تھا ، جو ربیعہ کے بیٹے تھے ، زخمی جسم و جان لیے ہمارے حضور نے اس باغ میں پناہ لی تو ایک دیوار سے ٹیک لگا کے بیٹھ گئے ،پاؤں تک خون تھا ، اتنا خون کہ جوتے مشکل سے اترے ۔ نڈھال نڈھال سے ہمارے حضور دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے کہ عتبہ اور شیبہ نے دیکھ لیا۔اس وقت ان پر خاندانی محبت کا کچھ غلبہ ہوا تو غلام کو انگور دے کے آپ کے پاس بھیجا / آپ نے انگور کھانے شروع کیے ، بسم اللہ پڑھی تو غلام چونک گیا ۔
”یہ کلمات تو یہاں کوئی نہیں پڑھتا ، آپ کون ہیں اور کیونکر یہ پڑھا ”
آپ نے پوچھا کہ تم کہاں سے ہو ؟
تو اس نے بتایا کہ :
“دین عیسیٰ پر ہوں اور نینوا میرا دیس ہے –
آپ نے کہا ” اچھا ، یونس بن متی کے ہم وطن ہو ”
تو یکبارگی جیسے چونک پڑا کہ ” آپ انہیں کیسے جانتے ہیں ؟”
آپ نے فرمایا کہ ” میں بھی نبی ہوں اور وہ بھی نبی تھے ، سو یونس میرے بھائی ہیں ”
یہ سنا تو وہ مقدروں والا آپ پر جھک گیا اور ہاتھ چومنے لگ گیا ۔
ایک روز سیدہ عائشہ نے آپ سے پوچھا تھا
“کہ کیا آپ کی اس حیات میں احد کے دن سے بھی مشکل دن کوئی اور رہا ؟”
تو آپ نے فرمایا تھا ۔۔
“عائشہ ہاں ! تمہاری قوم سے مجھے جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے سب سے مصیبت والا دن طائف کا دن تھا کہ جب وہاں کے سرداروں نے میری تکذیب کی ، اور مجھے طائف سے باہر نکلنا پڑا ، جب میں قرن الثعالب پہنچا تو جبرائیل چلے آئے اور پہاڑوں کا فرشتہ ان کے ہم راہ تھا ، اس نے کہا :
“اے محمد ! اگر آپ حکم دیں تو انہیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں ۔”
تو میں نے کہا : ” نہیں مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی ۔۔۔۔”
انہی تصورات کے ساتھ میں طائف شہر میں پھر رہا تھا ۔۔۔
اسی طائف میں سیدنا عبداللہ بن عباس کا گھر اور مسجد تھی وہ مسجد کہ  جہاں پر بیٹھ کر آپ قرآن کے جواہر و یاقوت شاگردوں کو دان کرتے جو آج بھی ہماری رہنمائی کر رہے ہیں ۔طائف کبھی چھوٹا شہر ہوتا تھا لیکن اب پانچ لاکھ آبادی کا شہر ہے ۔ طائف کی وسعت اور صفائی ستھرائی نے مجھے حیران کیا ۔ میرا گمان تھا کہ ایک چھوٹا شہر ہو گا لیکن میلوں میں پھیلا ایک مکمّل اور جدید شہر میرے سامنے تھا ۔ اس کے بڑے مال میں گیا جو ایکٹروں پر پھیلا ہوا تھا ۔ ہم اس مال میں کافی دیر تک پھرتے رہے تمام بڑے برانڈ وہاں موجود تھے خوشبو کی دکانیں اور کھانے پینے کے مراکز سب موجود تھے لیکن خالی خالی تھے ۔ میں نے ابو الحسن سے پوچھا کہ
” اتنا بڑا مال اور اتنا خالی ”
ہمارے لاہور جیسے شہر میں بھی شاید ایک بھی نہ ہوگا لیکن ہمارے لاہور میں جو بڑے مال ہیں ان میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے اور اور بیک وقت سینکڑوں لوگ چل رہے ہوتے ہیں کہ جیسے میلہ لگا ہو اور یہ روز کا منظر ہوتا ہے ۔ اس پر مجھے ابو الحسن نے بتایا کہ ” یہاں کے مال عموماً شام ڈھلے آباد ہوتے ہیں اور خاصا ہجوم ہو جاتا ہے ” ایک دوسری بات بھی میرے ذہن میں آرہی تھی کہ اس چھوٹے شہر میں بھی ، اس مال میں تمام بڑے بڑے برانڈ موجود ہیں تو اس کا سبب یقیناً یہی ہوگا کہ لوگوں کی قوت خرید خاصی اچھی ہے ، اس سبب تھوڑی بکری میں بھی زیادہ نفع ہوتا ہے اور تھوڑے گاہک بھی کافی رہ جاتے ہیں۔

شہر ایسے صاف ستھرا تھا کہ جیسے ابھی ابھی کسی کی آمد ہے اور اس واسطے سجایا گیا ہے ۔ شہر کی وسعت مسلسل حیران کر رہی تھی ۔ ہم شہر میں پھرتے ہوئے اب واپسی کے سفر پر تھے ۔ کچھ ہی دیر میں ہم پھر پہاڑوں کے   ساتھ ساتھ تصورات کے بیچ میں تھے ۔

جب آپ طائف سے کچھ باہر جاتے ہیں تو میقات آ جاتا ہے ۔ میں مکہ سے احرام باندھنے کے ارادے سے گیا تھا  سو جب میقات آیا تو ہم رک گئے ۔ میقات پر بنی مسجد اور معتمرین کے لیے بنے غسل خانے سب بہت صاف ستھرے تھے ۔ میقات کی  عمارات کافی سیڑھیاں اُتر کر تھیں ۔ اور عمارت گولائی میں بنی ہوئی تھی ۔ اب شام کا وقت قریب تھا اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی سو موسم میں کافی خنکی تھی ۔ میں نے احرام باندھا اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتا اوپر آیا تو گاڑی تک پہنچنے میں کافی سردی محسوس ہوئی ۔
گاڑی میں بیٹھے اور مکہ کی طرف چل دیئے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply